مشرقی پاکستان سے اے پی ایس تک: نااہلی اور بے حسی


سولہ دسمبر انیس سو اکہتر کو پاکستان کی تاریخ میں جو کچھ رونما ہوا یا اس سے پہلے کئی مہینوں سے یا اس سے بھی پہلے کئی سالوں سے مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ ایک نہایت ہی اذیت ناک باب ہے۔ اس سے زیادہ اذیت ناک یہ امر ہے کہ اتنے بڑے سانحے کی ذمہ داری آج تک کسی نے قبول نہیں کی۔ حکومتوں کی نااہلی سمجھیے یا خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کے سلسلے میں عقابی چال کہ ذمہ داروں کا پتہ ہوتے ہوئے بھی ان پر کسی قسم کا قانونی و اخلاقی شکنجہ نہیں کسا گیا۔ چلو شکنجہ کسنا تو بہت بڑی بات مگر حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے باوجود آج تک کسی ایک بھی ذمہ دار کا تعین نہیں کیا گیا۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب کے سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے تھے۔ سیاستدان، سیاستدانوں کے گُرگے، بیوروکریٹ، بیوروکریسی کے مفادات کا تحفظ کرنے والے، اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ کے منظورِ نظر افراد، پولیس، پولیس کے اعلی افسران، فوج، فوج کا سربراہ (اس وقت کا ملک کا سربراہ)، فوج کے جرنیل و اعلی افسران، عدلیہ، جج صاحبان سب کے سب اس وقت خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے جس وقت مشرقی پاکستان میں بنگالی، غیر بنگالیوں کو اور غیر بنگالی، بنگالیوں کو کاٹ رہے تھے۔
اگر آپ اس عظیم سانحے کی وجوہات جاننا چاہیں تو جہاں آرا امام کی کتاب پڑھ لیجیے اس سے آپ کو وجوہات اور اس وقت کے اصلی حالات کا علم ہو گا۔ انہوں نے ان حالات کے دوران ڈائری لکھی تھی جس کو بعدازاں کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
حمود الرحمن کمیشن رپورٹ پڑھ لیجیے اور جانیے کہ اس رپورٹ میں کیا رد و بدل کیا گیا یا مزید رد و بدل کرنے کی کوشش کی گئی تا کہ بھٹو سمیت کئی سیاستدانوں اور اہم شخصیات کو اس عظیم سانحے کی ذمہ داری سے بری کیا جا سکے۔ یہ بھی اسی رپورٹ کی وساطت سے جان لیجیے گا کہ اس وقت کا عالمی پریس قصرِ صدارت کو کس نام سے پکارتا تھا۔
صدیق سالک کی کتاب پڑھ لیجیے اور جاننے کی کوشش کیجیے کہ اس وقت کے آرمی چیف اے اے کے نیازی صاحب کس قدر بچگانہ سوچ کے تحت جنگی حکمتِ عملی ترتیب دے رہے تھے۔ یہ سب کچھ پڑھ کر جنرل اے اے کے نیازی صاحب کی کتاب “میں نے ہتھیار کیوں ڈالے” بھی پڑھ لیجیے جس میں تھوڑی سی بھی ٹیکنیکل سوجھ بوجھ رکھنے والے کو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ جنرل صاحب کہاں کہاں دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہاں کہاں دوسروں کو رگیدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو بھی ایک عظیم سانحہ ہوا اور اس کے ذمہ داروں کا جھوٹا سچا تعین بھی ہو گیا۔ مگر المیہ در المیہ یہ ہے کہ وہ ذمہ داران جن کا تعین ہو گیا تھا قید سے فرار پا گئے۔ سانحہ اے پی ایس کے ذمہ داروں کے تعین کے ضمن میں کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کے فرار کی کوئی مصدقہ تفصیل سامنے آئی۔ فرار کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں ہوئی اور مفرور و مفرور کردہ سب کے سب آج بھی ہماری نظر میں ہیرو ہیں۔
ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہمارا خون انتہائی سستا ہے اور ہم مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان کے رہائشی ہوں، اگر اس افسر شاہی انتظامیہ اور فرسودہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں تو ہماری سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں۔
اب ایسے عظیم سانحات پر لکھتے ہوئے بھی دُکھ ہوتا ہے۔ ہم تو چند سطریں گھسیٹ کر اپنا کتھارسس کر لیتے ہیں لیکن ان ماؤں، باپوں، بہنوں اور بھائیوں کا کیا حال ہوتا ہو گا جو اپنے معصوم بچوں کی ابدی جدائی جھیل رہے ہیں۔
پیٹیریشیا برگز نے کہا تھا “شہید ہونے کو انتہائی پُرکشش بنا دیا گیا ہے۔” مجھے پیٹیریشیا برگز کی بات سے مکمل اور شدید اتفاق ہے۔ وہ معصوم بچے جو سکول کے بستے اٹھا کر ہنستے کھیلتے تعلیم حاصل کرنے گئے تھے ان کو شہید کہہ کر دھوکہ دیا جا رہا ہے تاکہ اپنی ناکامیوں اور نا اہلیوں پر عقیدت کا اندھا پردہ ڈالا جا سکے۔
یہ بھی شکر ہے کہ مین سٹریم میڈیا، ڈیجیٹل و سوشل میڈیا فعال ہے اور کچھ آدھا سچ اور کچھ پونا جھوٹ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ ورنہ جس طرح سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ داروں کا تعین آج تک نہیں ہو سکا بلکہ ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا رہا اسی طرح سانحہ اے پی ایس پر بھی نہ کسی ذمہ دار کا تعین ہونا تھا اور نہ ہی کسی کے قید و بند اور فرار کا ڈرامہ رچایا جانا تھا۔
ایک نارمل انسان سب سے زیادہ محبت اپنے بچوں سے کرتا ہے اور ان کی آسائشات و سہولیات کے لیے ہر قسم کے حالات سے نبرد آزما رہتا ہے اور ہر دم کوشش کرتا ہے کہ ساری تکلیفیں خود جھیلے لیکن اس کے بچوں پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ پاکستانی قوم نما ہجوم یا ہجوم نما قوم اس قدر بے حس اور عاقبت نااندیش ہو چکی ہے کہ جب تک اس کے اپنے بچوں پر کوئی آفت نہ آئے تب تک سنجیدہ ہی نہیں ہوتے۔ ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ بچہ تو دوسرے کا مصیبت کے منہ میں ہے، مجھے کیا فرق پڑتا ہے لیکن جب اپنے اوپر وہی وقت آتا ہے تو چیخیں آسمان تک جاتی ہیں۔
کاش ہم میں اس قدر اخلاقی جرات اور قومی جذبہ ہوتا کہ پاکستان میں کسی بھی کونے پر ظلم ہوتا تو ہم ایک قوم ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے یکجان ہو کر انصاف لے کر رہتے۔
آج جب آپ اپنے گھر جائیں تو اپنے بچوں کو گلے سے لگا کر سانحہ اے پی ایس میں مارے گئے بچوں کے والدین کا تصور کیجیے گا اور سوچیے گا کہ اگر ان کی جگہ پر آپ ہوتے تو آپ پر کیا بیت رہی ہوتی۔؟ کیا آپ اپنے بچوں کے ناحق قتل کو شہادت کا رتبہ ملنے پر بھلانے کے لیے تیار ہو جاتے۔؟ کیا حکومتی طفل تسلیاں اور سرکاری افسران کے جھوٹے دلاسے آپ کے دُکھوں کا مداوا کر سکتے۔؟ کیا وہی اذیت جو ان بچوں کو وہاں دی گئی یاد کر کے آپ سکون محسوس کر سکتے۔؟
جون ایلیا نے فرمایا تھا “سوچو اور سوچنے کی نیک عادت ڈالو کہ دوسرے جو کچھ سوچ رہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ نہ تم آسمان سے اترے ہو نہ ہی تمہارے مخالفین۔”

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments