پنجاب کا دانشور اگر مزاحمت نہیں کرتا تو “واریں” کون لکھتا ہے


دھرتی اور وطن سے محبت ایمان کا حصہ اور مظہر ہے. بلاشبہ پاکستان میں بسنے والی اکائیاں اپنی دھرتی، تہذیب، بولی اور ثقافت سے بے لوث محبت کرتی ہیں، اور اپنی شناخت پر فخر کرتی ہیں. یہ ہی فخر ان کو پاکستانیت سے جوڑتا اور آپس میں بھائیوں کی طرح متحد رکھتا ہے. اگر قوم کا اپنی دھرتی اور بولی سے رشتہ کمزور پڑجائے تو سرحدوں پر کھڑے سپاہیوں کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں.
سندھ کے لوگ اپنی دھرتی، بولی اور ثقافت سے ازلی عشق کو ایمان کا حصہ نہیں بلکہ مکمل ایمان مانتے ہیں، یہ ہی وجھ ہے کہ اگر کسی سندھی شاعر اپنی ماں بولی میں شاعری نہ کرے اور اس کے کلام کا کچھ حصہ قوم اور بولی کے بارے میں نہ ہو تو اس کا شاعر ہی تسلیم نہیں جاتا. شاھ عبداللطيف بھٹائی، سچل سرمست، سنت سامی، شیخ ایاز سے لیکر ایاز گل، زاہد شیخ اور اسحاق سمیجو تک کوئی بھی ایسا شاعر نہیں جس نے اپنی شاعری میں سندھ اور سندھیت کی بات نہ کی ہو، یہاں تک کہ شیخ ایاز جیسے مہا شاعر نے جب اردو میں شاعری شروع کی تو اس شاعری کو بھی سماج میں کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی، بالآخر ان کو ماں بولی سندھی شاعری کی طرف لوٹنا پڑا. یہ بات صرف شاعروں پر ہی اکتفا نہیں کرتی گلوکار اور فنکار بھی بھلے جو چاہیں گاتے رہیں مگر قوم کی آواز بنے بغیر اپنی شناخت نہیں بنا سکتے. عابدہ پروین جیسی برصغیر کی اعلیٰ گلوکارہ نے سب سے زیادہ کلام پنجابی اور اردو میں گائے ہیں، مگر سندھی میں ان کے سب کے سب نہیں تو بھی اکثر نغمے “سندھی قومی نغمے” ہی ہیں.
هِن جنم هُن جنم لاءِ وچن ٿو ڪريان
مان جتي به هجان سنڌ تنهنجو ٿيان
( اِس جنم اُس جنم کے لیے وعدہ رہا – میں جہاں بھی رہوں سندھ تیرا رہوں)
سنڌڙي تي سر ڪير نه ڏيندو سهندو ڪير ميار
(سندھ پر جان کون فدا نہیں کریگا – لوگوں کی باتیں کون سنے گا)
پنجاب کے بارے میں کافی عرصے سے ایک “فیبریکیٹڈ” رائے قائم کی گئی ہے کہ پنجاب مزاحمت نہیں کرتا. پنجاب کا دانشور، شاعر، وکیل، سیاستدان، تاجر، طالب علم  حتاکہ عام آدمی بھی مزاحمت نہیں کرتا. یہ رائے اتنی مضبوط ہے کہ پنجاب کا عام فرد تو درکنار ہم نے بڑے بڑے دانشوروں اور اہم پنجابی شخصیات سے سنا ہے کہ “پنجاب نے تو نہ کبھی مزاحمت کی ہے اور نہ اس کے خمیر میں ہے.”
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق “مزاحمت کسی چیز کے بارے میں غصے یا ناخوشی کے اظہار کو کہا جاتا ہے جس کے بارے میں آپ کو احساس ہو کہ آپ یا کسی اور کے خلاف  غیر منصفانہ رویہ رکھا جا رہا ہے.”
لاہور کے نامور ماہر نفسیات رئیس احمد کھوسو  کا کہنا ہے کہ مزاحمت انسان کے مزاج اٹوٹ حصہ ہے، اور یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی فرد یا قوم میں یہ جوہر شامل نہ ہو. ہاں یہ ہوسکتا ہے، مزاحمت ایک پیچیدہ، کثیر الجہتی جذبات ہے جسے مایوسی، نفرت، غصہ اور خوف کے مرکب کے طور پر دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔  مزاحمت  (Resentment) کسی طرح کی ناانصافی کے خلاف تحت حالات کے مخالف آواز لگانے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے، ماحول سے بر عکس تصورات کا فروغ دینے یا سیاسی تصور اور حکومت وقت سے متصادم اقدامات اٹھانے کو کہا جاتا ہے.”
پنجابی ادب میں ایسی صورتحال میں لکھی گئی مزاحمتی شاعری جس کی ایک خاص بحر، اسلوب اور غنائیت ہو “وار” کہا جاتا ہے.
پنجابی دانشوروں اور شعراء سے کیے گیے سوال “وار کیا ہوتی ہے اور پنجابی وار سے کیا مراد ہے؟” کا جواب ہم کو یہ ملا کہ
“وار شاعری کی وہ صنف ہے جس میں جنگی واقعات کو منظوم انداز مین بیان کیا جاتا ہے، اس کی اک خاص بحر اور غنائیت ہے، جو گا کر پڑہی جاتی ہے. میدان جنگ میں وطن اور قوم کی خاطر بہادری دکھانے والے نڈر جوان کا ذکر اس انداز سے کیا جائے کہ سننے والے اس نوجوان کی بہادری پر عش عش کر اٹھیں. پنجابی دانشور اور  لسانیات کے ماہرین  اس بات پر خاص زور دیتے ہیں کہ وار اصل میں اس بہادری کے اس کام پر لکھی اور پڑہی جاتی ہے جو قوم اور سماج میں بہتری کے لیے ہو، مطلب ایک ہیرو کہ بہادری کا منظوم قصہ ہی وار بن سکتا ہے. وار میں دکھ اور مرثیہ کا ذکر نہیں ہوسکتا، صرف بہادری کی بات ہوگی، اور وہ بہادری بھی جو دیس، دھرتی، قوم، بولی اور حقوق کے لئے میدان عمل میں دکھائی گئی ہو. ایسی لکھی گئی وار میں “ٹنڈے اسراج دی وار، چٹھیاں دی وار، مولے دی وار، حسنے دی وار، موسے دی وار، جودھے ویرے دی وار، نادر دی وار، دلّے بھٹی دی وار” بہت مشہور ہیں. جبکہ اکھاڑہ، دوڑ، گھڑبازی، تیز اندازی یا کھیل میں طاقت یا بہادری کا مظاہرہ کرنے پر شاعری کی اور صنفوں میں تعریف کی جاتی ہے جن میں جس، بیت، ڈیوڑھ، ڈھولا، سورِٹھ، کبت اور سویا شلوک وغیرہ شامل ہیں. باقی وار نہ عام شاعر لکھتا ہے نہ عام فرد کے لیے لکھی جاتی ہے.
وار بہت بڑی ہوتی ہے جو پورا قصہ منظوم میں پیش کرتی ہیں، یہاں صرف نمونے کے لئے چند بند پیش کیے جا رہے ہیں.
(لدّھی دیاں کُوکاں)
لدّ ھی    لے    کوکاں     ماریاں ،    مار    کے    لمی      ڈھاہ
  پُتر   گیا   سیں  نانکے   شہر   نُوں،    اتے   گھوڑی تے کاٹھیاں پا
  وے تیری لے چلے  پِنڈی لُٹ کے وِچ ہاتھیاں دے ہودیاں پا
  کِیہ  لے بہیں  گا م َجلسے، ک یہ جگ تے  رہسی  آ ناں
  تیریــاں نونہاں دِھیاں  لے  چلے ،  کیہ رہ گئی شرم   حیا
  مرزا چَلیا ای باندھاں بَنھ کے داغ دِتا  راجپُوتی  نوں لا،
  جے توں بِند راجپوت دی مہینوں باندھاں چُھڑا کے وَکھا
  جَمنا  تے  مر  جاٷنا،   مرداں دے  بول رہن سر جا
( “وچار” دی جھلک)
جس ویلے روڑجٹ نے  سُنیہا دِتا، دُلّے دا ساری حیاتی دا نشہ لہہ گیا۔ دِھیاں جمیاں دے مونہہ کالے ہوندے ہن، بولی سُورمے نوں ہوندی اے۔ مُچھ دا وٹ لاہ دِتا۔ موہرہ کِھچ کے پچھے بنے کر لیا تے تلخی دے نال  اپنے نفرنوں آکھن لگا۔
(دُلّے دا ہلاّ)
چڑھ   پیا    دُلاّ  سُورما،   رب  دا  ناؤں    تہا
دُلاّ گھوڑی بھجائی زور نال وچ  جنگ دے  وڑیا  آ
دُلّے واہی تلوار سجے ہتھ نال، دِتیاں دَلاں چ کِلریاں پا
آوندی گھوڑی دُلّے دی دیکھ کے مرزے نے ہاتھی دِتا بٹھا
بھَج کے لدھی دے پیریں بہہ گیا دُلّے دا بن گیا دھرم بھَرا
اَگے پئے شیر نہیں کھاٷندا،  لدھی دُلّے نوں  دِتا سمجھا
دلّے نے تیغاں  ماریاں،  باندھا  لیئاں  چُھڑا
(چٹھیاں دی وار پیر محمد)
چڑھکے احمد شاہ وی، قندھاروں آیا
اٹکوں لنگھ ارار اس، سبھ دیس کمبایا
سلطان مکرب بادشاہ، گجرات بٹھایا
تے آپوں مڑ کے چلیا، جس راہ سی آیا
ظالم سر پر ماریئے، جس ظلم اٹھایا
سنگھ نوں لکھ کر گھلیا، خط رحمت خاں نے
ظلم اٹھایا ایس نے، ہن وچ جہانے
آؤ، اس نوں ماریئے، کسے نال بہانے
لٹیئے مال متاع تے، سبھ ہور خزانے
کیتا قول-قرار ایہہ، میں نال زبانے
مولے شکّ ن پاوساں، میں وچ ایمانے
جے دغا ہووے ایس وچ، تاں قسم کرانے
چڑھ کے گجر سنگھ جی، تد پاروں دھائے
چودھر دھر مہاراج نے، ارار لنگھائے
رحمت خان اچانچکّ، آ اٹک بہائے
سلطان مکرب ماریا، سبھ مال لٹائے
پھری دہائی خالصہ، سبھ راج ودھائے
ہدیں آپو اپنی، سبھ ملک دبائے
چنگے چنگے آدمی، سبھ مار کھپائے
قلم وڑی تقدیر دی، اس کون مٹائے
اتے پیر مہمدے، سنگھ دھریا ٹکا
اگے پچھے اوس دے، اوہ چڑھ چڑھ تھکا
جو ملک آہا ایہہ خالصہ، تد کیتا مکہ
چڑھت سنگھ سی سورما، اوہ ڈاڈھا پکا
پر ڈردا مول ن ابھرے، مت رہے ن فکا
کہ جٹّ بھلیرا رجیا، مت کرے پچھکا
اوہ مویا ایسے آرزو، ن ہویا سقا
پنجاب میں جتنی واریں لکھی گئی ہیں ان میں کافی اتنی مقبول ہیں کہ سالوں سے لوگ اپنے بچوں کو اس فخر سناتے رہتے ہیں کہ ہماری دھرتی کے ہیروز ایسے باکمال تھے، میلوں اور بڑے بیٹھکوں میں وار سنانے والوں کو بہت عزت اور تکریم دی جاتی ہے.
 نوجوان پنجابی شاعر اور پنجابی سنگت  کے جنرل سیکریٹری  یوسف پنجابی کا کہنا ہے کہ “وار پنجابی شاعری کی شان ہے، جو ہمیں اپنے قومی ہیروز سے متعارف کرواتی ہے، پنجاب کے گبرو پتروں کی بہادری کے قصے اس غنائیت سے سناتی ہیں کہ دھرتی سے رشتہ اور مضبوط ہوجاتا ہے. ان کا کہنا ہے کہ تقسیم کے بعد پنجابی شاعری میں “وار” کی صنف پر خاص کام نہیں ہوا. حکومتوں کی جانب سے اردو کو پالنے اور اردو شاعری کے چسکے نے ہم سے اپنے بڑے بڑے پنجابی شاعر بھی چھین لئے. انگریز سرکار نے ایک سازش کے تحت خطے کی سب سے طاقتور زبان پنجابی کو اپاہج کیا گیا، تو تقسیم کے بعد اردو کو لے پالک لیکر عظیم پنجابی بولی کو اور زیادہ کمزور کیا گیا. یوسف پنجابی کو یقین ہے کہ اس وقت پنجابی قوم اپنی دھرتی، بولی اور رہتل کو پھر سے سنجیدہ لے رہی ہے. خاص طور گذشتہ دس سال اس سلسلے میں بہت اہم رہے ہیں اور اگلے دس سال اہم تریں ہیں. پنجابی شاعر جب تقسیم کے بعد کی وار لکھے تو لوگ تمام پرانی واروں کو بھول جائیں گے.
پنجابی زبان کے ماہر پروفیسر جمیل پال اس سلسلے میں کچھ زیادہ خوش فہم تو نہیں مگر وہ اس بات پر راضی ہیں کہ “پنجاب میں دلے دی وار، نادر دی وار، بھگت سنگھ دی وار اور دیگر واریں اب بھی اتنی جوان ہیں کہ سننے والے کو جگانے کے لیے کافی ہیں. انکا کہنا ہے کہ تقسیم کے بعد بھی کچھ واریں لکھی گئی ہیں، مگر پنجابی قوم اور پنجابی زبان میں اتنا فاصلہ پڑ چکا ہے کہ وہ واریں سنائی اب کچھ کم سنائی دیتی ہیں. جمیل پال کا کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جناب نجم الحسین سید، مشتاق صوفی، احمد سلیم، منظور اعجاز اور عزت مجید نے بھی واریں لکھیں ہیں، جن کو پنجابی ادب میں خاطر خواہ جگھ بھی ملی ہے. مگر مسئلہ وار لکھنے کا نہیں پڑہنے کا ہے، اب جب پنجاب کے سکولوں میں پنجابی پڑہائی نہیں جاتی، پنجابی اخبارات اور جرائد ناپید ہوتے جا رہے ہیں اس وقت یہ واریں عام لوگوں تک پہنچ ہی نہیں پاتیں. شاید یہ ہی وجھ سے کہ پنجابی شاعر وار لکھنے سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں. دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ تقسیم کے بعد کے شعراء نے وار کو اس کی اصل بحر میں بھی نہیں لکھا. ہاں یہ بات درست ہے کہ پنجابی زبان میں موجود شاعری میں آپ کو مذاحمتی شاعری تو ملے گی مگر وہ وار کے بحر میں نہ ہونے کی وجھ سے ادب اور سماج میں وہ جگھ بھی نہیں حاسل کرسکیں.
سندھی زبان کے نامور شاعروں اور سندھ میں مزاحمتی شاعری کرنے والوں کا خیال ہے کہ “چونکہ پنجابی شاعری کی صنف وار ایک مخصوص حالات میں سماج میں موجود بیچینی کو محسوس کرتے اس بیچینی کا سبب بننے والوں یا حکمران طبقوں کے خلاف  احتجاج کو شاعری کے خاص بحر میں لاکر لکھنے کو کہا جاتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اب پنجاب کا کوئی شاعر یہ احتجاج کرے یا وار لکھے. پنجاب تو مزے میں ہے، اب وار تو چھوٹے صوبوں کے شاعر لکھیں گے.
سندھ کا دانشور طبقہ جہاں یہ سمجھتا ہے کہ تقسیم کے بعد سب سے زیادہ قتل عام اور خون خرابہ پنجاب میں ہوا، دو لخط بھی پنجاب ہوا،ل اور بعد میں بولی، ثقافت اور رہتل کی قربانی بھی پنجاب کو دینی پڑی مگر یہ بھی سچ ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ مالی اور معاشی فائدے میں بھی پنجاب رہا. اور محظ اس فائدے کے چکر میں پنجاب اپنی شناخت تک  کو گروی رکھ بیٹھا. پنجاب کا حکمران طبقہ بنگال کے علحدہ ہونے بعد اس وقت بھی اپنے مزاج اور عادت سے توبہ تائب نہیں ہوا، اس صورتحال کو بھانپنے اور اعلانیہ بات کرنے والا طبقہ دانشور طبقہ ہوتا ہے، مگر پنجاب کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ پنجاب کے بہترین دماغ اردو کی خدمت کرتے کرتے پنجابی زبان اور رہتل کو تباہ کرتے رہے اور قوم کو ایسا زیاں بھگتنا پڑا کہ کسی کو اس بات کا احساس تک نہیں. مگر اس کے بدلے پنجاب کو بہت سارے معاشی اور مالی فوائد ملے اور مل رہے ہیں، اس لئے پنجاب میں ابھی تک احساس زیان نہیں.ل، جب کسی کو اپنے اوپر روا ظلم کا احساس نہیں ہوگا تو اس قوم میں مذاحمتی مزاج پیدا ہی نہیں ہوگا،  تو وار کون لکھے گا.
جمیل پال صاحب سندھ کے دانشوروں کے خیالات سے متفق تو نہیں اور سمجھتے ہیں کہ سندھ کو دانشور پنجاب کی موجودہ صورتحال کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں، ایسا بلکل نہیں ہے کہ پنجاب مزاحمت نہیں کرتا، پاکستان کی تمام سیاسی تحاریک کی ابتدا یا نتیجہ خیز انتہا پنجاب میں ہی ہوئی ہے، ہر جابر کو “جی آیا نوں” کہنے والے بھلے لاہور کے لوگ ہوں مگر جمہوریت کے لئے اپنے جسم پر کوڑے کھانے والے بھی پنجابی تھے. پنجاب کا دانشور ہر ظلم اور ستم کے خلاف بولتا ہے، ہاں مگر شاید وہ پنجابی میں نہیں بولتا اس لئے باقی لوگوں کو آواز سن کر فیصلہ کرنے میں مشکل پیدا ہو رہی ہوگی. اس وقت زمانہ کافی رفتار کے ساتھ تبدیل ہو رہا ہے، پنجاب میں ادبی اور ثقافتی میدان کے بعد سرکاری میدان میں پنجابی زبان اپنا کھویا مقام حاصل کر رہی ہے. ہمیں امید ہے کہ بہت جلد پاکستان کا سیاسی وایومنڈل یکسر تبدیل ہو جائے گا. پنجاب کو تقسیم کرنے والی بات پر پنجاب سے اٹھنے والی آواز اور احتجاج وہ امید ہے جو پنجاب پر  قومی سوچ کا نیا سورج طلوع کر رہی ہے. لاہور ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ نے بھی پنجاب کے اسکولز میں بچوں کو پنجابی پڑہانے کے حق میں فیصلہ دیا ہے جو اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ وقت اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے جب پنجاب کو پنجابی کے بجائے کسی اور زبان کے لیے قربانی کا بکرا بنایا جائے.
پنجابی زبان کی ابھرتی شاعرہ طاہرہ سرا سماج کے طاقتور مراکز کے خلاف بولنے اور مزاحمتی شاعری کا بڑا نام ہے، مگر انہوں نے بھی ابھی تک وار نہیں لکھی. ایک سوال کے جواب میں طاہرہ سرا کا کہنا تھا کہ “پنجاب کا شاعر اور دانشور مزاحمت کر رہا ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں مزاحمت کے لئے شاعری کی اک خاص صنف” وار” کا ہی سہارا لیا جائے اور اس خاص بحر اور لئہ میں شاعری کرنی چاہیے. نظم، عزل، بیت، بولی، آزاد نظم اور دیگر صنفوں میں بھی یہ کام سرانجام دیا جاسکتا ہے. انکا کہنا تھا کہ ہاں میں نے کبھی وار نہیں لکھی مگر اب میں کوشش کروں گی کہ “اس دور کی وار” لکھوں، یہ ہم شاعروں پر قوم کا قرض ہے جو یقیناً اتارا جائے گا.
اس پورے قصے میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب کا ہر طبقہ کسی نہ کسی صورت میں اس سماجی نظام اور سیاسی سسٹم جو گذشتہ آدہی صدی سے یہاں رائج ہے کا کسی نہ کسی صورت بینیفشری تو ہے، اس لئے وہ شاید اس بات کو سمجھ نہیں پایا کہ اس کے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے اور اس وقت بھی کوئی ناانصافی یا ظلم ہو رہا ہے، اس وجھ سے پنجاب کا عوام اور دانشور طبقہ مطمئن، خوش اور خوشحال ہے، جبکہ باقی صوبوں میں بات الٹ ہے. وہاں کا دانشور اپنے سماج اور بولی سے اتنا جڑا ہوا ہے کہ سماج سے اٹھنے والی آواز اس کو سونے نہیں دیتی، سندھ میں تو مزاحمتی ادب اتنا اہم ہے کہ اس کو لکھنے اور پڑہنے والے بڑہتے ہی جاتے ہیں. پنجاب میں گذشتہ ایک دہائی سے بدلتی سیاسی صورتحال اب لوگوں کو کچھ اور سمجھنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے، اور سیاسی ناانصافی ان کو جگانے میں کارآمد ثابت ہو رہی ہے. جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ “زندگی میں مشکل ترین وقت ہی بہترین وقت ہوتا ہے” وہ خوش فہم ہیں کہ پنجاب اپنے مشکل ترین اور شاید بہترین وقت سے گذر رہا ہے. پاکستان میں اگلا دور پنجاب کا ہوگا، پنجاب اپنا تاریخی اور تمدنی قومی تشخص پہچان لیگا اور فیبریکیٹڈ نظریات کو چھوڑ کر تاریخی اور تہذیبی ادراک حاصل کرلے گا اور اسی طرح سے پنجاب ملک کی کی تمام اکائیوں میں برابری اور سراسری بنیاد پر وہ عزت اور تکریم حاصل کرلے گا جو اس کا تاریخی حق ہے، یہ صورتحال میں باقی اکائیاں بھی بہت تاریخی حقوق، سیاسی فوائد اور دیگر مراعات حاصل کرلیں گی مگر چونکہ یہ سب کچھ پنجاب کی وجھ سے ممکن ہوا ہوگا اس لئے پھر بھی پنجاب سب سے زیادہ فائدے میں رہے گا ہاں پنجاب سے زیادہ پاکستان، ہم سب کا ایک جیسا اور ایک جتنا پاکستان.

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments