تعلیم کے شعبے کا پرسانِ حال کوئی نہیں


چند روز قبل میں کالج کے پرنسپل کے ساتھ ان کے دفتر میں بیٹھا تھا کہ چپڑاسی نے آگر بتایا کہ سال اول کے کسی طالب علم کے والد آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
پرنسپل نے نووارد کو اندر بلا لیا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھے۔ حال حلیے سے متوسط طبقے سے دکھاٸی دے رہے تھے۔ چہرے سے پریشانی اور قیافے سے فکر مندی عیاں تھی۔ پرنسپل کے مسٸلہ پوچھنے پر بولے کہ مجھے اپنے بچے کا ادارہ چھوڑنے کا سرٹیفکیٹ چاہیے۔ پرنسپل نے وجہ پوچھی تو ہچکچاتے،شرماتے لجاتے ہوٸے جواب دیا کہ فیس ادا کرنے سے قاصر ہوں۔ پراٸیویٹ امتحان دلواٶں گا یا کسی سرکاری کالج میں ڈال دوں گا۔ چھوٹی سی دکان ہے،جو ابتر معاشی حالات میں بمشکل ہمیں دو وقت کی روکھی سوکھی ہی دے سکتی ہے۔ مہنگاٸی کے اس دور ناپرساں میں بوڑھے والدین،بیمار اہلیہ کو دوا کھلاٶں یا آٹھ افراد پر مشتمل کنبے کو روٹی؟
اس شخص کی دکھ بھری بپتا سن کر پرنسپل نے میری طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔ میں اس آدمی کو اپنے کمرے میں لے آیا اور اس کے بیٹے کی ماہانہ فیس اور دیگر اخراجات کی ذمہ داری اٹھانے کا وعدہ کیا۔ وہ آدمی غریب تھا مگر غیور بھی بلا کا تھا،چنانچہ اسے بچے کے لیے”وظیفے”کی خاطر بمشکل آمادہ کیا۔
یہ کسی ایک گھر کی نہیں گھر گھر کی کہانی ہے۔ ہمارا ملک مہنگاٸی کے حوالے سے دنیا میں ارجنٹاٸن،ترکی اور برازیل کے بعد چوتھے نمبر ہے۔ مہنگاٸی کی شرح دس فیصد کے قریب ہے جو بھارت،بنگلہ دیش،سری لنکا اور خطے کے دوسرے ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔ بے روزگاری کی شرح ہوش ربا ہے۔ عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے۔ لوگ فاقوں سے تنگ آکر اپنے بچوں کو فروخت کر رہے ہیں اور خودکشیاں کر رہے ہیں اور وزیراعظم اور وزرا یہ بیانات دے کر ان کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں کہ پاکستان خطے کا سستا ترین ملک ہے۔
 ابھی کل ہی ایک پرانا شاگرد ملنے آیا جو میڈیکل کے دوسرے سال میں ہے۔ اس سے اس کے بڑے بھاٸی کے متعلق پوچھا جو ایم بی بی ایس کر کے اب امریکہ سے سپیشلاٸزیشن کر رہا ہے۔ میں نے اس سے سپیشلاٸزیشن کے اخراجات کے بارے میں استفسار کیا تاکہ اپنی بیٹی کے بارے میں بھی کچھ سوچ سکوں۔ اس پر اس نے یہ پریشان کن انکشاف کیا کہ 2016 میں نواز شریف کے دور میں سپیشلاٸزیشن کے تمام اخراجات کا کل تخمینہ پندرہ لاکھ لگایا گیا تھا جبکہ اس حکومت کے آنے کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھنے سے اب یہی اخراجات چالیس لاکھ سے متجاوز ہو چکے ہیں۔ 2016 میں جب میری بیٹی کا راولپنڈی میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا تھا تو اس وقت میں نے تٸیس ہزار سال کی فیس جمع کرواٸی تھی۔ اس سال یہی فیس تقریباً ایک لاکھ سالانہ تک پہنچنے کا احتمال ہے اور دیگر اخراجات بھی اسی تناسب سے کٸی گنا بڑھ چکے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں فیڈرل بورڈ والے پہلی بیس پوزیشن والے طلبہ و طالبات کو سالانہ پچاس ہزار روپیہ سکالرشپ دیتے تھے،جو اس حکومت نے ختم کردیا۔ آج سے چھ سال قبل یو ای ٹی ٹیکسلا کی فی سمسٹر فیس کے مقابلے میں بھی گٸی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ شہباز شریف نے بہت اچھی سکیم شروع کی تھی جس کے ذریعے میرٹ پر پورا اترنے والے طلبہ و طالبات کو مفت لیپ ٹاپ دیے جاتے تھے۔ میں ذاتی طور پر ایسے بہت سے طلبہ و طالبات کو جانتا ہوں جن کے والدین انہیں ایسے قیمتی لیپ ٹاپ خرید کر دینے کی قطعی استطاعت نہیں رکھتے تھے مگر جدید ریاست مدینہ والوں نے غریب طلبا سے یہ سہولت بھی چھین لی۔
نواز دور میں کشمیر،گلگت بلتستان میں مستحق طلبا کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم مفت کردی گٸی تھی۔ چنانچہ لاتعداد غریب گھرانوں کے طلبا یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر بہتر روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوٸے۔ نٸی حکومت نے یہ سکیم بھی ختم کر لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ غریب گھرانے کے چشم و چراغ کے لیے یونیورسٹی کی تعلیم ایک خواب بن کر رہ گٸی۔
اس حکومت نے اس قدر تعلیم دشمن پالیسیاں اختیار کیں کہ الحفیظ و الامان۔ ایم ڈی کیٹ کے انٹری ٹیسٹ میں جس طرح طلبا کے مستقبل سے کھلواڑ کیا گیا،ایسی بد انتظامی،اقربا پروری اور نااہلی کی کوٸی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ایم بی بی ایس کرنے والوں کے سروں پر صرف فیس کے حصول کے لیے این ایل ای جیسے ظالمانہ امتحان کی تلوار لٹکا دی گٸی جس کی وجہ سے لاتعداد ڈاکٹرز ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
رہی سہی کسر کینٹ کے علاقوں سے تعلیمی اداروں کی بندش کے احمقانہ اور سفاکانہ فیصلے نے پوری کر دی۔ اس فیصلے سے تقریباً ساڑھے آٹھ ہزار اداروں کے کم و بیش پینتیس لاکھ طلبہ اور آٹھ لاکھ اساتذہ اور دیگر عملہ متاثر ہو گا۔ تدریسی و غیر تدریسی عملہ،طلبا،والدین اور سول سوساٸٹی اس فیصلے کو واپس لینے کے لیے بھرپور احتجاج کر رہی ہے مگر حکومت اور ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ کے پی کے میں اساتذہ کی لگ بھگ تریسٹھ ہزار آسامیوں پر بروقت اساتذہ کی بھرتی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں طلبا کا تعلیمی حرج ہو گیا مگر کے پی کے حکومت اور این ٹی ایس آپس میں دست و گریبان ہیں۔ کنٹینر پر کھڑے ہو کر تو عمران خان روزانہ بتاتے تھے کہ تین کروڑ بچے سکول جانے سے قاصر ہیں مگر حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اس خوفناک طریقے سے مہنگاٸی کا بم گرایا ہے کہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیاں اسی طرح جاری رہیں تو شعبہ تعلیم کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments