تمھاری چپ اور بے حیائی


تمھاری نسلوں میں پروان چڑھتے بے حیائی کے پودے کی آبیاری کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ تمھاری چپ کا ہے۔ حالیہ دنوں میں چند کالجز کی ویڈیوز نظر سے گزری ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اساتذہ کی موجودگی میں لڑکوں نے لڑکیوں کے لباس زیب تن کر کے ہندوستانی آٹم سانگز پہ خوب ناچ گانا کیا۔ خیر ناچ گانا تو اب عام سی بات بن کر رہ گئی ہے کیوں کہ اگر ہم ٹک ٹاک کا کبھی نظارہ کریں تو بڑی بڑی معزز سمجھی جانے والی فیملیز کے بچے اور بچیاں ناچ گانے کو شغل میلہ کہہ کر اپنی ویڈوز بنا کر سوشل میڈیا پہ اپلوڈ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک فیس بکی دانشور کے بقول ”جن کے باپ دادا پیسے کے بل پہ رقاصاؤں کو نچایا کرتے تھے اب ان کی بچیاں ٹک ٹاک کے نام پہ مفت پوری دنیا کے سامنے تنگ لباس پہن کر محو رقص ہیں“ بہرحال اس بات کا حقیقت سے کیا لینا دینا ہے یہ میرا موضوع ہرگز نہیں لیکن مکافات عمل پہ میرا بھی مضبوط مستحکم اور پختہ یقین ہے۔
جب ہم زیرتعلیم تھے تو ہمارے اساتذہ ہمیں نماز کی ترتیب سکھایا کرتے۔ استاد اور شاگرد میں انس محبت احترام کا رشتہ ہونے کے باوجود ایک فاصلہ برقرار رہتا تھا۔ اساتذہ کی موجودگی میں شاگرد قہقہہ لگانا بھی گستاخی تصور کرتے تھے لیکن آج کے جدید دور میں جب بچے گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لے کر ہمارے تعلیمی ادوار کو نالائق ترین دور ثابت کر چکے ہیں وہاں اخلاقی پستی کا یہ عالم ہے کہ استاد شاگردوں کے اور شاگرد اساتذہ کے عشق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ وٹس ایپ گروپس میں اساتذہ اور شاگردوں کی پسند ناپسند مشترک ہے۔ ہمارے نالائق دور تعلیم میں ادبی پروگرامز میں تقریری مقابلے ہوا کرتے تھے۔ نعت اور تلاوت کے مقابلہ جات ہوا کرتے تھے۔ ملی نغموں کے پروگرامز منعقد ہوتے۔ بیت بازی اور مضمون نویسی کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ بچوں کو کشمیر پہ ڈاکومنٹریز دکھائی جاتی تھیں۔ لیکن اب کہیں مقابلہ حسن تو کہیں مقابلہ رقص۔ کہیں مقابلہ گلوکاری تو کہیں مقابلہ اداکاری۔ پہلے تعلیمی اداروں میں کبڈی کشتی نیزہ بازی ہاکی فٹ بال ایتھلیٹکس سکھائی جاتی تھی اب ڈانس سکھایا جاتا ہے خیر اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ آپ کی چپ اور پروان چڑھتے بے حیائی کے پودے میں کیا رشتہ ہے۔ تو جناب

بیوی بیٹی بہن کا غیرمناسب لباس دیکھ کر چپ۔
بیٹے کا فرعونی حلیہ دیکھ کر چپ
یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیٹا غلط سوسائٹی میں اٹھتا بیٹھتا ہے چپ
گلی محلے میں منشیات فروشی کے اڈے دیکھ کر چپ
جسم فروشی اور جوئے کے ٹھکانوں سے نکلتے نوعمر بچوں کو دیکھ کر چپ
ثقافتی اور ادبی پروگرامز کے نام پر رقص و سرور کی محافل اور مجرے دیکھ کر چپ
کرپشن بے راہ روی اور سود خوری کو وقت کی ضرورت کہہ کر چپ
لڑکیوں کے کالج یونیورسٹیز کے سامنے چھٹی کے اوقات میں آوارہ لڑکوں کی ٹولیاں کھڑی دیکھ کر چپ
میرا جسم میری مرضی کے بینرز اور جلوس دیکھ کر چپ
شراب نوشی تمباکو نوشی کو بچوں کا فیشن کہہ کر چپ

رات دیر تک جاگنے والے بچے بچوں کے پاس قیمتی تحفے تحائف اور مہنگے موبائل جن کو خریدنے کے لیے آپ نے کبھی پیسے نہیں دیے تھے۔ یا جن کو خریدنے کی آپ کی کبھی بھی استطاعت نہیں تھی دیکھ کر چپ

بچیوں کی جاگنے کی وجہ جاننے کی بجائے پڑھ رہے ہوں گے سمجھ کر دل کو جھوٹی تسلی دے کر چپ
سوشل میڈیا پر بچوں کے اکاؤنٹس کا وزٹ کرنے کی بجائے نظرانداز کرنے کو دانشمندی کہہ کر چپ۔
اگر آپ اس چپ کے دائرہ مقفل سے باہر نہیں نکلیں گے تو آپ کو چپ چاپ بے حیائی عریانی فحاشی کو سہنا ہو گا۔

اب اس پوری تحریر سے میرا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ آپ شور لڑائی جھگڑے سے گھر اور اپنے بچوں کی زندگی کو جہنم بنا دیں۔ یا آپ لاٹھی لے کر منشیات فروشوں سے بھڑ جائیں یا محلے میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی زندگی وبال کر دیں۔ نہ ہی میرا یہ مقصد ہے کہ آپ جسم فروش عورتوں کے خلاف محاذ کھول لیں نہ ہی میں یہ چاہتا ہوں ہوں کہ آپ سود کا دھندا کرنے والے بنکوں بہ پتھراؤ کرنے لگیں۔ ہر برائی کے خاتمہ کے لیے ہماری ریاست کا ایک لائحہ عمل ہے تعزیرات پاکستان میں ہر جرم کی سزا حدود و قیود کا تعین کیا جا چکا ہے۔ میری تحریر کا مقصد والدین کو آگاہ کرنا یا ان کی منت کرنا ہے کہ صرف اور صرف اپنے بچے کی شخصیت میں عود آنے والی اخلاقی برائیوں کا محاصرہ کرنے کی کوشش کریں۔ اخلاقی غلطیوں کو درست کرنے کی سعی کریں۔ متذکرہ بالا نشاندہی کی گئی معاشرتی برائیوں سے خود کو اپنے بچوں کو دور رکھنے کی کوشش کریں ورنہ آپ کی چپ آپ کی نسلوں کو تباہ کردے گی اور آپ معاشرتی بگاڑ سے کسی صورت بچ نہ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments