پکڑم پکڑائی


بیسویں صدی کے ٹھیک سینتالیسویں سال میں میری تشکیل کے بعد کئی دہائیاں گزر گئیں یہ دہائی دیتے دیتے کہ بس کرو اب تم لوگ بچے نہیں رہے جو ابھی تک پکڑم پکڑائی کا کھیل، کھیل رہے ہو۔ لیکن مجال ہے جو تم لوگوں کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ ٹھیک ہے کہ میرے قیام کے وقت تم لوگ بچے تھے اور گلی کوچوں میں پکڑم پکڑائی کھیلا کرتے تھے۔ لیکن چلو وہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن اب میری تشکیل کے بعد خیر سے تم لوگ بھی ماشاءاللہ بال بچوں والے ہو کر ماموں، چاچا، پھپھا، تایا یہاں تک کہ نانا دادا بن چکے ہو، تو بھلا کیا تک بنتی ہے اس عمر میں بھی اسی پکڑ دھکڑ کے کھیل کو جاری رکھنے کی؟

ٹھیک ہے بھاگ دوڑ والے کھیل کھیلنا صحت کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں نا کہ چور بنو اور میری معصوم اور سادہ لوح عوام کو پکڑو جو خود ہجرت ٹرین پکڑ کر لٹی پٹی یہاں تک پہنچی۔

اب سیاست کے نام پر جو پکڑم پکڑائی کا کھیل کھیلتے ہو تو اس میں میری بھولی عوام کو امیدیں اور دلاسے پکڑا دیتے ہو۔ اپنے لیے ووٹ ڈلوانا ہو تو کبھی راشن تو کبھی بریانی کی پلیٹ پکڑا دیتے ہو۔ اور عوام بھی اتنی معصوم کہ وہ بغیر بوٹی والی بریانی کی پلیٹ پکڑ لیتی ہے اور تمہارے انتخابی نشان پر ٹھپا لگا آتی ہے، سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنا کر تم لوگ مزے سے اقتدار کی کرسی پکڑ لیتے ہو۔

اقتدار میں آ کر حکومت اپوزیشن کا پیچھا پکڑ لیتی ہے اور اپوزیشن احتجاجی جلسوں اور دھرنوں کے لیے کرسیاں! لیکن ان کرسیوں پر بٹھانے کے لیے غریب عوام کو کہیں سے پکڑنا نہیں پڑتا کہ معاشی بدحالی ان کو پہلے ہی اپنے خوفناک پنجوں میں اتنا جکڑ چکی ہے کہ بلا سوچے سمجھے اپنا خالی پیٹ پکڑ کر ان کو جو جہاں پکڑ کر لے جاتا ہے، ساتھ ہو لیتے ہیں کہ موقف اور مطالبات سے ان کو کیا غرض گر تالیاں پیٹنے اور دو چار نعرے لگانے کے عوض۔ اس سے آگے کا متن و مدعا تم لوگ خود اپنی سمجھداری سے پکڑ سکتے ہو، ہر چیز کھل کر بیان کرنا ضروری نہیں۔

ویسے اگر میں کچھ غلط کہہ رہا ہوں تو بتاؤ۔ اب اگر احتساب کی بات کرتے ہو تو احتساب سب کے لیے ہونا چاہیے، لیکن ادھر بھی اپنوں کے لیے دل میں نرم گوشہ پکڑ لیتے ہو اور لے دے کر ان پتلی گردن والوں کو ہی پکڑتے ہو جن کی گردن پہلے ہی اس معاشی بحران میں یوٹیلٹی استعمال کیے بغیر ہی زائد اماؤنٹ کے بل بھرنے کے صدمے سے دن بدن مزید پتلی ہوتی جا رہی ہے۔

ویسے یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اب اس میں موٹی گردن والوں کا کیا قصور کہ رشوت اور غریب عوام کا حق کھا کھا کر اپنے جسم پر اتنی چربی چڑھا لی ہے کہ ان کو کوئی پکڑ ہی نہیں پاتا۔ بے چارے پتلی گردن والے یوں پکڑے جاتے ہیں کہ ان کے پاس موٹی گردن والوں کی طرح کاریں، بنگلے یا خفیہ تجوریوں کی چابیاں جو نہیں ہوتیں جو وہ ان احتساب والے مہربانوں کو پکڑا کر اپنی جان بخشی کروائیں۔

چلو یہ تو ہوئے سیاسی معاملات، اس میں کیا پڑنا کہ زیادہ بولنے والا خود پکڑ میں آ جاتا ہے۔ اب جو چور سپاہی والا کھیل کھیلو تو کم ازکم اس میں تو بے ایمانی نہ کرو۔ اب دیکھو اس میں بھی اس کو پکڑ لیتے ہو جو کھیل میں شامل ہی نہیں۔ پولیس کے سپاہی بن کر بھاگتے چور یا ڈاکو کو پکڑنے یا اس کی لنگوٹی پکڑنے کی بجائے اپنی راہ پکڑے بے چارے راہگیر کو پکڑ لیتے ہو یا پھر عینی شاہدین کے نام پر قریب ہی ٹھیلہ لگائے کسی غریب کو۔

لیکن یہ اور بات ہے کہ اس کو بھی چھوڑتے نوٹ پکڑ کر ہی ہو۔ ویسے غلطی سے اگر پولیس کارروائیوں میں اصلی مجرم رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جائے تو وہ بھی رنگ برنگے نوٹ دکھا کر با آسانی چھوٹ جاتا ہے۔ مدعی جھوٹا کیس جیتنے جھوٹا گواہ پکڑا دیتا ہے۔ جس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور پکڑنا ہے وہ نہیں پکڑا جاتا کیونکہ وہ بغیر کسی ڈر خوف کے جن کے ذرا لمبے ہاتھ ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں بہت کچھ پکڑا دیتا ہے۔

اب زندگی کے عام شعبہ جات میں پیشہ ورانہ ماہرین کا طرز عمل دیکھو تو انہوں نے بھی ایک یہی پکڑم پکڑائی کا کھیل پکڑ لیا ہے۔

طبیب کو دیکھو تو تجربے کرنے مریض کو جو پکڑتا ہے تو چھوڑتا ہی نہیں۔ مریض کو ٹیسٹ پر ٹیسٹ پکڑاتا جاتا ہے اور اپنے قدموں پر چل کر آنے والے مریض کو وینٹیلیٹر تک پہنچا کر تیمارداروں کو لاکھوں کا بل پکڑا دیتا ہے، اسی پر اکتفا نہیں کرتا، بے چارہ مریض تو پیر کے دن ہی وینٹیلیٹر پر پڑے پڑے دوسرے جہان پہنچ چکا ہوتا ہے لیکن بل کی رقم بڑھانے کے لیے لواحقین کو جھوٹی امیدیں پکڑاتے پکڑاتے مریض کی میت جمعے کو ہی پکڑاتا ہے کہ اللہ کی یہی مرضی تھی، نیک آدمی تھا تبھی مبارک دن نصیب ہوا مرحوم کو۔ روتے پیٹتے بے چارے لواحقین اسپتال سے نکلتے ہیں تو گورکن پسند کی جگہ پر فرمائشی قبر بنانے کے پیسے پکڑ لیتا ہے۔ شدت غم سے نڈھال لواحقین اپنا سر پکڑ لیتے ہیں کہ جینا تو مشکل ہی تھا مرنا بھی آسان نہ رہا۔

تعلیم کے میدان میں تو پکڑم پکڑائی کا کھیل ایسا چل رہا ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کون کس کو پکڑ رہا ہے۔ استاد جان چھڑانے طلباء کو تگڑا ہوم ورک پکڑا دیتے ہیں۔ نقل کرتے ہوئے کبھی طالب علم تو کبھی پیسے لے کر نمبر بڑھاتے ہوئے خود استاد پکڑا جاتا ہے۔ قابلیت کس کھیت کی مولی سوچ کر نوجوانوں کو تعلیم کے نام پر محض ڈگری پکڑا دی جاتی ہے اور فیسوں کے نام پر بے چارے والدین پکڑے جاتے ہیں۔ قوم کے معمار اکثر اسکول کالج کی بنچوں کے بجائے پارکس کی بنچوں پر پکڑے جاتے ہیں۔

ارے بھئی محبتوں کو بھی نہیں بخشا تم لوگوں نے تو! میری تشکیل کے وقت یہ واحد چیز کسی ملاوٹ کے بغیر پائی جاتی تھی لیکن آج محبت ہو یا خلوص اتنی صفائی سے ملاوٹ کرتے ہو کہ کوئی نہیں پکڑ پاتا۔ کسی کو چونا لگانے کی بھی زحمت نہیں کرتے، جس کو لگانا ہوتا ہے اسی کے ہاتھ میں پکڑا دیتے ہو کہ لو خود ہی لگا لو، پیچھے کافی لمبی لائن ہے اس لیے ”پارسل“ کا خاص انتظام کیا ہے۔

اب میں کیا کیا بتاؤں کہ اتنے برسوں میں پکڑم پکڑائی کا کھیل پوری قوم کا اتنا پسندیدہ کھیل بن چکا ہے کہ کسی کا ہاتھ پکڑو تو وہ پونچھا پکڑ لیتا ہے۔ خاندانی معاملات ہوں یا بچوں کی شادیاں، بزرگ اپنی ضد پکڑ لیتے ہیں، اور اگر محبت سے اولاد پر جذباتی دباؤ ڈالنا ہو تو اپنا دل پکڑ کر پلنگ پکڑ لیتے ہیں کہ مانتے ہی بنے ورنہ پھر ٹیڑھی انگلی کرنے کے لیے پگڑیاں پکڑ لی جاتی ہیں۔

آن لائن آرڈر میں کوٹ کی تصویر دکھا کر پارسل میں مختصر بنیان پکڑا دیتے ہو اب جینز کا آرڈر دیتے ہوئے بندہ دس بار سوچے۔ کسی لکھاری کے انباکس میں چلے جاؤ تو وہ اپنی پوسٹ کا لنک پکڑا دیتا ہے کہ رائے ضرور دیجئے گا۔ بچے بچیوں کی تربیت سازی میں جدید تہذیب کے نام پر حد درجہ شخصی آزادی دے کر پھر مائیں پریشان ہو کر مصلے پکڑ لیتی ہیں۔ آسان دین کو مشکل بناتے ہوئے ذرا ذرا سی بات پر مولوی حضرات فتوے پکڑا دیتے ہیں۔ توہم پرستی کا شکار قوم سب سے زیادہ توجہ دیواروں پر لکھے اشتہارات پر دیتی ہے۔ جعلی عامل اس قوم کی دکھتی رگ ایسے پکڑتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے ان جھوٹے عاملوں کے آستانے پکڑ لیتی ہے۔ اس سارے کھیل تماشے میں بے چارے کالے بکرے پکڑے جاتے ہیں اور خوامخواہ حلال ہو جاتے ہیں۔

اسی پر اکتفا نہیں بلکہ اب تو پکڑم پکڑائی کا کھیل ہر گھر میں کھیلا جاتا ہے کہ تھکے ہارے شوہر کے دفتر سے گھر پہنچتے ہی بیگم سودے کی لسٹ پکڑا دیتی ہے۔ جب بے چارہ سودا لا کر دے دے تو چنو اور منو کو پکڑا دیتی ہے کہ سنبھالیں اپنی شرارتی اولاد کو، صبح سے تنگ کیا ہوا ہے اور خود مزے سے موبائل فون پکڑ کر میکے والوں سے گپ شپ کرنے کے بہانے کونہ پکڑ لیتی ہے۔ بہو کے شاہانہ و نوابی انداز دیکھ کر ساس، بیٹے کے کان پکڑ لیتی ہے۔ لیکن سچ تو یہی ہے کہ گھر گھر کی کہانی الگ، داؤ پیچ پلٹتے رہتے ہیں کہ ساس نے ہر معاملے میں ماں ہونے کا خفیہ ہتھیار جو پکڑا ہوتا ہے اور اس پکڑ سے بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔

پرانی خاندانی رنجشیں جان نہیں چھوڑتیں، نند بھاوج ایک دوسرے کی باتیں پکڑ لیتی ہیں، اور رہی پھپھیاں تو پھپھیاں تو ویسے ہی نئی نسل کے ہاتھوں بدنام ہو چکی ہیں کہ جہاں مذاق اڑانا ہو تو بچے بچیاں محبت سے اپنی خالہ کی صدقے واری چار بلائیں اتار کر اپنی پھوپھی کو پکڑ لیتے ہیں اور اپنی مظلومیت کے ریکارڈ توڑتے ہوئے ”پھپھو کی باتیں“ جیسے اسٹیٹس سوشل میڈیا پر لگا کر سارا دن پھپھو کے ”گن“ گاتے ہیں۔

پوری قوم پکڑم پکڑائی کے کھیل کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ جب کسی کو کچھ بھی پکڑنے کو نہیں ملتا تو ایک دوسرے کا پیچھا پکڑ لیتا ہے اور اس وقت تک نہیں چھوڑتا جب تک کہ سامنے والا اس کا پاؤں نہ پکڑ لے۔

وہ تو شکر اس قوم کے کچھ مہربانوں نے ہر قدم پر اچھائی کو پکڑا ہوا ہے جو ہر برائی پر غالب آ کر مجھے امیدوں و امنگوں بھرے خوشگوار احساس سے مسحور کر دیتی ہے اور میں پھر سے تازہ دم ہو کر ایک درخشاں و تابناک مستقبل کا احساس پکڑ لیتا ہوں۔

فقط،
تمہارا پاکستان

لبنیٰ مقبول
Latest posts by لبنیٰ مقبول (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments