سقوط ڈھاکہ اور ہال آف شیم


16 دسمبر 1971 کو آدھے سے زیادہ پاکستان دولخت ہو گیا، جب ہر سال یہ دن آتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ آج تو کان اور آنکھیں بند کرلوں اور اس سانحے اور شرمندگی سے متعلق کوئی خبر یا تصویر میرے کانوں یا آنکھوں تک نہ پہنچے۔ پھر آہستہ آہستہ سمجھا کہ ریت میں سر دینے سے تاریخ بدل نہیں سکتی۔ پھر اس معاملے پر مطالعہ کرنا شروع کیا۔ ایک روز دسمبر 1971 کی اہم خبروں کو دیکھ رہا تھا تو 11 دسمبر 1971 کو وقوع پذیر ہونے والی ایک اہم خبر ملی، خبر کچھ یوں تھی ”ڈھاکہ ائر پورٹ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل

نیازی نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا کہ انڈیا میری لاش سے گزر کر ہی ڈھاکہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ سینہ ٹھوکنے کے محض پانچ روز بعد قائد اعظم کا آدھا پاکستان ہم سے چھن گیا اور جنرل نیازی ایک زندہ لاش بن گئے۔

سوچتا ہوں کہ اس وقت کے میرے جیسے بے بس نوجوان تو سانحے پر آٹھ آٹھ آنسو روئے ہوں گے۔ وہ رات اہل پاکستان نے کیسے کاٹی ہوگی۔ محب وطن کس کرب اور ملال سے گزرے ہوں گے۔ سوچتا ہوں کہ اگر اس دن میں ہوتا تو شاید صدمے سے ہی مر جاتا، سانحے کے بعد عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے حمود الرحمن کمیشن بنایا گیا۔ تحقیقات ہوئیں بیانات ریکارڈ کرائے گئے مگر آج تک رپورٹ جاری نہ ہوئی۔ اس رپورٹ کے اوپر کون بیٹھا ہے۔ اس کا اجرا کس ادارے کے لئے باعث خطرہ اور باعث شرمندگی ہے؟ کیا ان کی انا اور وقار ملک سے زیادہ اہم ہے۔ ایک بار بھارتی میڈیا کے ذریعے اس رپورٹ کے چند مندرجات کا پتا چلا تھا۔

سانحہ مشرقی پاکستان کے بڑے اسباب نا انصافی، محرومیاں، مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے جیسے اقدامات تھے، اس کے علاوہ بھی بہت سے ایسے تہہ در تہہ واقعات ہوئے جنہوں نے

جلتی پر تیل ڈالا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب ذمہ دار اپنا محاسبہ کرتے اور سبق سیکھ کر آگے بڑھتے۔ یہ سانحہ کسی اور قوم پر گزرا ہوتا تو اب تک ان کی کا یہ ہی پلٹ جاتی لیکن ہماری ایسی اچھی قسمت کہاں۔ ابھی عشق کے امتحاں شاید اور بھی ہیں۔ ہم ابھی تک ان ہی راستوں پر ہیں جہاں ایک بار قافلہ لٹا تھا۔ بے بسی کی دنیا کا قیدی ہونے کے ناتے نہایت افسوس سے یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ ہماری مقتدرہ کی حرکتیں وہی ہیں۔ کسی نے کوئی سبق نہ لیا۔ دشمن بلوچستان کوایک اور مشرقی پاکستان بنانا چاہتا ہے لیکن ہم اس کی مدد کر رہے ہیں۔ صوبے میں محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ سکیورٹی کا کوئی حال نہیں۔ یہاں سیاست کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔ یہاں کی سیاست باقی ملک سے کیوں مختلف ہے۔ یہاں صبح ماجا تو شام کو گاما حکمران ہوتا ہے۔ اگر پسند نہ ہوتو اچانک کرسی نیچے سے نکال لی جاتی ہے۔

صوبے میں گورننس انتہائی نچلے درجے پر ہے۔ جس سے احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کئی ہفتوں سے بند ہے۔ باقی ملک میں بھی کوئی مثالی صورتحال نہیں۔ ہمارا جگر گوشہ مشرقی پاکستان اب توانا اور مضبوط ہو چکا، وہ ہم سے ہر شعبے میں آگے نکل چکا۔ بلوچستان اور ملک کا بڑا مسئلہ لاپتہ افراد کا ہے۔ ان لاپتہ افراد کو ہندوستان نے تو نہیں اٹھایا۔ امریکا بھی اکیلے ہی افغانستان سے چلا گیا ہے ان لوگوں کو تو ساتھ نہیں لے کر گیا۔ سی ڈی اے، واسا، محکمہ تعلیم یا محکمہ صحت نے بھی انہیں غائب نہیں کیا۔ عدلیہ کو بھی پتہ ہے لاپتہ افراد کو کس نے اٹھایا۔ لیکن اس گلی میں جانے کی کوئی جرات نہیں کرتا۔ کیا آپ کو ملکی عدالتی نظام پر اعتماد نہیں۔ خدارا ان کے بچوں اور خاندان والوں کا خیال کریں وہ نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ ان کے پیاروں کو لاپتہ کر کے ریاست انہیں نوکیلے کانٹوں پر گھسیٹ رہی ہے۔ یہ اذیت موت سے بدتر ہے۔ کوئی ان بے کسوں کی آواز سننے والا نہیں۔ ہرطرف خاموشی ہے۔ نہایت گھٹن ہے۔ مدثر نارو کے کم سن بیٹے کی اسلام آباد ہائیکورٹ کی سیڑھیوں پر مایوسی کے عالم میں بیٹھنے کی تصویر تو جگر چیر گئی۔ اپنوں کے ستائے یہ لوگ کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں۔ چیف ایگزیکٹوز پر آرٹیکل چھ لگانے کی بات کرتے ہیں۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ایک حکومت نے ایک آئین شکن آمر پر آرٹیکل چھ لگایا تو اس کا کیا حال ہوا، فیصلہ کرنے والے جسٹس وقار سیٹھ مرحوم کا کیا حال کیا گیا۔ ہم جتنے کمزور اور بے بس ہیں کہ بس ہال آف شیم ہی بنا سکتے ہیں۔ شاید وہ بھی نہیں۔ پہلے مینڈیٹ تسلیم نہ کرنے کی شکایت تھی لیکن اب تو مینڈیٹ دلائے جا رہیے ہیں۔ یہاں ہی بات ختم نہیں ہوتی اس پر کڑے پہرے بھی دیے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی اپنا کام نہیں کر رہا۔ کچھ خاص طور پر دوسروں کے کام میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ وطن میں جمہوریت انتہائی چلے درجے پر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments