مسلم لیگ ن کا وزیر اعظم ہوگا یا امیر المومنین


ہمیشہ کی طرح ایک مرتبہ پھر یہ بحثیں عروج پر ہیں کہ اب اقتدار کا ہما کس کے سر پر بیٹھے گا۔ اور اگلے پانچ سال کون سی سیاسی جماعت حکومت کرے گی۔ اکثر پنڈت یہی پیشگوئی کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف صاحب کی جماعت اگلے انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی۔ اور میاں نواز شریف بار بار قوم کو ماضی کی غلطیوں اور زیادتیوں کا حوالہ دے کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اب ہمیں ماضی کی غلطیوں کا تجزیہ کر کے یہ عہد کرنا چاہیے کہ اب ہم کبھی یہ غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔ اور اس سلسلہ میں ٹروتھ کمیشن قائم کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے تا کہ قوم کے سامنے صحیح حقائق لائے جائیں۔

ایسا کمیشن تو ضرور بننا چاہیے لیکن ماضی کے حقیقت پسندانہ تجزیے کا کام کسی کمیشن کے قیام کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مگر شرط یہ ہے کہ کشادہ دلی سے اپنی غلطیاں بھی تسلیم کی جائیں۔ اگر میاں نواز شریف صاحب اس قسم کے مطالبات کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں اس نیک کام کی ابتداء اپنے ماضی کے تجزیہ سے کرنی ہوگی۔ ورنہ دوسروں کی غلطیوں کا تجزیہ تو 1947 سے لے کر اب تک کیا جا رہا ہے۔

میاں نواز شریف صاحب تین مرتبہ وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنی دانست میں بہت سے انقلابی اقدامات کا اعلان کیا تھا۔ اس کالم میں ان میں سے ایک قدم کا ذکر کیا جائے گا۔ اور مسلم لیگ ن کے احباب سے گذارش ہے کہ وہ قوم کے سامنے وضاحت کریں کہ اب اس بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟

میاں نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت بڑے تسلسل سے ملک میں اپنے نظریات کے مطابق نفاذ شریعت کا اعلان کرتے رہے ہیں۔ جب محترمہ بے نظیر صاحبہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو اس وقت میاں نواز شریف صاحب کی مسلم لیگ اسلامی جمہوری اتحاد کا حصہ تھی۔ اور سینٹ میں ان کو بھاری اکثریت حاصل تھی۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت کو زک پہنچانے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد نے نفاذ شریعت کا نعرہ لگایا۔ مئی 1990 میں سینٹ نے بھاری اکثریت سے نفاذ شریعت کا بل منظور کیا۔ بیشتر اس کے کہ قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہوتا صدر غلام اسحق خان صاحب نے حکومت کو برطرف اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔

پھر میاں نواز شریف صاحب کی جماعت بھاری اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آئی۔ اور 1991 میں پارلیمنٹ نے ایک ایکٹ منظور کیا اور صدر نے 5 جون 1991 کو اس کی منظوری دے دی، جس کے بعد یہ نافذ العمل ہوگیا۔ اس کی رو سے تمام مسلمان شہریوں کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ وہ شریعت پر عمل کریں۔ کیا کسی نے یہ سوال اُٹھایا کہ کس مسلک کی شریعت پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ شاید یہ کہا جائے کہ ہر شخص اپنے اپنے مسلک کی شریعت پر عمل کرے گا تو اگر کاروباری تنازعہ یا نکاح طلاق کے جھگڑے میں ایک فریق کا تعلق ایک مسلک سے ہے اور دوسرے فریق کا تعلق دوسرے مسلک سے تو ان کا فیصلہ کس مسلک کی شریعت کے مطابق ہو گا؟ اور یہ وضاحت عنایت فرمائی جائے کہ کیا اس بل کی منظوری کے بعد خود ان کے دور حکومت میں عوام احکام شریعت پر عمل پیرا ہو گئے تھے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو پھر اس بل سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟

اس بل کی رو سے یہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ پاکستان کے عدالتی نظام میں ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کرے گی جو کہ شریعت کے ماہر ہوں گے۔ کیا ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اگر کی گئیں تو کیا مسلم لیگ کے دور حکومت میں پاکستان کا عدالتی نظام بن چکا تھا؟ کیا اس میں کوئی بھی بہتری آئی تھی؟ اس بل کی رو سے حکومت کا فرض تھا کہ وہ مقدمات کے فیصلوں میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر کو ختم کرے۔ کیا مسلم لیگ ن کی حکومت یہ کام کر سکی ؟

اس بل کی رو سے حکومت کا یہ فرض تھا کہ وہ کم از کم مدت میں پاکستان کے اقتصادی نظام سے سود کا خاتمہ کردے۔ کیا خود میاں صاحب کے دور میں اس مقصد کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات کیے تھے ؟ کیا اس دور میں حکومت جو قرضے دیتی تھی ان پر سود نہیں لیتی تھی۔

لیکن جب 16 مئی 1991 کو قومی اسمبلی میں یہ بل منظور کیا گیا تو اس طرح کی تقریریں کی گئیں جیسے کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دیا گیا ہو۔ اس وقت میاں صاحب کی کابینہ کے وزیر اعجاز الحق صاحب نے تقریر میں کہا کہ اس بل کو منظور کرانے کے لئے تو ان کے والد جنرل ضیاء الحق صاحب نے روتے ہوئے پارلیمنٹ سے اپیل کی تھی کہ وہ اسے منظور کر لیں۔ اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لئے جو کوششیں ضیاء صاحب کے دور میں ہوئیں ان کی مثال کسی اور عہد میں کہاں ملے گی؟ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ صاحب نے اس بل کو میاں صاحب کا جرات مندانہ قدم قرار دیا۔

اور خود میاں نواز شریف صاحب نے اس کی منظوری پر جو تقریر کی اس میں بہت فخر سے یہ اعلان کیا کہ یہ دن پاکستان کے عوام کی خواہشوں کی تکمیل کا دن ہے۔ اور سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائد اعظم کی جد و جہد کا ثمر یہی بل ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں اس بل کے فیوض و برکات پورے ملک میں پھیلیں گے۔ میری درخواست ہے کہ ذرا حساب کتاب کر کے پوری قوم کو مطلع فرمایا جائے کہ اس کے کون سے برکات و فیوض ہمیں ملک کے کون سے کونے میں دکھائی دے رہے ہیں؟

 میاں صاحب اقتدار سے رخصت ہوئے۔ اور اس کے بعد ایک مرتبہ پھر مسند اقتدار پر فائز ہوئے۔ اس بل کے برکات و فیوض پھیلانے کا وعدہ تو پورا نہیں ہوا اور اس طرف توجہ بھی نہیں کی گئی لیکن اس کی بجائے آئین میں ترمیم کر کے شریعت نافذ کر نے کا اعلان کیا گیا۔ یہ مجوزہ ترمیم پندرہویں ترمیم کے نام سے مشہور ہے۔ جسے اگست 1998 میں قومی اسمبلی میں تو منظور کر لیا گیا لیکن اسے سینٹ کی مطلوبہ تائید حاصل نہیں ہو سکی۔ اس لیے یہ خواب اب تک ادھورا ہے۔

یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس پر کیا اعتراض ہے؟اس مجوزہ ترمیم کی رو سے وفاقی حکومت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ شریعت کے نفاذ، نماز کے قیام، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے اقدامات اٹھائے۔ اور وہ یہ اقدامات پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر بھی اٹھا سکتی تھی۔ اور ریاست کا جو بھی کارندہ اس سلسلہ میں ہدایات پر عمل نہ کرے اس کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی وفاقی حکومت کو دیا گیا تھا۔ اور آئین کی رو سے وفاقی حکومت سے مراد وزیر اعظم اور وفاقی وزرا ہوتے ہیں۔ اور اس میں لکھا تھا کہ آئین کی باقی شقوں میں جو بھی درج ہے یا عدالتوں نے جو بھی فیصلے دیے ہیں، ان سب سے ماورا یہ ترمیم نافذالعمل ہو گی۔ گویا یہ آئین سے بالا ایک آئین بنایا جا رہا تھا۔ اور اس میں شریعت کے نام پر تمام اختیار وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا۔ اور حکومت کو یہ اختیار دیا جا رہا تھا کہ وہ نفاذ شریعت کی آٰڑ میں ریاست کے کسی بھی عہدیدار کے خلاف کارروائی شروع کر دے۔

کیا میاں نواز شریف صاحب پسند کریں گے کہ یہ اختیارات موجودہ حکومت کے پاس ہوں؟ کیا مسلم لیگ ن اب بھی اس ادھورے خواب کی تکمیل کی کوشش کرے گی تاکہ شریعت کے نام پر وفاقی حکومت کو یہ اختیار دے دیا جائے کہ وہ اپنی ہدایات جاری کرے خواہ اس معاملے کا تعلق صوبائی حکومت کے اختیارات سے ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر کوئی چون چرا کرے تو اس کے خلاف کارروائی شروع کر دی جائے۔ مناسب ہوگا اگر اس بارے میں مسلم لیگ ن کوئی وضاحت دے کہ کیا وہ اب بھی ایسی ترمیم کے حق میں ہیں جس کے نتیجہ میں وزیر اعظم پاکستان وزیر اعظم سے زیادہ پاکستان کا امیر المومنین بن جائے۔ جس کے اختیارات کہیں چیلنج نہ ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments