اقبال کے نظریۂ فن کا افلاطون اور ارسطو سے اجمالی جائزہ


فن کی جامع تعریف بیان نہیں کی جا سکتی البتہ کسی کام میں ایسی حسن و خوبی پیدا کرنا کہ اس سے انسان کا ذوق جمال تسکین پائے، فن کہلاتا ہے۔ راقم الحروف نے فن کے حوالے افلاطون اور ارسطو کے فلسفہ کو پیش کرنے کے بعد اقبال کے نظریہ فن پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ جہاں افلاطون فن کو نقالی کہتا ہے اور شاعری کو نقل کی نقل قرار دے کر شعراء کو اپنی جمہوریت سے دیس نکالا کرتا ہے، وہیں ارسطو نے اس نظریہ کی قبولیت کے حوالے سے چند باتوں میں حمایت اور چند میں مخالفت بھی کی ہے۔

وہ فن کو نقل تو مانتا ہے مگر نقل کی نقل کہنے سے انکاری ہے۔ وہ افلاطون کے اس نظریے سے بھی اختلاف کرتا ہے کہ یہ دنیا محض ایک نقل یا فریب ہے اور ادب کو اخلاق کا پابند ہونا چاہیے۔ ارسطو فن کو ہر قسم کے دباؤ سے پاک رکھتا ہے البتہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس آزادی کی وجہ سے فن پارہ اخلاقی برائیوں یا فحاشی کا پروپیگنڈا بن جائے۔ وہ فن میں حسن پیدا کرنے کا قائل تو ہے مگر اخلاقی قدروں کی پامالی کو برداشت نہیں کرتا۔ فن کے نظریات پر بحث کرتے ہوئے بوطیقا میں وہ واضح کہتا ہے کہ انسان کو اپنے مخفی خیالات کے اظہار کی ضرورت ہر حال میں ہوتی ہے اور اس کا بہترین ذریعہ ڈرامہ ہے کیونکہ اس کے ذریعے انسان کے پوشیدہ جذبات، محبت، نفرت، غصہ، ہمدردی اور ایثار وغیرہ کی تسکین ہو جاتی ہے۔

حضرت اقبال نے ان دو فلاسفروں کی باتوں میں کسی قدر اختلاف کیا ہے۔ اقبال دنیا اور زندگی کو نقل یا بے مقصد تصور نہیں کرتے بلکہ وہ زندگی کو ٹھوس حقیقت سمجھتے ہیں۔ وہ افلاطون کی طرح ان صوفیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو زندگی یا دنیا سے فرار کو نجات کا ذریعہ جانتے ہیں بلکہ اقبال کی نگاہ میں قرآن کی وہ آیات جن میں تسخیر کائنات کی دعوت ہے اور وہ حدیث جس میں رہبانیت کا انکار ہے، واضح ہیں۔ اس لیے وہ زندگی کو متحرک اور طوفانی پسند کرتے ہیں اور زندگی کو افسردہ اور بے مقصد نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ وہ ساری کائنات کا وجود انسانی تسخیر کے لیے سمجھتے ہیں۔

اس کا ثبوت ان کے کلام میں خودی اور فوق البشر کا فلسفہ ہے۔ اقبال شاعری کو نقل یا نقل کی نقل بھی نہیں سمجھتے کیونکہ نقل سے جذبات اور تاثرات کو فن میں شامل نہیں کیا جا سکتا اور فن پارے میں تاثر اسی صورت پیدا ہو گا جب اس میں شاعر کے جذبات اور تاثرات شامل ہوں۔ اقبال ارسطو کے اس نظریہ پر مخالفت کرتے ہیں کہ فن کو آزاد ہونا چاہیے۔ اس معاملے میں وہ افلاطون سے متفق ہیں کہ غیر پابند ادب سراسر بے ادبی ہے۔ علامہ فن کو اخلاقی قدروں اور تہذیب و شائستگی کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور اس قسم کے ادب کے خلاف ہیں جو آزادی کا سہارا لے کر فحاشی، عریانی اور بے راہ روی سکھائے۔

ادب کی افادیت کے سلسلہ میں علامہ افلاطون اور ارسطو دونوں کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ادب برائے ادب کی اصطلاح کچھ نہیں۔ وہ ادب برائے زندگی کے طرفدار ہیں۔ علامہ ڈرامہ کے حوالے سے ارسطو کے نظریات کو نہیں مانتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی چیز جس سے فرد کی شخصیت بالذات ختم ہو کر دوسرے کے رنگ میں رنگی جائے، انسانی خودی کے خلاف ہے اور اسی وجہ سے صوفیا کے تصور فنا کو پسند نہیں کرتے۔ علامہ کے ہاں فنا کے معنی اپنی ذات کو معدوم کرنا نہیں بلکہ اصل میں گم ہو کر اپنی خودی کو وسعت دینا ہے۔

یہی کمال ہے تمثیل کا کہ تو نہ رہے

رہا نہ تو تو نہ سوز خودی، نہ سوز حیات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments