پروفیسر ڈاکٹر سیّد اسلم  کی کتاب: عافیت


ایک روایت کے مطابق شاہ عبداللطیف بھٹائی نے مشہور ہم عصر شاعر عبدالرحیم گرہوڑی سے منظوم سوال کیا:

” بلا وہ کیا ہے

جو سب سے ہے خوب۔“

انہوں نے جواب دیا:

”ایک تن کی درستی

دوسرے جوار محبوب!“ (ترجمہ ”قلم بخود“)

یہ بات اور ہے کہ کئی لوگ اس بیت کو مکمل طور پر شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ہی سمجھتے ہیں۔

اسی طرح مرزا قربان علی سالک بیگ بھی تندرستی کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ تندرستی جیسی نعمت کو وہ تنگدستی نہ ہونے سے بھی مشروط کرتے ہیں اور عا م مغالطہ ہے کہ ان کا یہ مشہور شعر: ”تنگدستی اگر نہ ہو سالک- تندرستی ہزار نعمت ہے“اور عجیب اتفاق ہے کہ مذکورہ بیت کی طرح یہ شعر بھی اکثر غالب سے منسوب کیا جاتا ہے۔ تاہم گمان غالب یہی ہے کہ غالب بھی کوچہ محبوب بلکہ محبوبہ کی گلی میں ہی خوش و تندرست رہتے۔ جبکہ انگریز ”ہیلتھ“ کو ہی ”ویلتھ“ قرار دیتا ہے۔ کوئی کچھ کہے آخرش اس کا معترف ہونا پڑتا ہے کہ،”تندرستی ہزار نعمت ہے۔“

بہت سے کتابیں ایسی ہیں جو جب آپ پڑهتے ہیں تو آپ سوچتے کہ کاش یہ کتا ب میں نے بہت پہلے پڑھ لی ہوتی ! ایسی ایک کتاب جس کے بارے سوچا جائے کہ اب تک کیوں نہ پڑهی اور جو کہ میرے پاس برسوں سے موجود تھی وہ پروفیسر ڈاکٹر سیّد اسلم کی صحت عامہ کی بارے میں کتاب ”عافیت“ ہے، جو بہت عرصے بعد پڑهی ۔ اگرچہ کتاب کے زیرعنوان ” وسط عمرمیں رہنمائے صحت “ لکھا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صحت نامہ، جس میں سردرد سے لے کر سرطان تک تقریبا ہر مرض کے بارے میں بنیادی طبی معلومات فراہم کی گئی ہے ؛ ہر عمر وصنف کے انسان کے لئے قابل مطالعہ و عمل ہے۔ یہ شاید واحد غیرافسانوی کتاب ہے جو ہم نے اتنی ہی دلچسپی سے پڑهی ہے جتنی کہ دلچسپی سے کوئی اچھا تفریحی ناول پڑها ہوگا۔ کتاب میں صحت جیسے موضوع کو ہلکے پھلکے ادیبانہ انداز ‏میں اور شعروں کے ساتھ بڑے دلچسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے۔ اور اگر کوئی اوسط ذہنی ،جسمانی اور ادبی صحت بھی رکھتا ہے تو وہ اس سے نہ صرف اچھی خاصی معلومات کشید کر لے گا بلکہ خاصا محظوظ بھی ہو سکے گا۔ (کہ ہمارے پاس یہ نعمتں اوسط سے بھی کم ہونے کے باوجود اس کتاب کااثر اوسط سے کچھ زیادہ ہی ہوا ہے) اور اگر آپ اس سلسلے میں کچھ یا سب کچھ جانتے ہیں تو بھی بقول مصنف اس کا اعادہ تو ضرور کرہی لیں گے۔ اگرچہ ہم نے برطانوی مزاح کا معمولی سا نمونہ اردو میں ہی پڑها ہوگا لیکن ہمیں لگتا ہے اس کتاب میں کسی قدر اس کی آمیزش بھی ہے۔اسی طرح جگہ جگہ بکھرے ہوئے اقوال واشعار سے بھی اس کی اہم خوبیوں میں سے ہیں۔ اگر آپ کتابوں کے رسیا نہ ہو کر صرف ایس ایم ایس اور فیس بک کے شیدائی ہیں تو بھی آپ کے لیے اس کتاب میں اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے۔ یہی نہیں کتاب میں بقدر ضرورت الہامی صحائف کے ناصحانہ عنصر وانداز سے بھی بھرپور طور استفاد ہ اور استفاضہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ہو سکتا ہے کہ کسی بات یا نکتہ سے قارئین کو اختلاف بھی ہو۔

یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ مصنف نے کتاب کی ابتدا میں وضاحت کردی ہے کہ، ذاتی تجربات کے علاوہ ؛ ”ان مضامین کی تحریر ترتیب و تہذیب میں مغربی منابیع سے وسیع پیمانہ پر استفادہ و استفاضہ کیا گیا ہے۔“ اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ،ان میں ،”جو روح ہے وہ اسی آب وگل کا عطیہ ہے ۔مقامی تجربات ومشاہدات کی جھلک سطر سطر سے عیاں ہے۔“ یہ کتاب پڑھ کر ہم نے اعادہ کیا کہ زندگی کام اور آرام کا امتزاج ہے نہ کہ جہد مسلسل کا نہ استراحت دائمی کا۔ شاید اسماعیل میرٹھی صاحب نے اردوداں و خواں طبقے کو اس کے بچپن میں ہی آگاہ کردیا تھا کہ:

”ہے کام کے وقت کام اچھا

اور کھیل کے وقت کھیل زیبا“

اور یہ کتاب آپ سے یہ درخواست بھی کرتی ہے کہ جناب آپ اپنا سرمایہ اور اجرتیں بے شک نہ بانٹیں لیکن خدارا کام تو مل بانٹ کر ، کر لیں۔ اس طرح سے آپ بھی خوش اور صحت مند رہیں گے اور آپ کے رفقائے کار بھی۔بے شک آپ اپنے کام میں یکتا اور نابغہ روزگار ہیں لیکن کبھی کبھار اپنے آس پاس موجود انبوہ اغبا ءسے کوئی بھی خدمت لینے میں کوئی گناہ نہیں!

یہ کتاب آپ کو یہ بھی بتاتی ہے کہ: آپ جتنی محبت اپنے آپ سے کرتے ہیں تھوڑی سی دوسروں سے بھی کرلیں ،بانٹ لیں تو اس میں انشا اللہ علم ہی کی طرح اضافہ ہی ہوگا ۔یہ وہ سبق ہے جو قرآن شریف آپ کو مودت قربیٰ اور صلہ رحمی کے عنوان سے دیتا ہے۔ اور آپ کا ڈاکٹر آپ کو کہتا ہے کہ بھائی معمولات دین و دنیا میں سے کچھ وقت اہل خانہ اور دوست احباب کو بھی دیں۔ بلکہ صرف اہل خانہ ودوست و احباب ہی کیوں اسی کتاب کی صفحات پر موجود فارسی کے اس شعر کوبھی قرآن ہی کی آیت مودت کی تفسیر سمجھیں کہ

“آسائش دوگیتی تفسیر دو حرفست- بادوستاں تلطف بادشمناں مدارا۔“

اس کا مفہوم ہماری دانست میں تو یہ ہواکہ،”دونوں جہاں کے آرام کی تفسیر یوں کی جاسکتی ہے کہ آپ دوستوں سے لطف سے پیش آئیں اور دشمنوں کی مدارات کریں۔ “اور یہ کہ دوسروں کو معاف کردیں کہ یہ خود کو بخشنے کے مترادف ہوگا۔ یہ قول کہ میں معاف تو کرسکتاہوں مگر بھول نہیں سکتا ۔ ایک مجہول انگریزی قول کا مجہول تر ترجمہ ہے ۔

حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم ہے کہ فرصت اور صحت کا درست استعمال نجات کا سبب ہے ۔ یہ کتاب جس وقت لکھی گئی تھی اس دور میں موبائل اور انٹرنیٹ جیسی وبائیں ابھی منصہ شہود پر نہیں آئی تھیں۔ لیکن اس وقت اس کی خام شکل مغرب میں مشینی کھیلوں کی صورت میں موجود تھیں اور لوگوں کو اپنا اسیر اور گرفتار بنانے والی خوبی یا خامی پر متنازعہ فیہ قرار پا چکی تھیں۔ جن کے متقابل موجودہ موبائل اور کمپیوٹر کی اسیری اور گرفتاری سے ہونے والا نقصان گولی کی نسبت جوہری و دیگر ترقی یافتہ بموں کے نقصان سے کم نہیں۔ چلیں آپ ہمیں متشدد مزاج نہ سمجھ لیں اس لئے ہم گولی اور جوہر ی بم کو افیون اور ہیروئن سے بدل دیتے ہیں(تاہم اس کا مطلب یہ مت نکال لیجیے کہ ہم نشئی ہیں) کہ تاش، شطرنج اور اس قبیل کے خانہ دارکھیل اور مشینی کھیل اگر افیون تھے تو موجودہ کمپیوٹر گیمس ہیروئن جیسی ہیں۔ اور یہ کتاب آپ کو ان کے شر سے بچنے اور ان کے متبادل اختیار کرنےکا صائب مشورہ بھی دیتی ہے۔اسی کتاب میں آپ کو اس مصرع کے ذریعے مکرر بتایا گیا ہے کہ،“اور زمانہ میں بہترین رفیق کتاب ہے“اسی طرح صحت جیسی نعمت کو بھی صحتمندانہ سرگرمی میں صرف کرنا چاہئے اور بے جا اسراف ہو یا اصراف دونوں سے بچنا چاہئے۔اور یہ کہ ورزش کو بھی معمول بنالیں کہ یہ بھی صحتمندانہ سرگرمی ہے۔

آخر میں ایک شکایت کہ اگرچہ ڈاکٹر صاحب کا رویہ کتاب میں خواتین سے خاصہ مساویانہ، مربیانہ اور مشفقانہ ہے (کہیں کہیں شاعرانہ بھی) لیکن سفر اور مسافر کے باب میں ایک کارٹون میں وہ لاشعوری طور پر خواتین کو شاید ”سامان“ قرار د ے گئے ہیں جو کہ خواتین اور انصاف پسند حضرات کی ایک بجا شکایت بھی ہے کہ خواتین کو سامان تجارت یا ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات دلچسپ ہے کہ اسی کتاب میں وہ ، یہ اظہار بھی کرتے ہیں کہ عورت کی نام نہاد کم مائگی اور کمتری کا احساس دنیا بھر میں بوجوہ صنفین کے شعور یا لاشعور میں جاگزیں ہے، اور غلط ہے۔

 اسی قسم کے خیالات پر گرفت اور ان کا احاطہ محترمہ زاہدہ حنا نے اپنے ایک کتابچہ ”زبان کے زخم “ میں بخوبی کیا ہے۔

یاد رکھئے کہ اگر خدانخواستہ آپ بیمار ہیں تو آپ کا حال لا محالہ اسی کتاب میں پیش کردہ شیفتہ کے اس مصرع کے مصداق ہوگا:

”طاعت میں کچھ مزہ ہے نہ لذت گناہ میں!“

(نوٹ: اگر اللہ نے کبھی ایسی توفیق بخشی کہ ہم اپنی پسند کی غیرافسانوی کتب کی فہرست و جائزہ پیش کر سکیں؛ تو یہ کتاب ان میں شامل ہوگی۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments