با اختیار خواتین اور شو پیس خواتین میں فرق


وجود زن سے ہے کائنات میں رنگ

میرا اپنی تحریر کا آغاز اس جملے سے کرنے کا مقصد یہی ہے کہ میں نہ صرف خواتین کو برابر کی مخلوق سمجھتا ہوں بلکہ ان کو برابر کا شہری کہنے کا داعی بھی ہوں اور ایسے اقدامات کا حامی ہوں جس سے ہماری خواتین کو با اختیار بنایا جا سکے لیکن ساتھ ہی ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں ہمارے ہاں ”فیمنزم“ کے نام پر جو تحریک کی قیادت کرنے والی خواتین ہیں ان کی اکثریت پاکستانی خواتین کے بنیادی مسائل سے آگاہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہاں کی بنیادی رسوم رواج سے آگہی رکھتی ہیں۔ اسلام آباد میں بیٹھ کر فاٹا اور بلوچستان کی خواتین کے مسائل کا نہ تو ادراک کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا ادراک کیے بغیر ان کے حل کے لیے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔

کراچی، لاہور، اسلام آباد کوئٹہ، پشاور جیسے بڑے شہروں کی حد تک ہی ہم دیکھیں تو یہ شہر ثقافتی طور پر مختلف پہچان رکھتے ہیں اور اسی لیے ان خواتین کے مسائل بھی مختلف ہیں اسی طرح دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مسائل مقامی ثقافت کے مطابق مختلف ہیں۔ یہاں ہم ان چیدہ چیدہ مسائل کا ذکر کرتے ہیں جو ان تمام خواتین میں مشترکہ ہیں اور جو خواتین کو با اختیار بنانے میں رکاوٹ ہیں ان میں سب سے اہم تو خواتین کا جائیداد میں حصہ نہ ملنا ہے ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ خواتین اپنا حصہ لینے کی بجائے اسے بھائیوں کو دے دیتی ہیں اور بھائی بھی اس حصے کو دبا کر بیٹھ جاتا ہے اور ظاہر یہ کرتا ہے کہ اس کی بہن نے اسے معاف کر دیا ہے حالاں کہ وہ خواتین حقیقی طور پر مالک بنی ہی نہیں ہوتیں کیوں کہ پراپرٹی ہو یا دولت ہو وہ ان کے نام پر ٹرانسفر ہوتی ہی نہیں تو پھر کیسے وہ اپنا حصہ کسی دوسرے کو دینے کا اختیار رکھتی ہیں؟ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے جائیداد ہر صورت خواتین کے نام پر ٹرانسفر ہو اور پھر ایک مخصوص مدت تک ان خواتین کے نام پر رہے اور کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ سے خواتین کو محفوظ رکھا جائے

دوسرا اہم مسئلہ خواتین پر تشدد کا ہے اور طلاق کی وجہ سے بچوں کا نقصان ہونے کا ہے اس کے لیے میری گزارش ہے کہ طلاق کسی صورت بھی تنہائی میں نہ دی جائے بلکہ اسے نکاح خوان کے روبرو یا کسی ایسی اتھارٹی کی موجودگی میں سرانجام دیا جائے جو خواتین کے حق مہر سے لے کر جائیداد تک اور بچوں کے نان نفقہ تک کی ذمہ داری کا فیصلہ کرسکے، جس طرح نکاح کو گواہوں اور اتھارٹی کی موجودگی میں لازمی کیا گیا ہے اسی طرح طلاق کے لیے بھی اتھارٹی کی موجودگی لازمی قرار دی جائے اس سے خواتین پر تشدد میں کمی آنے کے امکانات ہیں اور ایسے کیسز یونین کونسل یا ویلج کونسل میں حل ہونے چاہئیں تاکہ عدالتوں پر بوجھ کم سے کم ہو اور وکیلوں کی فیسوں اور وقت کے ضیاع سے خواتین کو محفوظ رکھا جا سکے۔

تیسرا بڑا مسئلہ معاشی روزگار کا ہے ہمارا سماج چوں کہ زرعی سماج سے سرمایہ دارانہ سماج میں بدل رہا ہے اور اس بدلاؤ کے نتیجے میں وہ خواتین جن کا روزگار کھیتی باڑی یا ڈیری فارمنگ سے وابستہ تھا ان کے لیے روزگار کے مواقع کم سے کم ہیں اس لیے آئے روز گھروں میں جھگڑوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ معاشی خرابی اور اخراجات میں اضافہ ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے ان خواتین کے لیے کچھ ایسے روزگار کا بندوبست کیا جائے جس سے وہ ایک مخصوص ماحول میں رہتے ہوئے استفادہ کرسکیں جیسے پیکجنگ، حکومتی امداد کے تحت بوتیک اور شی شاپس وغیرہ کا فروغ اس کے علاوہ گھروں میں خواتین کو کام پر لگا کر نہ صرف قیمت خرید کو کم کیا جاسکتا ہے بلکہ خاندان کی قوت خرید بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔

خواتین کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ تعلیم کی سہولتوں کا فقدان ہے اور ہر 3000 کی آبادی میں ایک ہائی سکول کا ہونا بہت ضروری ہے اس کے لیے حکومت اور نجی شعبے کا اشتراک بہت ضروری ہے تاکہ ہم اپنی بچیوں کو ایک ذمہ دار شہری بنا کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرسکیں

خواتین کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ جنسی زیادتی بھی ہے جو کہ معاشرے میں قانون کی بالادستی نہ ہونے اور کمزور قانون شہادت کی وجہ سے روز بروز اضافہ کا شکار ہے اس حوالے سے گزارش ہے کہ قتل اور ریپ جیسے مقدمات میں مدعی کے معاف کرنے باوجود بھی ریاست خود اس کی مدعی بنے اور ایسے لوگوں کو کم از کم عمر قید لازمی دی جانی چاہیے اور کیس کو جدید تقاضوں کے مطابق جلد از جلد نبٹایا جائے اور مخصوص عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے جب تک ریاست کی مدعیت میں مقدمات درج نہیں ہوں گے تو زناء بالجبر اور غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کم نہیں ہوں گے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ایسے تمام کیسز میں ماں کے جیسا کردار ادا کرے

ایک اور بڑا مسئلہ خواتین کو شو پیس بنانا بھی ہے آج ہمیں اس پر سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نے عورت کو اس کے حقوق دینے کے بجائے ماڈلنگ کا ایک ذریعہ بنالیا اور اسے جنسی لذت کے حصول کا ایک ذریعہ سمجھ لیا ہے اور اس حوالے سے ہمیں اپنے نصاب سے لے کر تشہیری مہم تک میں کونسلنگ کو فروغ دینا ہو گا اور اپنے بچوں کے ذہنوں میں یہ بٹھانا ہو گا کہ یہ بچیاں بھی آپ ہی کی طرح کی انسان ہیں اور ان کی تربیت کر کے انھیں بھی مرد کے برابر کی حیثیت دی جا سکتی ہے

اب آخر میں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تمام کمزوریاں اور مسائل نچلے متوسط طبقہ اور غربت کی سطح سے نیچے لوگوں کے ہیں اس لیے ان پر آواز بھی اسی طبقے کے لوگ اٹھاتے ہوئے اچھے لگیں گے کیوں کہ اشرافیہ کی خواتین نہ تو کمزور ہیں اور نہ ہی انھیں ان مسائل کا سامنا ہے جن کا میں نے تذکرہ کیا لہذا جب اشرافیہ کی خواتین مقامی کلچر کو نظرانداز کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کے نعرے لگاتی ہیں تو خواتین کے لئے حقوق کا حصول مزید مشکل ہوجاتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments