نا جانے کہاں کھو گئیں وہ خوشیاں


بہت عرصے بعد ایک شادی میں جانا ہوا تو ایک حیران کن منظر دیکھنے کو ملا کہ وہی دیگیں کھڑک رہی ہیں جو اب خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔ اب تو بس فون پہ آرڈر بک ہوا اور پکی پکائی دیکھیں آ جاتی ہیں۔ گھروں میں شادی بیاہ و دیگر تقریبات کے لیے کھانا پکانے کا اہتمام کرنا کم و بیش ختم ہو چکا ہے۔ مزید حیرت اس وقت ہوئی کہ جب کام کاج کے لیے ملازمین کی فوج ظفر موج کے بجائے وہی محلے اور خاندان کے افراد ادھر اُدھر ہوتے نظر آئے۔ اس کا بھی الگ ہی مزہ تھا۔ کسی کے گھر کوئی بھی تقریب ہو تو ایک دن پہلے بلاوا بھیجا جاتا تھا۔ اور کام کاج کے لیے الگ سے سنہیڑا دیا جاتا تھا۔ اور کچھ دہائیاں قبل ہی کی تو بات ہے کہ جس گھر میں صرف کھانا کھانے کی دعوت دی جائے اور انہیں کام کاج کے لیے بلاوا نا ملے تو خاصی ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا کہ صاحبِ خانہ ہمیں اپنا نہیں سمجھتے اسی لیے ہمیں کام کاج کے لیے سنہیڑا نہیں بھیجا گیا۔ اور آج کل کے دور میں تو حالات یکسر تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نا ہو گا کہ حالات تو مکمل تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج کل لوگ کھانے کی دعوت میں بھی بمشکل پہنچتے ہیں اور کام کاج میں ہاتھ بٹانا تو دور صاحبِ خانہ کی ہمت بندھانے کو بھی جرم سجھتے ہیں۔ لیکن یہ روایات صرف دو سے تین دہائیاں ہی ہوئیں، پنپی ہیں۔ آِ س سے قبل تو ایک دنیا ہی الگ آباد تھی۔ کیٹرنگ اور ریڈی میڈ تقریبات انتظامات کے کاروبار نے ہم سے گاوں کی سادہ سی خوشیاں چھین لیں۔ نا جانے وہ خوشیاں اب کہاں کھو گئی ہیں جو کسی دور میں خلوص، محبت، پیار، یگانگت اور رواداری لیے ہوئے ہوتی تھیں۔

مذکورہ دور میں کہیں خوشی ہو یا مرگ رات کو ہی دیگیں چڑھ جاتیں، پورا گاوں کام میں ہاتھ بٹانے کو موجود، گھر کے مالکان کو کچھ پتا نا ہوتا کہ کیسے کام سر انجام پا رہے ہیں۔ بیٹھکیں پڑوسیوں کی بناء کہے بھی کھلی ہوتیں کہ جو مہمان طویل سفر طے کر کے آتے تھے ان کی رہائش کا بندوبست بھلا اب صاحبِ خانہ کیوں کریں۔ یہ تو اہل محلہ کی ذمہ داری ہے۔ اور وہ سر انجام بھی بخوبی دیتے تھے۔

کھانے پکانے کے لیے لکڑیوں کا بندوبست کیسے ہو گا، دیگیں کیسے آئیں گی، چولہے بنانے کے لیے اینٹیں اور پتھر کہاں سے آئیں گے، گوشت لانے کی ذمہ داری کس کی ہے، روٹی پکانے کے لیے لوہ (لوہ بنیادی طور پر لوہے سے بنا بڑا توا کہہ سکتے ہیں۔ جس کا سائز عام توے سے کم و بیش پانچ سے دس گنا بڑا ہوتا تھا) کہاں لگے گی۔ لوہ پہ پکنے والی روٹی کو دستر خوان تک لے جانے کا ذمہ کون اٹھائے گا۔  برتاوے کون کون ہوں گے، اور جو برتاوے ہوتے تھے مجال ہے جو تمام مہمانوں کے نمٹ جانے سے پہلے ایک نوالہ بھی نوش کر لیں۔ اور کوئی شرارت سے ایسا کر بھی لیتا تو اس کی وہ لے دے ہوتی تھی کہ بیچارہ منہ چھپاتا پھرے۔ نیندرہ لکھنے کی ذمہ داری کس کی ہو گی، نیندرہ لکھنا، حساب کتاب لکھنا اور دن کے اختتام پر صاحبِ خانہ کے حوالے کرنا بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہوتی تھی جس کے لیے محلے کے سب سے پڑے لکھے افراد کے نام قرعہ نکلتا تھا۔  ٹینٹ گاڑھنا کس کا ذمہ ہو گا، کرسیاں لگانے کے لیے کون نگرانی کرئے گا۔ پنڈال کے عارضی کچن میں دیگیں بھری ہوئی کون لائے گا، خالی دیگیں واپس کون لے جائے گا، کس میز پہ کس نے فرائض سر انجام دینے ہیں، پشت پہ ہاتھ باندھ کے چلتے ہوئے بس دیکھ بھال کی ذمہ داری کس کی ہو گی، یہ سب باتیں طے ہوتی تھیں۔

لیکن یہ سب کچھ تاریخ میں گم ہو رہا ہے۔ریڈی میڈ کی آسانی نے سادہ سی خوشیاں بھی بھلا دی ہیں۔

ایک عرصے بعد خوشی کی دعوت پہ جب اُسی طرح دوبارہ دیگیں کھڑکتی دیکھیں تو دل میں ناجانے کچھ ٹوٹ سا گیا کہ ہم بہت سادہ سی خوشیاں پیچھے چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اور ایسی دنیا میں گم ہوتے جا رہے ہیں جو انسانوں کو مصروفیت میں نگل رہی ہے۔ کہنے کو تو یہ بہت عام سی بات لگتی ہے کہ بھلا دیکھیں گھر پہ پکیں یا کیٹرنگ کی دوکان پر کیا فرق پڑتا ہے، لیکن گہرائی سے جائزہ لیجیے یہ سادگی مفقود ہونا انسان کو پریشان کر گیا ہے۔ ہماری نسل شائد آخری نسل ہو گی جو ان سادہ روایات کی امین ہو گی کیوں کہ اب آنے والی نئی نسل سے ایسی سادہ سی خوشیوں سے یکسر نا آشنا ہو گی۔ اور وہ تو یہ جان بھی نا سکیں گے کہ جذبوں میں خلوص کس قدر زیادہ تھا۔ روایات کی مضبوطی کیسے ایک مضبوط اور مثبت معاشرہ تشکیل دیے ہوئے تھی۔ ہم اُس نسل کے آخری نمائندے ہیں جنہوں نے گلی محلوں میں سانجھی خوشیاں اور سانجھے غم دیکھے ہیں۔ ورنہ آج کل تو دور ایسا آ گیا ہے کہ، ساتھ دینا تو دور کی بات، خوشی ہو یا مرگ ساتھ والے گھر کے مکینوں کو بھی علم نہیں ہوتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments