ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ: بلوچستان کے شہریوں کا خون چوسنے والا ہتھیار


بلوچستان کے وسائل تو پہلے ہی 1947 سے لوٹے جا رہے ہیں،یہاں  کے قدرتی وسائل جیسے گیس اور کوئلہ خطرناک حد تک ختم ہو چکے ہیں۔ اس کے سونے اور تانبے کے ذخائر  سے فائدہ اٹھانے والے وفاقی حکومت اور غیر ملکی کمپنیاں ہیں۔ ڈاکہ زنوں نے وفاقی اور صوبائی ملازمتوں اور وظائف میں بھی صوبے کو نہیں بخشا۔ ڈومیسائل قانون کے پردے میں مفادات حاصل کرنے والں اجنبی صوبے کے حقیقی باشندوں کا خون دیمک کی چوس رہے ہیں۔

26 جون 2020  کو مستونگ کے ڈپٹی کمشنر نے غیر قانونی طور پر حاصل کیے گئے 400 وفاقی ملازمین کے ڈومیسائل منسوخ کر دیے۔ سبی ڈویژن میں 737 ڈومیسائل کی تصدیق نہیں ہوئی۔ نصیر آباد ڈویژن میں 1151 ڈومیسائل ہولڈرز تصدیق کے لیے بھی پیش نہیں ہوئے۔ ضلع کوئٹہ میں جولائی 2020 کو 122 ڈومیسائل کو جعلی قرار دے کر منسوخ کر دیا گیا، 21 نومبر کو ضلع کوہلو کے ڈپٹی کمشنر نے 6 جعلی ڈومیسائل منسوخ کر دیے۔ حال ہی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد میں بلوچستان کے کوٹے پر 3 طلبہ کے داخلے منسوخ کر دیے گئے۔

یہ چند مثالیں ہیں ۔ سینکڑوں ہزار لوگ صوبے کے حقیقی شہری نہیں، جو بلوچستان کے کوٹے پر نوکریاں کر رہے ہیں اور اسکالر شپ حاصل کر چکے ہیں۔

نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے نومبر 2017 کو آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت مختلف محکموں میں بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر غیر قانونی تقرریوں کی رپورٹ بھی طلب کی تھی۔ لیکن، عملدرآمد؟

8 جون 2017 کو سینیٹ آف پاکستان نے اس چوری کے خلاف ایک قرارداد منظور کی۔ وہ قرارداد اب تک قرارداد ہی ہے۔ اس کے علاوہ ستمبر 2015 میں صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے کہا تھا کہ بلوچستان کے کوٹے پر ڈومیسائل ہولڈر ملازمین کی جانچ پڑتال کی جائے۔ بلوچستان میں جعلی ڈومیسائل اور ان ڈومیسائل پر نوکریاں حاصل کرنے والے ملازمین کے حوالے سے ایک درخواست ساجد ترین نے معزز ہائی کورٹ بلوچستان میں دائر کی تھی۔ درخواست گزار ساجد ترین نے عدالت کو بتایا کہ بلوچستان کے کوٹے پر ہزاروں افراد کو نوکریاں اور وظائف مل رہے ہیں۔

حکام نے بلوچستان ہائی کورٹ کو بتایا کہ جنوری 2021 میں کہ 2745  ڈومیسائل سرٹیفکیٹس کی تصدیق چار ڈویژنوں کے کمشنروں سے نہیں ہو سکی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ گزشتہ چار دہائیوں سے ہوتا رہا ہے۔ معزز ہائی کورٹ نے  ریمارکس دیئے کہ ایک ڈومیسائل جو پاکستان سٹیزن ایکٹ 1951 کے سیکشن 17 کے تحت جاری ہوتا ہے پورے پاکستان پر لاگو ہوتا ہے اور ڈومیسائل ہولڈر کا کسی خاص ضلع یا صوبے سے تعلق نہیں ہوتا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ماضی میں یہاں تعینات ہونے والے سرکاری افسران نے اپنے بچوں کے لیے ڈومیسائل جاری کیے، جس پر ملازمتیں حاصل کرنے کے بعد وہ کبھی بلوچستان واپس نہیں آئے۔

سوال یہ ہے کہ جعلی ڈومیسائل حاصل کرنے والے ملازمین کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ جواب غیر واضح  ہے۔ کیونکہ بیورو کریسی کے تاخیری ہتھکنڈے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ صوبے کے سیاستدان قانون سازی کر کے ڈومیسائل پر پابندی کیوں نہیں لگا رہے؟ بلوچستان ہائی کورٹ نے پہلے ہی مشاہدہ کیا تھا کہ مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ PRC اور ڈومیسائل میں فرق ہے۔ ڈومیسائل ہولڈر صوبائی کوٹے پر ملازمت حاصل نہیں کر سکتا۔

صوبے کے حقیقی بیٹے کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟ بلوچستان میں ڈومیسائل زیادہ تر ان سرکاری ملازمین کے بچوں کو جاری کیے گئے ہیں جنہیں صوبے میں ایک مخصوص مدت کے لیے زیادہ سے زیادہ تین سال کے لیے ٹرانسفر کیا جاتا ہے۔ ڈومیسائل حاصل کرنے اور نوکریوں اور وظائف کے حصول کے بعد وہ دوسرے صوبوں میں بھاگ گئے اور پھر کبھی نہیں آئے کیونکہ ان سرکاری ملازمین کی دلچسپی بلوچستان کی بجائے کہیں اور ہے۔ کیا پاکستان ایڈمنسٹریٹو سسٹم (PAS) کے ان افسران نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا؟

پاکستانی شہریت ایکٹ 1951  ڈومیسائل جاری کرنے سے پہلے مکمل تحقیقات کا مطالبہ کرتا ہے۔ جعلی ڈومیسائل جاری کرنے والوں اور جعلی ڈومیسائل سے مستفید ہونے والوں کے خلاف مذکورہ ایکٹ کی خلاف ورزی پر کیا کارروائی کی گئی؟ کیا ہم کبھی گہری نیند سے بیدار ہوں گے؟ جب پنجاب کے حکمران  ڈومیسائل پر پابندی لگا سکتےہیں تو ہم کیوں نہیں؟ چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، سب کی نظریں صوبے کے سیاستدانوں کی طرف ہیں جنہیں قومی اسمبلی، سینیٹ، صوبائی اسمبلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ معزز عدالت کے فیصلے کے مطابق اس معاملے کی پیروی کرکے صوبے کے عوام کا تحفظ کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments