ہجوم کی نفسیات


“ہم سب” کے دیرینہ کرم فرما جمیل خان صاحب  نے یہ مضمون 2013ء میں رقم کیا تھا۔ چارسدہ، سیالکوٹ اور فیصل آباد کے حالیہ واقعات کے تناظر میں اس تحریر کی بار دگر اشاعت کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ ہم نے ان آٹھ برسوں میں کیا سیکھا؟

***               ***

جب لوگ کسی کو زندہ جلا کر یا پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے منظر کو اطمینان سے دیکھ کر لطف اٹھا رہے ہوں تو اس سے ان کی ذہنی صحت کا اندازہ کوئی بھی شخص لگا سکتا ہے۔ اور پھر جبکہ انہیں یہ بھی یقین ہو کہ وہ جو کچھ بھی کر گزریں قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ آج پاکستان کی نوجوان نسل کو کچھ لوگ تبدیلی کا نشان قرار دے رہے ہیں، محض اس لیے کہ نوجوانوں کا تناسب اس وقت ملکی آبادی میں سب سے زیادہ ہے، جبکہ یہ ایک انتباہ کرنے والی گھنٹی ہے کہ اب خطرہ سر پر آن پہنچا ہے۔

یہ نوجوان جن کی عمریں پندرہ سال سے لے کر بیس بائیس سال کی ہیں، چند ہی برسوں میں روزگار کی مارکیٹ کی طرف بڑھیں گے، جہاں صورتحال یہ ہے کہ ملک میں امن و امان کی ابتر صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری برسوں سے رکی ہوئی ہے۔ توانائی کے بحران نے صنعتی پہیہ جام کر رکھا ہے۔ کبھی پاکستان ٹیکسٹائل انڈسٹری میں اپنی پہچان رکھتا تھا، اب یہ انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے آئیکون شیخانی کی بنگلہ دیش میں وفات اور وہیں پر تدفین بھی ہمارے بعض تجزیہ نگاروں کو ملک کی بدترین اور ابتر معاشی صورتحال کی جانب متوجہ نہیں کر سکی ہے اور وہ اب بھی خوش فہمی کے چراغ جلائے بیٹھے ہیں اور تندئی باد مخالف کو کوسنے دے رہے ہیں۔ جب نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو روزگار نہیں ملے گا تو وہ کیا کریں گے؟

گزشتہ برس برٹش کونسل اور نیلسن نامی امریکی تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اس رپورٹ سے ہمارے معاشرے کی نہایت تاریک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ یہ نوجوان نسل اب روزگار کمانے کی عمر میں داخل ہو رہی ہے اور پاکستان کی انتہائی ناقص اور کمزور اقتصادی حالت کے پیش نظر اکثریت کو روزگار ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اگر اس بارے میں فوری طور پر کچھ نہ کیا گیا تو اندیشہ ہے کہ یہ صورتحال بہت خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ نیویارک یونیورسٹی میں سینٹر آف انٹرنیشنل کارپوریشن کے فیلو، ڈیوڈ اسٹیون کا اس رپورٹ کے حوالے سے کہنا تھا کہ ”یہ رپورٹ عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ نوجوانوں کی اتنی بڑی تعداد کو تیز رفتار سماجی اور معاشی ترقی کے حصول کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسرا راستہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرف جاتا ہے، جو آئندہ چند برسوں میں پیش آ سکتا ہے۔“

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں گزشتہ بیس برس میں ڈیڑھ گنا اضافہ ہوا ہے جو کہ آبادی میں اضافے کی عالمی اوسط سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی نا امیدی کی اصل وجہ ان کے مسلسل پستی کی جانب مائل حالات زندگی ہیں۔ جس کی ایک مثال یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستان میں صرف چالیس فیصد بچوں کا اسکولوں میں اندراج ہوتا ہے جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں یہ تناسب اٹھاون فیصد ہے۔

پاکستان میں آبادی کی موجودہ صورتحال ملکی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر نوجوانوں کی صلاحیت اور قوت کو مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے تو اس سے تیز رفتار اقتصادی ترقی حاصل کی جا سکتی ہے، جیسا کہ 1990 ءکی دہائی میں مشرقی ایشیا میں کیا گیا تھا۔ مستقبل کے بھیانک اندیشوں سے بچنے کے لیے پاکستان کی معیشت کو تین کروڑ ساٹھ لاکھ اضافی ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی جو کہ امریکہ کی اقتصادیات کا ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ اگر نوجوانوں کو کھپانے کے لیے کوئی موزوں ڈھانچہ پہلے سے موجود نہ ہو تو اس کے برے نتائج برآمد ہوتے ہیں اور یہی صورتحال منفی سرگرمیوں کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں طبقہ اشرافیہ نے کمزور اور پسماندہ طبقات کا ہمیشہ استحصال کیا ہے۔ مڈل کلاس اور غریب طبقات گزشتہ چھ دہائیوں سے اشرافیہ کے دست کرم کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔ محرومیوں کے اس طویل سلسلے نے انہیں یا تو بے حس بنا دیا ہے یا پھر ان کے اندر اشتعال اور غصے کو بڑھاوا دیا ہے۔ درحقیقت نا انصافی اور ظلم پر مبنی اس اقتصادی نظام نے ہی انتہا پسندی کے عوامل کو ابھارا ہے۔

سماجی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے، یوں وہ آسانی کے ساتھ جرائم کے راستے پر چل پڑتے ہیں یا پھر شدت پسندی کی مختلف طرزوں میں سے کسی ایک کو اپنا لیتے ہیں۔ نا انصافی بھی معاشرے میں جرائم کا راستہ ہموار کرتی ہے یا انتہا پسندی کی ترویج کرنے والوں کو تقویت پہنچاتی ہے۔ معاشرتی انصاف کا فقدان سماجی اقدار کو کمزور کرتا ہے۔

ہمارے ہاں پہلے ہی سماجی قدروں کے مختلف درجات بنے ہوئے ہیں، جن میں سے اکثر متوازن معاشرے کے ڈھانچے سے مناسبت ہی نہیں رکھتے۔ مثلاً دولت مند طبقے کو ہی عزت و مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے، چاہے انہوں نے دولت کس قدر کراہت آمیز ذرائع سے ہی کیوں نہ حاصل کی ہو۔ دولت مند اور مراعات یافتہ طبقات کے لوگ غریبوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اسی قسم کے رویوں نے نچلے طبقات کے اکثر لوگوں کو نہایت پیچیدہ قسم کے نفسیاتی مسائل میں جکڑ رکھا ہے، جن کا اظہار بڑھتے ہوئے جرائم اور شدت پسندی کا رجحان ہے۔ ایسے ہی لوگ انتہا پسندوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوتے ہیں۔

اسی کی دہائی میں ملک کی 25 سے 30 فیصد آبادی انتہائی غربت میں مبتلا تھی، مگر اب ملک کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی غربت میں مبتلا ہے۔ اس کے باوجود ملک کے مقتدر و صاحب اختیار طبقے میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی۔ وہی چہرے یا سیاسی خانوادوں کی اگلی نسل اقتدار کی گدی پر براجمان ہے، تبدیلی کا نعرہ لگانے والوں نے بھی ایسے افراد کو اپنی بغل میں جگہ دی ہوئی ہے جو ہمیشہ صاحب اقتدار کی بغل میں رہنا پسند کرتے ہیں اور ان کی پشت پناہی کرتے آئے ہیں۔ چنانچہ یہ سوال واقعتاً ایک اہم سوال ہے کہ مظلوم عوام آخر ظالموں کو اپنے اوپر خوشی خوشی کیوں مسلط کرلیتے ہیں؟

دراصل ”ہجوم کی نفسیات“ اور ”اجتماعیت کی نفسیات“ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ہجوم کی نفسیات کے تحت شکایت، احتجاج اور نعرے بازی کی جا سکتی ہے۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ سے عاجز آئے ہوئے لوگ شور مچا سکتے ہیں، لیکن اجتماعی سوچ کے تحت ان مسائل کے حل کے لیے اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ صرف علم، شعور اور تفکر ہی ایسی قوتیں ہیں، جو ہجوم کی نفسیات کو باہم مربوط کر کے انہیں اجتماعیت کی نفسیات میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ کسی فرد کا خارجی وجوہات کے سبب خود کو مار لینا یا کسی دوسرے کو مار دینا یا ہجوم کا حصہ بن کر درندگی کا مظاہرہ کرنا، کیا یہ ایک ہی نفسیاتی و سماجی مسئلے کے کئی رخ ہیں یا بنیادی طور پر ایک ہی مسئلہ ہیں؟

دراصل ہجوم کی نفسیات جنون، تشدد اور انتہاپسندی کی نفسیات میں باآسانی ڈھل جاتی ہے۔ دنیا میں بالعموم اور ہمارے اردگرد کے علاقوں میں بالخصوص گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جس طرز کا پرتشدد ماحول پیدا ہو گیا ہے، اس کی بنا پر ایک عام آدمی کے نزدیک کسی دھماکے یا فائرنگ کے نتیجے میں بیس تیس افراد کا مر جانا کوئی خبر نہیں رہی۔ خوف، بے چارگی اور عدم تحفظ کم و بیش ہر شخص میں سرایت کر گیا ہے۔ اگر ہجوم کی نفسیات کے حامل لوگوں کو اپنی طاقت کا ادراک ہو جائے تو اکثر کوئی ہلکی سی مہمیز بھی انہیں یہ طاقت بے لگام طریقے پر استعمال کر کے اپنے خوف اور محرومی کو دبانے کی کوشش پر آمادہ کر سکتی ہے۔

جب لوگ کسی کو زندہ جلا کر یا پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے کے منظر کو اطمینان سے دیکھ کر لطف اٹھا رہے ہوں تو اس سے ان کی ذہنی صحت کا اندازہ کوئی بھی شخص لگا سکتا ہے۔ اور پھر جبکہ انہیں یہ بھی یقین ہو کہ وہ جو کچھ بھی کر گزریں قانون ان کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔

لیکن نوبت یہاں تک پہنچتی کیوں ہے؟

ماہرین نفسیات اس ضمن میں کہتے ہیں کہ جب نہ تو پانی ہو، نہ بجلی، نہ آٹا، نہ ٹرانسپورٹ، نہ رہائش کے لیے کھلی جگہ، مسلسل عدم تحفظ کا احساس طاری رہے کہ جس گھر میں میں مقیم ہوں اس پر کوئی قبضہ تو نہیں کر لے گا، اسے کوئی ڈھا تو نہیں دے گا۔ جب کچرے سے اٹی بستیاں اتنی گنجان ہوں کہ چلنا پھرنا، سانس لینا دو بھر ہو جائے اور پھر کسی بھی سطح پر کوئی شنوائی بھی نہ ہو تو ایسے معاشرے کا کوئی بھی فرد یا تو خود کو ہلاکت سے دوچار کر سکتا ہے یا پھر بعید نہیں کہ وہ دوسروں کی ہلاکت کا سبب بننے لگے۔ زندگی اگر انسان پر بار گراں بن جائے تو وہ پھر اپنی کشش کھو بیٹھتی ہے، جب مفلوک الحال افراد اپنے معاشرے سے بالکل مایوس ہوجائیں تو اس صورت میں پھر وہ اس کی تمام حدود و قیود توڑ سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں وہ ایک مادر پدر آزاد ہجوم کی شکل اختیار کر جاتے ہیں، جس کی نفسیات میں انتقام کا جذبہ اتنا زیادہ سرایت کر گیا ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو آگ لگا سکتا ہے، یوں سوکھے کے ساتھ گیلی لکڑی بھی جل سکتی ہے، گناہگار کے ساتھ بے گناہ بھی اس ہجوم کے قہر و غضب اور غصے کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہجوم کی نفسیات میں مبتلا افراد ہوش کی جگہ جوش سے کام لیتے ہیں۔ اسی لیے اکثر تاریخ دانوں اور مفکرین نے بادشاہوں اور حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ غربت اور امارت کے درمیان خلیج کو ہر ممکن طریقے سے پاٹنے کی کوشش کرتے رہیں ورنہ دوسری صورت میں ملی و قومی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

گزشتہ دنوں پنجاب یونیورسٹی لاہور کی ایک سروے رپورٹ ہماری نظر سے گزری تھی، جس سے معلوم ہوا کہ سماجی دباؤ اور تناؤ بھی جرائم، جنونی کیفیت اور شدت پسندی کے حوالے سے بنیادی کردار کا حامل ہوتا ہے۔ جرائم، لوٹ مار اور انتہاپسندی میں ملوث گروہ اور افراد معاشرے کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یونیورسٹیز کے بعض ایسے سنجیدہ طالبعلم بھی اب منفی راہوں کے مسافر بنتے جا رہے ہیں جن کے لیے معاشرہ ایک سوالیہ نشان بنا ہوا ہے۔ یہ سوالیہ نشان معاشرے میں بڑھتی ہوئی منافقت کی وجہ سے بھی پیدا ہوا ہے۔ آج اگر ہم معاشرے میں بڑھتے ہوئے مذہبی رجحانات کا جائزہ لیں تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مسلمان ہونے کا شدت سے دعویدار دکھائی دے گا۔ اکثر لوگوں کی کیفیت کا جائزہ لیں تو یہ محسوس ہوتا ہے گویا اسلام سے محبت اور اس کا تحفظ صرف اور صرف انہی کی ذمہ داری ہے۔ مگر جب اکثر کی عملی زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو دوسرا ہی منظر سامنے آتا ہے۔ کئی افراد جو پابندی سے پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں، وہ اتنی ہی پابندی سے رشوت بھی لیتے ہیں، لوگوں کی اکثریت رمضان کے روزے رکھتی ہے، لیکن ان روزہ داروں میں سے بعض افراد غذائی اشیا میں ملاوٹ بھی کرتے ہیں، کم تولتے ہیں، لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر غیرمعیاری اشیا مہنگے داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ انتہائی عقیدت اور اہتمام کے ساتھ مذہبی تہوار منانے والوں میں سے بعض افراد ٹیکس چوری کرتے ہیں، حق داروں کا حق نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مار جاتے ہیں، اپنے ملازمین کی جائز ضرورتیں پوری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں، عام راستوں میں گندگی پھیلاتے ہیں اور رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں، ٹریفک کے قواعد کی دھڑلے سے خلاف ورزی کر کے ٹریفک جام کا سبب بنتے ہیں، فروعی معاملات کو ہوا دے کر فساد پیدا کرتے ہیں۔ لیکن معاشرے میں ایسے لوگوں کی عزت اور شان میں کوئی فرق نہیں آتا۔

ایسے معاشرے جہاں حفظ مراتب کا خیال رکھا جاتا ہو اور برے کو برا اور اچھے کو اچھا کہا جاتا ہو، وہاں حسد کا مادہ اور اس حوالے سے جھوٹ کا رجحان بہت کم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان معاشروں میں ہر شخص کو اپنی اہلیت و اہمیت، خوبی و خامی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس کے باعث وہ، وہ بننے کی کوشش نہیں کرتا جو کہ ”وہ“ نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments