رفیق بروکر: میرےمحسن تو بھلایا نہ گیا


ایک دو ڈرم اور پانچ چھ کنستر مٹی کے تیل کے، ایک دو ڈرم لائٹ ڈیزل آئل، ایک دو ڈرم ہائی سپیڈ ڈیزل آئل دو ڈرم موبل آئل و موٹر آئل، پیمانے قیف اور ڈرم سے تیل نکالنے کا سامان۔ 1955 میں ساڑھے تین سو روپے کے سرمایہ سے، (آئل ایجنسی سے ملے ادھار سمیت) پل جھال خانوآنہ سے سمندری روڈ پر مڑتے پہلی نئی تعمیر شدہ سلیم بلڈنگ کی محصول چونگی کے دفتر کے قریب تیس روپیہ ماہانہ کرایہ کی دکان پر اور کیا کچھ بھرا جا سکتا تھا۔ پاکستان کے کاروباری ماحول سے ناواقفیت کی بنا پر کاروباری شراکت کو ترجیح دیتے والد صاحب کلکتہ سے لایا تمام سرمایہ مکمل ضائع کر چکے یا ڈبو چکے تھے۔ اور اب بڑا بھائی صفر سے دوبارہ شروع ہونے کا عزم کر چکا تھا۔ سکول سے واپس آ میں بھی بیٹھ جاتا۔ لاری اڈہ سرکلر روڈ کے علاوہ پورے شہر میں پٹرول پمپ تھا نہیں۔ ہم نے محصول چونگی کا فائدہ اٹھاتے باہر آ وہاں محصول ادائیگی کے لئے رکنے والے ٹرکوں، بسوں اور ٹریکٹر ڈرائیوروں کو جا ہائی سپیڈ ڈیزل ہم سے لینے کی ترغیب دینا شروع کی۔ بیل گاڑی پہ مضافات سے دکانوں یا ٹیوب ویل آٹا چکی کے لئے آنے والوں سمیت سب کو مٹی کا تیل اور ڈیزل وغیرہ یہاں سے لینا آسان تھا وقت بھی بچتا اور پولیس سے بھی بچتے۔ ان سے خالی ڈرم اور کنستر خریدتے اور شہر کے دکانداروں کو بیچ آتے۔ روکھی سوکھی کا بندوبست شروع ہو گیا۔

گرما کی چھٹیوں میں دوپہر سے ہی سامنے سے شدید گرم دھوپ پسینے نکالنا شروع کر دیتی۔ چھجہ لگا نہیں اور بجلی علاقے میں پہنچی نہ تھی ٹاٹ کا پردہ لگا دوپہر کو سایہ کرتے۔ ایک کرسی دو سٹول اور چھوٹا سا میز دفتر تھا۔ خال خال گاہک آتا۔ منجھلے بھائی کنگ ایڈورڈ کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ اور چھٹیوں میں گھر آئے ہوئے تھے۔ بڑے بھائی کام سے گئے تھے میں منجھلا بھائی اور ایک کزن دوپہر کے پسینے میں وقت گزاری کے لئے تاش کھیلنا شروع ہو گئے۔ ہم تاش میں مگن تھے کہ ٹاٹ ہٹا رفیق بروکر اندر داخل ہوا۔ ظاہر ہے تاش کے دھیان میں چند لمحے اس کی طرف توجہ نہ ہوئی۔

رفیق بروکر کا چہرہ بھولا نہیں۔ چار خانہ دھوتی کندھے پہ پٹکا درمیانی داڑھی، دھیمے میٹھے لہجے میں بولنے والا رفیق بروکر تیل کی دکانوں اور فیکٹریوں میں گھومتا اور تیل والے خالی ڈرم خرید تیل بنولہ نکالنے والی آئل ملز کو سپلائی کرتا تھا۔

وہ چند لمحے ہمیں دیکھتا رہا چہرہ پہلے سخت پھر نرم پڑتے مسکراتے پوچھا، ”کیا میں بھی شریک ہو جاؤں“ ہمارے خوشی سے ساتھ کھیلنے کی پیش کش سن بیٹھ گیا اور پھر دھیرے سے کہا کہ پہلے اس کی بات سن لیں پھر کھیل شروع کریں گے۔ ہم ہمہ تن گوش ہوئے اور وہ کہنے لگا، ”دیکھو بچو، تم تاش میں مگن تھے اور میری طرف، جو گاہک تھا متوجہ نہ ہوئے، میں گاہک ہوں میں نے ابھی سمندری روڈ کی ساری فیکٹریاں گھومنی ہیں اور خریداری کرنی ہے۔ گویا تم بھول گئے کہ تم دکانداری کے لئے بیٹھے ہو اور میں بھول گیا کہ آپ کے ساتھ کھیلتے میرا باقی سارا دن ضائع ہو جائے گا۔ بس میں نے یہی سمجھانا ہے۔ تمہارا مشکل وقت ہے اور تم کو پھر آگے بڑھنا ہے۔ اگر گاہک کی طرف توجہ نہ دو گے۔ کاروبار کے وقت کاروبار، تفریح کے وقت تفریح کا فرق نہ سمجھو گے، میٹھا نہ بولو گے تو گاہگ شکایت نہیں کرے گا، دکان چھوڑ ر کسی اور دکان پہ چلا جائے گا۔ بس میری یہ نصیحت پلے باندھو۔ وقت اور وعدہ کی پابندی اور ساکھ بنیادی اصول ہیں ترقی کے۔ کاروباری اوقات میں کھیل تو بالکل بھول جاؤ۔ اور حتی الوسع ناول رسالے وغیرہ سے بھی پرہیز رکھو اور اگر اخبار وغیرہ یا دوستوں سے گپ شپ بھی ہے تو گاہک کو دیکھتے سب چھوڑ پوری توجہ اس کی طرف رکھو۔ کاروبار ہو گا تو سب کر سکو گے ورنہ۔

اس کا شیریں لہجہ گھر چکا تھا اور بات دل میں اتر چکی تھی۔ ہماری محنت اور مشکل وقت سے جیتنے کا عزم اور خدا تعالی پہ مکمل بھروسا، والد محترم کے سکھائے کاروباری گر اور ہمارے لئے گڑگڑا گڑگڑا کی گئی دعائیں اس کے فضل کی بارش لانا شروع کر چکی تھیں۔ پانچ سال بعد بی اے پاس کرتے ہی میں سرکلر روڈ پر پینتالیس مربع فٹ کی دکان پر سب سے کم عمر سب سے کم سرمایہ اور سب کم تجربہ لے کر بیٹھنے والا تین سال بعد وہاں کے ممتاز آٹو پارٹس ڈیلرز میں شامل ہو چکا تھا۔ انیس سو پینسٹھ تک بڑے بھائی لاہور بادامی باغ میں کاروبار شروع کر چکے تھے منجھلے بھائی ڈاکٹر بن امریکہ سدھار چکے تھے۔ اور نوے کی دہائی میں رفیق اینڈ برادرز جنرل بس سٹینڈ کے سامنے دس مرلہ کی کی دکان بن چکی تھی۔ مگر نہ وہ تگ و دو کے دن بھولے تھے نہ خدا کے فضل اور احسانوں کا شکر کرنا اور نہ رفیق بروکر۔ کینیڈا منتقلی کے بعد بھی جب کہیں کاروباری کامیابیوں ناکامیوں کا ذکر اٹھتا ہے۔ اب بھی جب میں اور ڈاکٹر بھائی اکٹھے بیٹھتے ماضی کی تلخیاں اور خدا کی دی محنت کرنے کی توفیق اور بخشے ہوئے پھل کا ذکر کرتے ہیں تو رفیق بروکر کا چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔ کہ ہمیں یہاں تک پہچانے میں اس کا بھی حصہ ہے۔ اور خدا تعالی کے افضال میں ایک فضل اس کی محبت پیار خلوص بھری نصیحت۔ وہی چار خانہ دھوتی، کندھے پہ لٹکا پٹکا اور شفقت بھری نگاہیں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments