خیبر پختونخوا انتخابات: لوٹ کے بدھو گھر کو آئے


محض تین برس ادھر کی بات ہے جب پاکستان کے عوام نے ایک لمبے عرصے کے بعد سیاسی عمل میں جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے حصہ لیا اور اپنے تئیں ریاست کی مضبوطی کے لیے ایک مختلف آدمی کا انتخاب کیا۔ لاہور میں منٹو پارک ہو یا کراچی کا جلسۂ عام، پشاور میں سجا پنڈال ہو یا ہری پور میں منعقد کیا گیا سیاسی اکٹھ، مری میں ہونے والا سیاسی محاربہ ہو یا مدینہ اولیا ملتان کے کرکٹ اسٹیڈیم میں مجمع عوام، ہر طرف عوام کا جم غفیر خان صاحب کے الفاظ میں اپنے خوابوں کی قندیل کو روشن ہوتا دیکھنا چاہتا تھا۔

ان محفلوں میں ان سادہ لوح لوگوں کو بتایا جاتا تھا کہ گزشتہ تیس برسوں میں دو سیاسی جماعتوں نے چوری، رشوت ستانی اور دو نمبری کے ہر وار سے وطن عزیز کی دیواروں کو کھوکھلا کر دیا ہے جنہیں خان صاحب اپنی بہترین، لائق اور دیانت دار ٹیم کی مدد سے پھر سے مضبوط اور لاجواب بنائیں گے۔ ملک میں سبز انقلاب آئے گا اور ہر شے دیکھتے ہی دیکھتے بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ وزیر اعظم سائیکل پر دفتر جائیں گے۔ وزیر اعظم کے گھر سے جڑا کچن تقریباً غیر فعال کر دیا جائے گا اور کفایت کی قوت سے ملک تین مہینے میں درست سمت میں سفر کرنے لگے گا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ کسی بھی جماعت کا حامی گھروں میں، دوستو کی محفلوں میں، اپنے دفاتر کی کینٹین پر الغرض کسی جگہ پر سابق حکمران جماعتوں کی حمایت میں کوئی لفظ کہہ کر گویا وبال میں آ جاتا اور اسے اپنی ذات بچانا مشکل تر ہو جاتی تھی۔ مگر الیکشن میں فتح یاب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف نے قدم قدم پر اپنے حامی کی توقعات کو مایوسی میں تبدیل کیا۔ پہلے خان صاحب نے اپنے نظریے پر ہتھیار ڈالے اور ایسے سیاست دانوں کو حکومتی ڈرائنگ بورڈ کا حصہ بنایا جن کی شہرت کچھ اچھی نہیں تھی۔

دوسرے مرحلے پر حکمران جماعت نے عوام سے کیے گئے اپنے وعدوں کی تکمیل میں کسی قسم کی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور ملکی حالات دن بہ دن خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے گو صورت حال پریشان کن تھی مگر حکمرانوں نے اسے بھی اپنا ہی شعبدہ کمال بتایا کہ یہ سب کینوس تو ان کا اپنا رنگ زدہ ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے تھیلے میں سے کبوتر نکالیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ جتنے کینوس بدلے، کتنے ڈرائنگ بورڈ نئے آئے کتنے منچ بار بر سجائے گئے مگر عوام کو تسلی دینے والا کبوتر باہر آنے کی بجائے انہیں ڈرانے کے لیے نہیں معلوم کیسے کیسے جنات سامنے آئے حتی کہ بعض اوقات تو ایسے بھوت پریت بھی تھیلے سے باہر نکلے جو غریب بے کس عوام کی طرف کاٹ کھانے جو دوڑے مگر اس ساری صورت حال کا حکمرانوں کی زلف خم دار پر کوئی اثر نہ ہوا وار یہ جنات مختلف شکلوں میں گلیاروں میں، بازاروں میں، چوکوں میں، چوراہوں میں ہر طرف پھیلتے گئے حتی کہ جنات کی تعداد بڑھتی گئی اور انسان کم پڑتے گئے۔

ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بیروزگاری نے ملک کے ایک بڑے طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس پر مزید رنگ کرونا کے مسائل نے چڑھایا۔ اس سارے منظرنامے میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ درپیش ہوا جس کے روایتی نظام کو کچھ رد و بدل کر سامنے لا کر اپنے تئیں حکمران جماعت نے کچھ سہولت حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن پھر کیا ہوا کہ خیبر پختونخوا جو پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور جہاں پاکستان تحریک انصاف گزشتہ آٹھ برس سے تخت شاہی پر براجمان ہے۔

اسی تخت شاہی میں حکمران جماعت کو بلدیاتی الیکشن میں کسی حوالے سے تسلی بخش نتائج حاصل نہیں ہوئے اس لمحے تک موصول ہونے والے نتائج کے مطابق 17 اضلاع میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی ف نے 21 پاکستان تحریک انصاف نے 15 آزاد امیدوار 10 عوامی نیشنل پارٹی نے 6 مسلم لیگ نون نے 3 نشستیں حاصل کیں۔ تین نشستوں پر الیکشن ملتوی جبکہ چار نشستوں کے نتائج ابھی نامکمل ہیں۔ خیبر پختونخوا کے مرکز پشاور میں سٹی مئیر کی نشست بھی جمعیت علمائے اسلام ف نے جیت لی جو حکمران جماعت کے لیے ایک جھٹکے سے کم نہیں۔

گو صوبہ خیبر پختونخوا میں حکمران جماعت کی شکست حیران کن نہیں کہ عوامی زندگی میں موجود مشکلات گزشتہ کئی مہینوں سے اس طرح کے حالات کی خبریں سنا رہے تھے۔ نتائج کی صورت سامنے آنے والے حالات میں لازمی ہے کہ یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ مرکز اور صوبے کی حکمران اور بلوچستان کو اپنی مرضی کے تحت چلانے والی، ملک کے مقتدر حلقوں کی پسندیدہ جماعت کو اس مشکل صورت سے کیوں دوچار ہونا پڑا؟

یوں تو پاکستان تحریک انصاف کے برے نتائج اور صوبہ بھر میں عمومی شکست کی وجوہ کوئی ایسی ڈھکی چھپی نہیں ہیں جیسے عام آدمی سے دوری، حکومتی ایوانوں میں غیر ملکی افراد کی ضرورت سے زیادہ کھپت غیر ذمہ دارانہ حکومت، زمینی حالات سے لا تعلقی، پارٹی کے پرانے وفاداروں سے سرد مہری، ہر طبقہ زندگی پر حکومتی اشرافیہ کی جانب سے طنز و تشنیع، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بنیادی اشیائے ضروریہ کی عدم دستیابی، بیروزگاری وغیرہ وغیرہ

اس صورت میں اہم سوال یہ ہے کہ پارٹی کا ردعمل کیسا رہتا ہے یہی وہ وقت ہے جب کوئی سیاسی جماعت ثابت کرتی ہے کہ آیا وہ سیاسی جماعت ہے یا مفاد پرست پرندوں کا ایک اجتماعی گھونسلہ اور ابتدائی صورت حال میں پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے اس باب میں باہمی آویزش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے کچھ اچھا آغاز نہیں کیا حتی کہ پارٹی کے صوبائی نائب صدر نے اپنی پارٹی کے ”ارکان اسمبلی کے بک جانے“ کا دعویٰ بھی کیا۔ اس سارے ماحول میں وفاقی وزیر شبلی فراز اور شوکت یوسفزئی نے مہنگائی کے عنصر کو تسلیم کیا اور توقع دلائی کہ آئندہ دنوں میں صورت حال بہت بہتر ہو جائے گی مگر شبلی فراز نے سیاسی استدلال بھی پیش کیا کہ ان کے مطابق تحریک انصاف کے داخلی انتشار نے بھی اس جماعت کو یہ دن دکھایا ہے۔ اگر پاکستان تحریک انصاف کے کارپردزگان نے سچ کا سامنا نہ کرنے کی اپنی روایت کو برقرار رکھا تو دیگر چار صوبہ جات کے عوام بھی خیبرپختونخوا کے لوگوں کی طرف سے لیے گئے فیصلے کو درست اور کارگر سمجھنے لگیں گے۔

یہ تمام دلائل درست لیکن بنیادی نقصان اس عام آدمی کا ہو رہا ہے جس نے اپنے خوابوں کے گھر کی امانت داری عمران خان اور ان کے ساتھی سیاست دانوں کے سپرد کی تھی جو چاہتا ہے کہ ملک میں امن رواداری کا چلن عام ہو جو سیال کوٹ کے مٹھی بھر اوباش حیوان صفت لوگوں کا سخت ناقد ہے اور اسے اس دردناک واقعہ پر عمران خان کے قریبی ساتھی وفاقی وزیر برائے دفاع کے بیان سے سخت مایوسی ہوئی۔ اس ملک کا کسان کھاد، پانی، بجلی کی قلت کا شکار ہو کر گلی گلی مارا مارا پھر رہا ہے کہ اس نے اپنی دانست میں ایک ایماندار، وطن پرست، انسان دوست، غریب پرور سیاسی جماعت کو اپنا نمائندہ مقرر کیا تھا مگر ہر نئے دن کے ساتھ ان کا وہ مثالی کردار کہیں معدوم ہوتا چلا گیا۔ ہر نئی صورت حال میں ایک ضدی، انسان دشمن اور اپنی طاقت کا پجاری کوئی چھوٹا بچہ سامنے آنے لگا اور آج خیبرپختونخوا کے عوام نے آٹھ برس کے بعد انہیں لوگوں کو اپنا نمائندہ، اپنا مسیحا لیا ہے جنہیں وہ گزشتہ آٹھ برس سے چور ڈاکو، ڈیزل پرمٹ کے رشوت خور اور نہیں معلوم کیا کیا کچھ کہتے تھے۔

کیا بلدیاتی انتخابات کے آئندہ مراحل میں بھی نتائج کا یہی سلسلہ رہے گا؟ کیا سارے بدھو لوٹ کے گھر کو آئیں گے؟ کیا وزیر اعظم خان کی طرف سے نواز شریف، مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ اور پراپیگنڈا تھے؟

اگر یہ سچ ہے تو اس ملک کے بائیس کروڑ عوام ان دھند کے دنوں میں تو ان چوروں ڈاکوؤں کو پھر سے اپنا مسیحا منتخب کر لیں گے لیکن جب یہ دھند چھٹ جائے گی اور مطلع صاف ہو جائے گا تو ان سرفروشوں کا کیا ہو گا جنہوں نے خان صاحب کی طرف سے اچھالی گئی خوابوں کی منہ سلی پوٹلی پر بند آنکھوں اور کھلے دل سے بھروسا کیا؟

فیصلہ اس ملک کے سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments