اردو ادب کی شہزادی: بُلبُلِ غزل ‎‎پروین شاکر


آج ہم ایک ایسی شاعرہ پر گفتگو کریں گے جسے بلا مبالغہ مملکت شعر و سخن کی شہزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ افسوس اس کی عمر نے وفا نہ کی، اگر وہ اپنے ”عمو“ احمد ندیم قاسمی کی سی عمر پاتی تو یقیناً نسائی شاعری کی ”میر“ ہوتی۔

پروین شاکر 24 نومبر سن 1952 کو کراچی میں سید ثاقب حسین شاکر کے ہاں پیدا ہوئیں۔ رضویہ گرلز ہائی اسکول سے میٹرک، سرسید گرلز کالج سے بی اے اور جامعہ کراچی سے سن 1972 میں انگریزی میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پھر عبداللہ کالج برائے خواتین میں بحیثیت انگریزی کی معلمہ ملازمت کرلی۔ سن 1982 کے سی ایس سی مقابلے کے امتحان میں اعلیٰ پوزیشن حاصل کر کے محکمۂ کسٹم سے وابستہ ہوئیں اور یہ تعلق تادم مرگ قائم رہا۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی اردو شاعری میں اپنا مقام بنا چکی تھیں اور کراچی ٹیلیوژن کے مختلف پروگرامز میں حصہ لیتی تھیں۔ ابتداء میں بینا تخلص کرتی تھیں، بعد میں پروین شاکر کے نام سے شاعری کرنے لگیں۔

پروین شاکر کو اردو ادب کی سب سے ممتاز و مقبول ترین شاعرہ کہنا بے جا نہ ہو گا۔ ان سے پہلے ادا جعفری، کشور ناہید اور فہمیدہ ریاض اردو شاعری میں مستند شاعرات تھیں، اور یقیناً ان کا نام اردو ادب میں معتبر تھا، لیکن جب پروین شاکر آسمان ادب کا ایک درخشندہ ستارہ بن کر نمودار ہوئیں تو اس کی چمک نے اردو ادب کو ضو فشاں کر دیا اور بہت جلد پروین شاکر اردو دنیا اور اردو شاعری کی پہچان بن گئیں۔

ایک انتہائی قابل اور ذہین شخصیت جس نے امریکہ کی ریاست کینیٹیکٹ کے ٹرنٹی کالج میں بھی معلمہ کے فرائض انجام دیے انہوں نے امریکا کی قابل فخر یونیورسٹی ہاورڈ یونیورسٹی سے سن 1991 میں پبلک ایڈ منسٹریشن میں ماسٹرز کی سند حاصل کی اور پی ایچ ڈی کے لئے ”سن 1971 کی ہند و پاک جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار“ کے موضوع پر مقالہ مکمل کر لیا تھا جو امریکا کی یونیورسٹی میں پیش کیا جانا تھا لیکن ان کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔

پروین شاکر کی خانگی زندگی خوشگوار نہیں گزری۔ ان کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی جن سے ان کا ایک بیٹا مراد علی ہے۔ سن 1994 میں پروین کی ڈاکٹر صاحب سے طلاق ہو گئی اور اسی منحوس سال 26 دسمبر سن 1994 کی صبح اپنے کام پر جاتے ہوئے ان کی کار ایک بڑے ٹرک سے ٹکرا گئی جس کے نتیجے میں اردو ادب ایک بہت بڑی شاعرہ سے محروم ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

پروین شاکر کی قابل فخر تصانیف میں ”خوشبو“ کا اجراء سن 1976 میں ہوا۔ اس وقت پروین کی عمر صرف تیئیس سال تھی۔ اس کتاب نے اردو شاعری بلکہ اردو ادب میں جو قابل فخر نام حاصل کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی خوشبو سے چمنستان ادب مہک اٹھا اور اردو ادب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ بلا مبالغہ پروین شاکر دور جدید کی اردو شاعرات میں ایک قابل قدر اضافہ ہیں۔ اس کتاب کے بے شمار ایڈیشن چھپ چکے ہیں اور اس پر بیسٹ سیلرز ایوارڈ ملا۔ صدر پاکستان کی جانب سے پرائڈ آف پرفارمنس کے علاوہ ادمجی ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ پروین کی دوسری کتاب ”صد برگ“ سن 1980 میں منظر عام پر آئی۔ ان کی تیسری کتاب ”خود کلامی“ سن 1990 میں طبع ہوئی۔ اس کتاب پر چالیس ہزار روپے کی مالیت کا ہجرہ ایوارڈ ملا۔ ان کی چوتھی کتاب ”انکار“ بھی سن 1990 میں ہی شائع ہوئی۔ ان کے دواوین کا مجموعہ ”ماہ تمام“ کے نام سے پروین شاکر کے انتقال سے قبل سن 1994 میں چھپا۔

پروین شاکر کا کلام ان کی زندگی ہی میں بہت سے مغنی اور مغنیاں گا چکی تھیں جن میں مہدی حسن خان صاحب کی گائی ہوئی غزل ”کوبکو پھیل گئی بات مسیحائی کی“ آج بھی زبان زد خاص و عام ہے۔

اپنی پہلی کتاب خوشبو کے انتساب میں پروین نے لکھا تھا: اپنے عمو کے نام جو باقی دنیا کے لئے احمد ندیم قاسمی ہیں۔

معروف شاعر منیر نیازی نے پروین کی وفات پر ان کی شاعری کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ایک خوبصورت شاعرہ تھیں، غزل کی ایک ایسی شاعرہ جس میں ایک نئی طرح کا تغزل تھا۔ وہ روایت اور جدید تخلیق کا اعلیٰ امتزاج تھیں۔ اپنے عروج کے زمانے میں غزل کو تنہا چھوڑ گئیں۔

نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان میں بھی اہل ادب سے انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہندوستان کے ایک مشاعرے میں ناظم مشاعرہ انور جلال پوری نے بڑے خوبصورت انداز میں ان کا تعارف کرایا:

حضرات ایک نام ہمارے لئے بڑا پیارا، بڑا محترم اور بڑا قابل قدر ہے۔ آج سے تقریباً پندرہ سال قبل دلی کے ایک مشاعرے میں ایک شخصیت کو سننے کا موقع ملا تھا۔ اور مطلع سن کر مجھے یہ محسوس ہوا تھا کہ دلی کو ہزاروں سالوں میں بہتوں نے لوٹا ہے لیکن اہل دلی کے دلوں کو لوٹنے والی شخصیت آج آئی ہے اور وہ مطلع تھا :

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون

اس مطلعے کو سننے کے بعد مجھے یقین ہو گیا تھا کہ برصغیر کی ہزاروں سال کی نسوانی تہذیب کی غنائیت اگر غزل میں آئی ہے تو وہ اس غزل کی نمائندہ شاعرہ پروین شاکر ہیں۔

میرے لبوں پہ مہر تھی پرمیرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا

اس شعر کو سن کر ایک بہت بڑے شاعر خمار بارہ بنکوی نے اسٹیج پر با آواز بلند یوں داد دی تھی: واہ وا واہ۔ منصب دلبری اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ہے، اس کا جواب نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments