قلم کی روشنائی اور تاریخ کی سیاہی


درویش شہرت عام اور بقائے دوام کے دربار میں جگہ پانے کی خواہش نہیں رکھتا۔ افتاد طبع کو تو ایک طرف رکھیے، انحرافی فکر اور تقلید کی روش سے گریز پائی کا رجحان اپنی جگہ بھاری پتھر تھا کہ لغت میں مشکل پسندی بھی بغیر بتائے چلی آئی۔ لفظ تو مشکل نہیں ہوتا، لغت میں رکھا ہے تو معنی جاننا کیا دشوار ہے۔ امتحان تو یہ ہے کہ لفظ کی سادگی میں خیال کے امکان کو کیسے سمیٹا جائے۔ یہاں اس نسل کی سانس پھولتی ہے جس نے گزشتہ چار دہائیوں میں آمریت کی چھتر چھایا تلے قدامت پسندی کے اجزا کو تصوف کا بگھار لگا کر صحافت کا کریا کرم کیا اور ادب کی لٹیا ڈبوئی ہے۔ کوچہ و بازار کا ابتذال سادگی نہیں کہلاتا۔ میر کے ہاں سادگی دیکھیے، سہل ہے میر کا سمجھنا کیا / ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے۔ ہم ستم زدگاں کی کیا پوچھتے ہیں، سیاست کی قبا اوڑھتے ہیں تو جمہوریت کا خواب آ لیتا ہے، ادب کی ردا میں پناہ لیتے ہیں تو میر کی افسردگی سے واسطہ پڑتا ہے۔ بتانا محض یہ تھا کہ محب مکرم مبین احمد کا پیغام برقی ڈاک سے موصول ہوا ہے۔ عزیز محترم کو توقع تھی کہ میں گزشتہ کالم میں سیالکوٹ کے دلخراش سانحے پر کچھ لکھوں گا۔ ان کی امید کے برعکس درویش نے وہاڑی میں بابائے قوم کے مجسمے سے عینک کی چوری پر خامہ فرسائی کو ترجیح دی۔ کیا عرض کی جائے، نواب سعادت اللہ خان کا اختیار اور انشا اللہ خان انشا کی بے بسی یاد آ گئی۔
آج کے سعادت اللہ صاحبان کا نام لینا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں، صحافی کے لئے اپنے پیچھے بلا لگا لینا ہے۔ انشا اللہ خان کے پردے میں درویش کی البتہ کتھا سنیے۔ بیس یا بائیس کا سن تھا۔ یہ خواب، جستجو اور ولولے کے دن ہوتے ہیں۔ 1980 کی دہائی ایک طرف آمریت کی بدترین رات تھی، دوسری طرف اہل پاکستان کی مزاحمت کا روشن ترین باب۔ آمریت دراصل ریاست اور حکومت میں حد فاصل کے انہدام کو کہتے ہیں۔ خود ساختہ صدر پاکستان ضیا الحق ایک کے بعد ایک من مانے اور مستبد قانون کا پتھر عوام کی پشت پر دھرے جاتے تھے۔ اسی ہماہمی میں برطانوی سرکار کے بنائے Hate Speech Law Section 295 میں ترمیم کر کے دو برس کی سزائے قید کو دس برس میں بدلا گیا۔ کچھ وقفے کے بعد 295 (ب) کے تحت عمر قید کی سزا رکھی گئی۔ بالآخر فروری 1990 میں لازمی سزائے موت کا قانون منظور ہو گیا۔ 1927 سے 1985 تک دفعہ 295 کے مقدمات پاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے لیکن پھر تو گویا دریائے جنوں کا پشتہ ٹوٹ گیا۔ اعداد و شمار اور واقعاتی تفاصیل سے قطع نظر خون خاک نشیناں کی درجہ بندی ملاحظہ فرمائیے۔ 1994 میں 38 سالہ ملزم منظور مسیح کو عدالت سے باہر قتل کیا گیا۔ اس مقدمے کے دو دیگر ملزمان سلامت اور رحمت کو بری کرنے کی پاداش میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال بھٹی کو 1997 میں ان کے چیمبر میں قتل کیا گیا۔ مئی 1998 میں بشپ جان جوزف نے ایوب مسیح کیس میں بطور احتجاج خود کشی کر لی۔ 2003 میں توہین مذہب کے زیر حراست ملزم سیموئل مسیح کو ایک پولیس اہلکار نے قتل کر دیا۔ 2010ءمیں شیخوپورہ کی آسیہ مسیح نامی خاتون کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس پر گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کی طرف سے اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا۔ 4 جنوری 2011 کو سلمان تاثیر کو ان کے سیکورٹی گارڈ نے قتل کر دیا۔ حکمران جماعت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس واقعے پر اپنے منصب کے منافی تبصرے کیے۔ سیکورٹی گارڈ کو سپریم کورٹ کی طرف سے سزائے موت پر احتجاج سے تحریک لبیک نے جنم لیا۔ مارچ 2011 میں مسیحی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں قتل کیا گیا۔ 7 مئی 2014 کو ملتان کے وکیل راشد رحمان کو توہین مذہب کے ملزم جنید حفیظ کا عدالتی دفاع کرنے کے جرم میں قتل کیا گیا۔ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کے بہیمانہ قتل سے قبل مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مبینہ ملزمان کو قتل کرنے کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ سیالکوٹ واقعے پر ردعمل کی بڑی وجہ مقتول کا غیرملکی شہری ہونا ہے۔ داخلی سیاسی حساسیت کا اندازہ تو وزیر دفاع پرویز خٹک کے بیان سے کیا جا سکتا ہے۔
اے میرے عزیز مبین احمد، جس قانون میں زیرحراست ملزم محفوظ ہے اور نہ جج، وکیل محفوظ ہے اور نہ بری کیا جانے والا مجرم، احتجاج کرنے والا مامون ہے اور نہ صوبے کا گورنر۔ جس قانون کے تحت بری ہونے والے ملزم بھی مع اہل و عیال جان بچانے کے لئے وطن بدری پر مجبور ہوں، جس قانون کی بنائے انصاف پر پارلیمنٹ یا عوامی سطح پر بحث کی اجازت ہی نہیں۔ جس قانون کے بارے میں گزشتہ ربع صدی میں کوئی ایسا حکمران نہیں گزرا جس نے اس قانون کو من و عن برقرار رکھنے کی یقین دہانی نہ کرائی ہو، جس قانون کے بارے میں ہر نوع کے اشتعال انگیز بیانات کی کھلی اجازت ہو۔ جس قانون کے تحت ایم ڈی تاثیر کا بیٹا محفوظ ہو اور نہ آپا نثار فاطمہ کا صاحبزادہ، جس قانون کے تحت جھوٹا الزام لگانے والوں کی جواب دہی کا کوئی تصور نہ ہو، جس قانون کے بارے میں تین دہائیوں سے عالمی ماہرین قانون اور غیر ملکی حکومتوں کی گزارشات رائیگاں رہی ہوں، آپ چاہتے ہیں کہ ایک نہتا قلم کار اس قانون پر اس اخبار میں رائے زنی کرے جسے گزشتہ ایک دہائی سے ریاستی عتاب کا سامنا ہے۔ افسوس کہ درویش کا نام ایمل زولا نہیں، توہین مذہب کا معاملہ ڈرے فس کا مقدمہ نہیں اور پاکستان انیسویں صدی کا فرانس نہیں۔ ایسے میں لکھنے والے کے قلم کی روشنائی خشک ہو جاتی ہے اور تاریخ کی سیاہی باقی رہ جاتی ہے، اس سیاہی کے کچھ ذرے آپ نے 3 دسمبر کو سیالکوٹ کی وزیرآباد روڈ پر اڑتے دیکھے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments