شہر یار آفریدی کے سر درد کا پیرس میں کامیاب علاج


ریاست مدینہ ثانی کے ہمارے ہینڈسم، ہر دل عزیز اور قدرے مہنگے وزیراعظم کے ایک جدی پشتی امیر، فرماں بردار اور قدرے ناسمجھ وزیر جناب شہریار آفریدی کے سر میں درد ہوا۔ آفریدی صاحب نے جان اللہ کو دینی ہے اور موت سے ڈرتے نہیں ہیں اس لیے اپنے سر کے درد کا علاج کرانے فوراً پیرس روانہ ہوئے۔ وہ چونکہ پی ٹی آئی کے ولولہ انگیز لیڈر ہیں، انتہائی محنتی ہیں اور جہاد کشمیر کے سپاہی ہیں اس لیے سر درد کے باوجود وطن کی خاطر کام میں مصروف رہتے ہیں۔

عین اس وقت جب ان کے سر میں درد ہے، مسئلہ کشمیر بھی انہی کی سردردی ہے۔ لیکن وہ ہارنے والے تو ہیں نہیں، کیونکہ جان اللہ کو دینی ہے۔ وہ فرانس کے اپنے اس دورہ علاج کے دوران پیرس میں مسئلہ کشمیر کو اسی طرح اٹھانا چاہتے تھے جیسے کہ ان کی حکومت نے پاکستان کی اکانومی، انصاف اور اخلاقیات کے جنازے اٹھائے ہیں۔ بس کیا تھا، انہوں نے پیرس میں پاکستانی کمیونٹی کو ان کے لیے ایک جلسہ منعقد کرنے کا حکم دے ڈالا۔

پیرس کی پاکستانی کمیونٹی نے جلسے کا اہتمام کیا اور اس میں جناب شہر یار آفریدی صاحب نے دو گھنٹے کی ایسی مختصر سی تقریر کی کہ الطاف حسین کی روح ان کی زندگی میں ہی تڑپ اٹھی۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں پیرس میں نہیں ہوں اس لیے ان کی یہ تقریر سن نہیں سکا لیکن مجھے یقین ہے کہ انہوں نے اپنی تقریر سے پیرس کی پاکستانی کمیونٹی کے دل ایسے ہی بدل دیے ہوں گے جیسے پی ٹی آئی نے پاکستان بدل دیا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کی حکومت کی یہ بدقسمتی ہے کہ انہیں کچھ بھی اچھا نہیں ملا، حتی کہ پیرس کی پاکستانی کمیونٹی بھی خراب ہی نکلی۔ جلسہ گاہ میں ایک ایسا غدار، مودی کا یار صحافی یونس خان بھی بیٹھا تھا جو دو گھنٹے کی تقریر سننے کے باوجود بھی سوال پوچھنے کے قابل تھا۔ یونس خان نے سوال پوچھ کر مادر وطن پاکستان کی توہین کر ڈالی۔

یونس خان نے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور حکومت فرانس کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ (جناب شہر یار آفریدی صاحب) کن اہم لوگوں سے مل رہے ہیں۔ آفریدی صاحب نے یونس خان کے اس بے ہودہ اور بالکل آؤٹ آف کورس سوال کا نہایت فلسفیانہ جواب دیا۔ انہوں نے یونس خان اور باقی حاضرین کو بتایا کہ یہ فرانس ہے، کوئی مذاق نہیں۔ یہاں گورے کوئی کام کرتے نہ کسی سے ملتے ہیں۔ پیرس میں تو کسی ایم پی کو ملنے کے لیے مہینوں پہلے وقت لینا پڑتا ہے۔ اب ہم اتنا پہلے تو اپنا پلان بنانے سے رہے۔

فرانس کی حکومت کو تو مہمان نوازی کا خیال ہے نہ اس بات کہ ایک سفید پوش، عزت دار اور قدرے ناتجربہ کار پاکستانی وزیر یہاں پر ہے تو فائدہ اٹھا لو اس کے تجربے سے۔ اس سے مل لو گے تو اخلاقیات، عورتوں کے حقوق اور آزادی رائے کے متعلق کچھ سیکھ ہی لو گے۔ لیکن نہیں فرانس امپروو کرنا ہی نہیں چاہتا۔ لگتا ہے کہ انہوں نے جان اللہ کو نہیں دینی۔ بہرحال سوال پوچھنے والا صحافی، باقی حاضرین اور اس گفتگو کی ویڈیو دیکھنے والے لوگ تو مطمئن ہو گئے۔ آفریدی صاحب البتہ خوش نہیں تھے۔ یونس خان نے پی ٹی آئی کے ایک لیڈر سے سوال پوچھ لیا تھا جو اصل میں سوال سے بالاتر ہیں۔ ان سے جو سوال پوچھنے کی کوشش کرتا ہے وہ غدار، مودی کا یار یا نواز شریف کا لفافہ صحافی ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی کے لیڈران سے سوال پوچھو تو پاکستان کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ ویسے یہ بات تو بالکل درست بھی ہے۔ کیونکہ جب وہ سوال کا جواب دینے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو لوگ کو احساس ہوتا ہے کہ گلیوں سے ڈھکن چوری کرنے والوں کے خلاف بہت سخت قانون کی کتنی شدید ضرورت ہے۔ ظاہر ہے کہ ہمیں اپنے تمام وزیروں اور مشیروں پر فخر ہے۔ گو کہ انہیں (وزیروں اور مشیروں کو) ایک دوسرے پر اتنا فخر نہیں ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں وہ کون سا ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔

شہر یار آفریدی صاحب سے سوال کرنا بہرحال مناسب نہیں تھا اور پھر خاص طور پر جب ان کے سر میں درد تھا اور وہ اس سر درد کے علاج کے لیے پیرس آئے ہوئے تھے۔ آفریدی صاحب نے اپنے میزبانوں کو سبق سکھایا اور صحافی کو سبق سکھانے کی تلقین بھی کی۔ ان (آفریدی صاحب) کی یہ حرکت فرانس انتظامیہ کو پسند نہیں آئی لیکن ظاہر ہے وہ بھی تو مودی کے ہی یار ہیں عمران خان کی کامیابیوں پر جلتے ہیں۔

شہر یار آفریدی صاحب آئندہ ایسے غدار صحافیوں کے سوالوں سے بچ کے رہیں گے۔ اگلی دفعہ جب وہ اپنے سر، ٹخنے یا عمران خان کے شیرو کے علاج کے لیے پاکستان سے فرانس آئیں گے تو مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ایف اے ٹی ایف اور یورپ میں فحاشی کے مسئلے پر بھی بات کریں گے۔ تب تک ہم سب یہ دیکھیں کہ عمران خان چین اور امریکہ کو صلح کے راستے پر کیسے ڈالتے ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments