نبض شناسی کے دعویدار ہی احساس اور اخلاق سے عاری بھی ہیں


جس طرح ہمارے دماغوں میں شیطان کا خاکہ دو سینگ والا بھیانک رنگ کا بنایا گیا ہے، ادیبوں نے، لکھاریوں نے، مذہب کے داعیوں نے، فلموں اور ڈراموں نے۔ کوئی یہ نہی بتاتا کہ اچھائی میں شدت پسندی بھی شیطانیت ہوتی ہے۔ کوئی بھیس بدل کر ہمارے سامنے نہیں آتا نا آئے گا کہ اب برا کام کرو۔ پر ہم تمام عمر دو سینگ والے شیطان سے بچتے پھرتے ہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں سب سے مزے کا اور آسان کام الزام تراشی کرنا لگتا ہے۔ کم و بیش آپ کسی بھی مذہب کو داعیوں کو دیکھیں وہ آپ کو ایسے ہی ڈرائیں گے، کچھ ایسا ہی بتائیں گے۔ میرے ہمسائے میں کرسچین رہتے ہیں کافی مذہبی لوگ ہیں، جس طرح ہم قرآن کی آیات اپنے دروازوں پہ لگاتے ہیں ایس طرح انھوں نے بائبل کی آیات لگائی ہوئی ہیں۔ مذہب کوئی بھی ہو، اس کا ماننے والا مذہبی ہو سکتا ہے۔ جس طرح ہم ہر غمی خوشی میں مولوی کو گھر پر قرآن خوانی کے لیے بلاتے ہیں، وہ پادری بلواتے ہیں۔ آپ دنیا کے کسی بھی مذہب کے ماننے والے ہوں، کتنے ہی مذہبی کیوں نا ہوں اس بات کا فائدہ صرف ایک انسان کو ہوتا ہے اور ہوتا ہے اس کو ماننے والا۔ آپ کے ارد گرد کے لوگ آپ کو آپ کے سجدوں، تلاوت، جھاڑ پھونک، اور آیات لٹکانے کی وجہ سے خواہ کتنی ہی عزت کیوں نا دیتے ہوں، خواہ اس بات کا شدت سے اظہار ہی کیوں نا کرتے ہوں کہ ہم بھی کاش آپ جیسے ہوتے، پر نا تو وہ کبھی ایسے ہونا چاہتے ہیں اور نا ہی وہ ایسے لوگوں کو اپنے آس پاس رکھنا چاہتے ہیں۔

اس کی مثال ہم ہر روز دیکھتے ہیں ہم کسی مولوی کو اپنے ارد گرد نہیں رکھتے ان کو مسجدوں تک محدود رکھنا کوئی ایسے حلیہ میں ہو تو بھی جانچ پڑتال کرنا۔ لیکن ہم ان کو مانتے بھی بہت ہیں، قرآن خوانی میلاد سے لے کر گناہ بخشوانے تک کی ساری ذمہ داری ان پہ ڈال کر ہم اپنے فرائض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ہم ایسے طبقے کے لوگ ہوتے جو ماڈرن بھی لگنا چاہتے اور مذہبی بھی پر مذہی روپ میں بیک ورڈ نہیں۔ کیونکہ ان کی نظر میں مولوی اور مذہبی لوگ بیک ورڈ ہوتے۔ اور اگر کوئی مولوی ماڈرن لوگوں کا روپ دھار لے تو درد بھی ایسے ہی مذہبی ماڈرن لوگوں کو ہوتا ہے۔ ایسی بہت مثالیں ہیں نا بہت سے نامور مذہبی شخصیات نے بیرون ممالک کی شہریت لی ہوئی کوئی ماڈرن دور کے تقاضوں کے مطابق بزنس میں آیا تو تنقید بھی سب سے پہلے ماڈرن لگتے، کنفیوز مذہبی لوگوں نے کی۔ وہی مذہبی لوگ جو قرآن خونی کرواتے، درس کرواتے اور اب کے تقاضوں کے مطابق قرآن کی آیات کو اپنے فیس بک اور سوشل میڈیا کا سٹیٹس بناتے، اور ہاں پکے عاشقان رسول ہوتے، ماڈرن دور کے لوازمات سے لیس۔

پھر وہ طبقہ آتا ہے جو ماڈرن دور کے لوازمات سے آشنا تو ہے پر ابھی پوری طرح دسترس نہیں رکھتا۔ انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور جدید تراش خراش رہن سہن سے تعلیم اتنی کہ پڑھ لکھ سکیں، ہمارے ہاں ابھی خواندگی اسی کو کہتے ہیں، خیر تعلیم یافتہ بھی کافی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ بیرونی طرز میں بھی علما اور مولیوں کی تقلید کرتے، پکے عاشقان رسول ہیں کٹ مرنے کو تیار۔

باقی کی کھیپ وہ ہے جو بہت سی مذہبی جماعتوں نے بڑے سالوں کی محنت سے تیار کی پھر وہ کینیڈا امیگیرشن پلٹ نامی علما ہوں یا نامور تبلیغی جماعتوں کے پکے پاکستانی ہوں۔ یا کوئی سیاسی کرسی پہ بیٹھے یا فرش پر بیٹھنے والے مفتیان کرام ہوں۔ ان کے پاس پیسے والوں سے لے کر صرف روٹی کی خاطر آئے ہر طرح کی کھیپ وافر موجود ہوتی، پیسے والے پیسے دکھاتے ہیں، نوٹ دیکھا میرا موڈ بنے۔ اور صرف روٹی کھانے والے کٹ مرنے کے وعدے دکھاتے اور وقت نے ثابت کیا کہ کٹ مر بھی جاتے ہیں یہ۔ امیر لوگ تو چلو آخرت کی خاطر پیسہ حلال کرنے آئے ہوتے یہ اتنے غریب کہاں سے آتے؟ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 35000 سے زیادہ مدارس میں پڑھتے وہ بچے کون ہوتے ہیں جن کو دو وقت کی روٹی اور چھت ملتی تو وہیں رہ جاتے ہیں۔ وہ بچے جن کے والدین کو یہ تو پتہ ہے کہ بچے پیدا کیے جاتے ہیں پر پیدا کر کے کرنا کیا ہے اس کا انہیں پتہ نہیں، اور پھر جب دو وقت کی روٹی بھاری پڑتی ہے تو ایسے بچے کبھی کسی دکان پہ چھوٹے کے روپ میں نظر آتے، کبھی مدارس میں اور کبھی سڑکوں پہ بھیک مانگتے۔ جب پیدا کر کے پتہ ہی نا ہو کہ اولاد کا کرنا کیا ہے تو معاشرہ اسے کیا بناتا ہے یہ معاشرے پر منحصر ہے، والدین کے دھتکارے ہوئے روزی روٹی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے یہ بچے اگر کسی دکان پر کام کرتے تو تربیت تو دور کی بات الٹا ان کی شخصیت کو تہس نہس کر دیا جاتا ہے مار دھتکار کر کے۔ مدارس کا بھی کم و بیش یہی حال ہوتا ہے صدقہ زکوۃ سے چلتے مدارس میں بل اور روٹی پوری کرنا مشکل ہو جاتا ہے اتنے لوگوں کا وہاں، تربیت میں کیا دیں گے۔ قرآن پڑھاتے ضرور ہیں پر اس میں کیا ہے وہ پڑھانے والے کو نہیں پتہ وہ کیا سمجھائے گا۔ اور وہ لوگ ان کو بس قرآن خوانی تک محدود رکھتے کہ آئیں اور ان کے گھر والوں کو ثواب پہنچا کر چلے جائیں، کبھی ان کے گھروں میں ان مدارس کے بچوں کے ساتھ رویہ دیکھیں جن کو ثواب تو چاہیے پر حقارت اور درجہ بندی ان کے انگ انگ سے عیاں ہوتی ہے۔ ریاست کو اپنی رنگ رلیوں سے فرصت نہیں اور چند بڑے نامور علمائے کرام کو ورلڈ ٹور سے ہاں وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ ان کے اداروں میں فنڈنگ وقت پہ پہنچتی رہے اور ان کی کھیپ جو بوقت ضرورت جلسوں میں کام آئے تیار ہوتی رہے۔

اس کے بعد آتے ہیں وہ جن کے وسائل تو تھے بچوں کی روٹی کے پر تربیت کا وقت کبھی نہیں تھا، معاشرے کے لیے بچوں کی لائن پر تربیت میں کیا؟ ویسے بھی تربیت کوئی لکھے ہوئی کتاب نہی جو بچوں کو سنائی اور وہ سمجھ جائیں، تربیت تو وہ حرکات و سکنات و اعمال ہیں جو روز مرہ میں والدین کرتے ہیں اور بچے بالکل وہی کرتے ہیں، جن گھروں میں قرآن جھاڑ پھونک کے لیے ہو یا ماہانہ و سالانہ عرس و قرآن خوانی کے لیے ان گھروں میں بچے قرآن کے الفاظ کی پہچان ضرور کر لیتے ہیں پر سمجھ ان کو بھی نہی آتی، پھر چاہے والدین جتنے مرضی پڑھے لکھے ہوں۔ بات تو وہیں آ گئی بچے وہی کریں گے اور والدین کی تربیت نہی تو اولاد کی کیا خاک ہونی، اور یاد رہے یہ سب بھی سچے عاشقان رسول ہوتے ہیں۔ فیس بک آیات سے بھری ہوں گی اور بات کی ابتدا اور اختتام گالی سے کریں گے، قرآن کی آیات ہر بات میں قوٹ کریں گے اور بات کی ابتدا و اختتام گالی سے۔

ایسا کیوں ہے کہ کئی جواب ہیں، بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ جتنے منہ اتنے جواب ہیں، یا جس کی جتنی سمجھ اتنے جواب۔ ایسا کیوں ہے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ عاشق جیسے لفظ کا بے جا اور بے مطلب استعمال ہے۔ گھروں میں ایسا لفظ کوئی لڑکا یا لڑکی استعمال کرے تو اسے واہیات کہا جاتا ہے، اور ایسے الفاظ کا سبب فلموں اور ڈراموں کو کہا جاتا ہے۔ مگر یہی علمائے کرام، مولوی حضرات اور عوام عاشق کے لفظ کو رسول سے جوڑتے فخر کیسے کر لیتے ہیں کیا یہ قول و فعل کا تضاد نہیں؟

دوسری اہم بات قرآن کو ضابطہ حیات کہا گیا ہے۔ مطلب زندگی کو ان اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے گزارا جائے، اور ہو کیا رہا ہے صرف دم، میلاد، قرآن خوانی، ایصال ثواب۔

کہیں پڑھا تھا پبلک ٹوائلٹ میں لکھے جملوں جیسا ہے میڈیا، سوشل میڈیا۔ وہ الفاظ جو وہاں لکھے جاتے تھے اب ہر کوئی سوشل میڈیا پہ لکھتا ہے، چار کتابیں پڑھ لینے سے ہم پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ بھی اتنا جتنا اور جس مضمون کا ہم پڑھتے ہیں، ساری دنیا کا گیان نہیں ہوتا ہمارے پاس، پر بھاشن دینا ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ایک میڈیکل ڈاکٹر آ کر معاشی امور سمجھاتا ہے، ایک اکائونٹنٹ آ کر اخلاق بتاتا ہے، ایک فیشن ڈیزائنر آ کر مذہب بتاتا ہے تب ہم اسے انفلوانسر سمجھ کر بڑے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں، مانتے تو سو فیصد ہیں۔ ابھی حال ہی میں الان ماسوک جو کے ٹیسلا اور ایکس سپیس جیسی کمپنیوں کا بانی ہے نے ٹویٹ کیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ان کا خیال ہے اسے اب اپنی پوسٹ سے استعفٰی دے کر فل ٹائم انفلوائنسر بن جانا چاہیے مطلب تو یہ ڈیمانڈ ہے پبلک کی۔ لوگ مسالہ چاہتے ہیں یہ نہیں دیکھتے بولنے والے کی تحقیق کیا ہے، بس بولنے والے کو ڈھول اچھے سے پیٹنا آتا ہو، الفاظ کا جادوگر۔ جب میڈیکل ڈاکٹر، اکائونٹنٹ جیسے لوگ گیان بانٹ سکتے ہیں، مذہب کا اخلاق کا تجزیہ کر سکتے ہیں تو ان جیسے پڑھے لکھے سو کالڈ لوگوں کو کسی مذہبی شخص کا فیشن بزنس میں آنا تو معیوب نہیں لگنا چاہے، اور دیگر مذہبی شخصیات کا دوسرے ممالک کی نیشنلیٹی پہ اعتراض بھی نہی کرنا چاہے، پر وہ کیا ہے نا دماغ کی غلاظت کو ٹوائلٹ کی دیواروں میرا مطلب ہے سوشل میڈیا کی دیواروں پہ نا بھر دیں تب تک جسمانی سکون آ ہی نہیں سکتا۔ یہ ایک طرف کی کہانی ہے۔

دوسری طرف ڈر کا بزنس عروج پر ہے، جھاڑ پھونک کا، پہلے پہل ہر چیز گناہ، پھر مذہب بنا کر پہلے حلال کا شیوہ بڑا پرانا ہے مائیک کو گناہ، اب مائیک کوئی بند کروائے تو گناہ۔ پھر میڈیا کو گناہ یوٹیوب گندی کہنے والے آج اپنی آواز کے لیے یہی میڈیم اپنائے بیٹھے ہیں۔ سادگی کے درس اور خود وی آئی پی حج کے پیکیج، مزید برآں جتنے بھی بڑے مذہبی اداروں کے سربراہ ہیں ان کے رہن سہن کوئی عام انسان اپنا ہی نا سکے، نیشنلیٹی تو بڑی دور کی بات ہے۔ یورپ اور دیگر ممالک کو برا کہہ کر مذہب کی دکان لگانے والے انہی ممالک کے پناہ گزین ہیں جہاں پورن کی بڑی انڈسٹریز ہیں اور مذہب کو بیچا اور مذہب سے کمایا اسلامی جمہوریہ ملک میں جاتا ہے۔

تیسری طرف یا تو والدین لاتعداد بچوں کو جنم دے کر دو وقت کی روٹی کے لیے مدارس میں یا چھوٹی موٹی نوکریوں میں بھیج دیتے ہیں، یا وہ والدین جو اولاد کو مہنگے سکول اور موٹی کتابوں میں دبا کر سمجھتے کہ ان کا والدین ہونے کا حق ادا ہو گیا۔ پر والدین بھی کیا کریں وہ بھی ایسے ہی پروان چڑھے، اب اگلی فصل بھی ویسی ہی ہونی۔ ریاست کو منافقت ووٹ اور رشوت سے فرصت نہیں۔

نئے نئے سے لبرلز وہ جو اپنے پیشے کے سوا ہر مضمون پہ بات کر سکتے ہیں کو مذہب ہی ہر جگہ برا لگتا ہے، ہر مسئلے کی وجہ۔ مذہبی لوگوں کو ان کے سوا ہر کوئی جہنمی اور ہر کام گناہ لگتا ہے۔ درمیان میں اٹکے لوگ چاہے کسی خاص مذہبی حلیے والے ہو یا نہیں سچے پکے عاشقان ہیں۔ ہر طرف اتنا علم، اتنا مذہب ہے پر کیوں ہر کوئی اتنا ہی جاہل ہے۔ تماشا یہ بھی ہے کہ یہاں اب ہے ہی تماشا اور تماشا لگانے والے ہی پریشان ہیں کہ تماشا کیوں ہے۔

بات صرف اتنی سی ہے احساس اور اخلاق اگر کسی مذہب کا خاصہ نہیں تو وہ مذہب ہی نہیں، اور اگر مذہب ہے تو احساس اور اخلاق والا تو اس مذہب کے پرچار والے لوگ احساس اور اخلاق والی خصوصیات سے عاری ہیں۔ اور احساس، اخلاق، برداشت و رواداری سے عاری لوگ مذہب کی کتاب پڑھ سکتے ہیں، عبادت کر سکتے ہیں مخصوص لباس اپنا سکتے ہیں پر خچر کو پینٹ کر دینے سے گھوڑا نہی ہو سکتا، اسی طرح وضع قطع کافی نہی ہوتے۔ بات کریں ان لوگوں کی جو لبرلز مولوی ہیں جن کا گیان بھی کسی مذہبی شخصیت کی تقریر سے کم نہیں ہوتا، بات ہو بے شک کسی بھی ٹاپک پر، ہوتے وہ لوگ بھی احساس، اخلاق، برداشت و رواداری سے اتنے ہی عاری جتنا کوئی مخصوص وضع قطع کا کسی مذہب کی ترویج والی شخصیت ہوتی۔ اب بات کریں ان واقعات کی سیالکوٹ کا واقعہ ہو، جہاں لوگوں نے ایک انسان کو مارا اور ساتھ سیلفی بھی بنائی، یہی نہیں ایک مشہور بلاگر و انفلانسر جو کہ ماڈرن اداروں کی پڑھی لکھی معلوم ہوتی تھیں نے یہی کام لاہور حفیظ سنٹر کے جلنے کے بعد کیا تھا فوٹو شوٹ کا۔ انسانی جان و انسان کا دکھ جائے بھاڑ میں یادگار کے طور پہ شوٹ رہ جائے۔ ویسے تو نیوز کے ادارے بھی یہی کرتے، خبر پہنچاتے نہیں بیچتے ہیں کھیلتے ہیں انسانی نفسیات سے۔ کیا خوب کہا ہے شاعر نے

میری میز پہ سجے رنگ برنگے اخبار کی خاطر
دنیا نا جانے کتنے حادثات سے گزر جاتی ہے

شکایت اور تنقید ہماری رگوں میں خون سے زیادہ تیز دوڑتا ہے، اور اس نشہ کو برقرار رکھنے کا سامان بھی ہوتا رہتا ہے گاہے بگاہے، کوئی قتل، کوئی بلاسٹ کوئی موت، کوئی لیک وڈیو، کوئی ریپ۔ اور سب کو نشہ کا سامان مل جاتا خواہ وہ مذہبی ہو یا مذہب کے لبادے میں ہو یا بھیڑ کی کھال میں۔ مطلب آج کا ماڈرن لبرل سب اپنی دیواروں پر اپنا گیان لگانے آ جاتے۔ سب کہہ دو کہ سلوگن کے جیسا، ہمیں سب کہنے کا حق ہے کے مطابق، ہم سے زیادہ درد مند کوئی نہیں۔ ہمیں سب کہنے کا حق ہے تو اس سب میں غلاظت، تنقید، شکایت ہی کیوں ہوتی ہے، اصلاح کیوں نہیں، احساس کیوں نہیں۔

ریاست کی بہت ذمہ داریاں ہوتی ہیں عوام کی حفاظت سے لے کر معاشی استحکام اور بہت کچھ، تعلیمی ادارے بہت کچھ سکھاتے ہیں، پر دنیا کی کوئی ریاست کوئی تعلیمی ادارہ احساس و اخلاق حسن سلوک نہیں سکھا سکتا، یہ تربیت میں آتا ہے اور تربیت کی پہلی ابتدا گھر سے ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر، انجینئر، علما، سیاست دان، عاشقان حتٰی کہ لٹیروں تک کے گھر ہوتے ہیں اور جب گھر ہی کچھ نا سکھا سکے تب دنیا کو کوئی ڈگری کوئی تعلیم کوئی مذہب کچھ نہی سکھا سکتا پھر آپ کتنے مذہبی ہیں کتنے عالم فاضل، کتنی بڑی ڈگری ہے، سب بیکار ہے۔ لمبے سجدے، بڑی ڈگری، زیادہ انفلانسر اور فالورز اگر آپ کو ایک اچھا انسان نہیں بنا سکتے جس کے الفاظ و اعمال دوسرے کو تکلیف نا دیں تو یہ سب کس کام کا۔ ہم چلتے پھرتے وہ خود کش بم ہیں جو جب پھٹے ہیں اس کی تباہی وہ غلاظت پھیلاتی ہے کے دوسرے دماغوں کو بھی بدبودار کرتی ہے، اور یہی نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔ احساس اور اخلاق سے عاری لوگ خود کش بم جیسے ہی تو ہوتے ہیں خواہ کسی قبیلے کے ہوں، اور بے حس لوگوں کا کوئی مذہب کوئی ملک نہیں ہوتا جس سے دوسرے انسان خطرے میں ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments