پری زاد کا کالا ہیرو


پری زاد کا کالا امیر ہیرو۔ اس ایک لفظ نے ہمیں ڈرامے کی بجائے ناول اور مصنف کی طرف مائل کیا۔ دل کو قرار آ یا کہ ہاشم ندیم خان مصنف ہیں۔ اگر کسی خاتون نے یہ آگ لگائی ہوتی تو لطیفہ بھی الٹا بننا تھا۔

سب سے پہلے تو مصنف اور ان کی پو ری ٹیم کو یہ مبارک کہ کالے ہیرو کو ایک بار پھر زندہ کیا گیا۔ دوم مرد کے مسائل پہ آ واز اٹھی۔ ورنہ عشروں سے ہم خواتین کے مسائل پہ بات کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ ڈرامے میں مرد کا کردار سپرم کے ایک کمزور قطرے جتنا ہی رہ گیا تھا۔

اب آپ کو پہلے تو یہ سوچ آئے گی کہ کالا ہیرو پہلے کب تھا جو اس ڈرامے نے اسے زندہ کیا۔ تو یاد کیجئے ایک گیت شادیوں پہ گایا جاتا تھا۔ ’

’کالا شا کالا، میرا کالا اے دلدار۔

تو عزیزان من کالا ہیرو تھا۔ مگر اس کو گورے ہیرو نے ایک عرصہ سے مات دے رکھی تھی۔ اتنی مات دی کہ کالے لڑکوں کے لئے رنگ گورا کرنے والی کریموں کے اشتہار ٹی وی پہ آ نا شروع ہو گئے۔ ویسے بھی ایشیائی سماج میں کبھی بھی مرد کے بہت گورے رنگ کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ سانولا مرد آئڈیل مرد ہو تا تھا۔

بہرحال بات ہو رہی ہے۔ پری زاد کے کالے ہیرو کی۔ تو یہ قابل تحسین ہے کہ ملک میں موجود ایک اہم نفسیاتی مسلے کو ڈرامے کا مرکزی نکتہ بنایا گیا۔ وہ جو کہا جاتا ہے ادب سماج کا عکاس ہے تو اس کے دو معانی ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ سماج میں کیا ہو رہا ہے۔ دوم آپ سماج میں ہو نے والے عمل کو اپنے آئینے میں کیسے دیکھ رہے ہیں۔ اس کو آپ کا نکتہ نظر بھی کہہ سکتے ہیں۔

تو یہ ڈرامہ ان دونوں پہلوؤں کے حوالے سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف یہ سیلف میڈ مردانہ سماج کی عکاسی کر رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بتا رہا ہے کہ دولت سماج میں کیسے اہم ہو گئی ہے۔

پہلے پہلو کو تو ہم مان ہی نہیں رہے۔ لیکن ادھیڑ عمر اور اسے اوپر کی عمر کے مرد اگر اپنے گریبان میں ایمان داری سے جھانک کر دیکھیں تو کیا آپ نے اپنی تمام عمر محنت کرتے نہیں گزاری؟ کیا آپ نے اپنے زور بازو پہ اپنی آج کی زندگی نہیں بنائی؟ کیا حسن اتفاقات آپ کا دامن نہیں تھامتے رہے؟ تو آپ کو یاد آ جائے گا کہ آپ نے شاید چند سینکڑوں سے زندگی کا آغاز کیا ہو گا۔ آج آپ ایک گھرانے کے ساتھ ممکن ہے کئی گھرانوں کے کفیل ہوں۔ اور حسن اتفاق ہونے کے لئے کچھ ہو نا بھی کتنا ضروری ہے۔

جب نوجوان نسل کا مرد اس موضوع کو کشید کرے گا تو اسے یہی دکھائی دے گا کہ بس یہ سب جھوٹ ہے۔ عورت امیر مرد سے پیار کرتی ہے۔ غریب کی کوئی حیثیت نہیں۔ آپ سچ ہوں گے۔ لیکن ملک میں غریب مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کیونکہ غریب آ بادی زیادہ ہے۔ تو کیا کسی مرد کو جوانی میں کسی عورت نے نہیں چاہا ہوتا؟

نہیں، بھری جوانی میں محبت بھی اور طرح کی ہوتی ہے۔ اعتماد دونوں جانب نہیں ہو تا۔ کیونکہ سماج نے دیا ہی نہیں۔ سوم جب سو فی صد کفالت کی ذمہ داری مرد پہ ہے تو ایک مرد بنیادی طور پہ محبت سے نہیں۔ معاش سے جڑا ہوا ہے۔

مگر اس تلخ حقیقت کے اظہار کا حق بھی یہ سماج مرد کو نہیں دیتا۔ تو جب ان مردوں کی زبان کوئی کردار بولتا ہے تو تمام مرد حضرات کے اصل سماجی روئیے کو اظہار اور زبان ملتی ہے۔ لہذا اس ڈرامے نے بہت بڑے پیمانے پہ اظہار اور زبان کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہ اس زبان کا سنگ میل بنا ہے۔ جس کی اس وقت اشد ضرورت تھی۔ اور یقین کیجئے اگلے ایک عشرے میں اس زبان اور اظہار کے باقی کے پہلوؤں کو طاقت ملے گی۔

اگر آپ خود اپنے گھروں میں دیکھیں ایک مرد پہ بنیادی طور پہ دو گھروں کی معاشی ذمہ داری ہے۔ ایک اپنی بیوی بچوں کی ذمہ داری دوم اپنے والدین کے گھر کی ذمہ داری۔ چونکہ ابھی نظام زندگی یہی چل رہا ہے لہذا ہم کسی کو موردالزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

اس نظام میں کالا ہیرو تو اب نظر آ یا ہے۔ برسوں سے کتنے ہی کالے ہیروز اپنے حصے کا کام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ بس ان کو پری زاد والی زبان نہیں مل سکی۔ اظہار نہیں مل سکا۔ جو آج کے اس ہیروز کے توسط سے آج کے مرد کو ملا ہے۔

یہ ڈرامہ امیر مردوں کو ہیرو نہیں بنا رہا۔ جو سماج میں پہلے ہیرو رہا ہو۔ اس کو بھلا کیا ہیرو بنانا۔ چونکہ ملک کی اکثریت آ بادی مڈل کلاس اور اسے نیچے ہے۔

نئے اقتصادی نظام سے غربت بڑھتی جا رہی ہے۔ تو یہ سوچ بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ سب امیر چور، دھوکے باز، جرائم پیشہ و ہیں۔ اور ان کی دولت محض کسی دو نمبری کا سبب ہے۔ تو ایسا ہے نہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو سب غریب ایمان دار، اور اعلی کردار ہیں تو ان امیروں کے لئے دو نمبری کرنے والے سب کردار غریبوں میں سے کیوں نکلتے ہیں۔ اور اگر غریب اتنے ہی اعلی ظرف ہیں تو ان کو کیسے یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک بد کردار امیر کے گندے روئیے پہ انگلی اٹھائیں۔ یہ تو ان کی اعلی ظرفی کے خلاف ہے۔ تو جان من دل بڑا کیجئے۔ دماغ آپ ہی بڑا ہو جائے گا۔ دولت کی تقسیم میں سے اپنا حصہ لینے کے لئے تمام حواس قائم رکھنے پڑتے ہیں۔

سب کی دولت دو نمبری کی پیدا وار نہیں ہے۔ طریقہ کار ہے۔ یہاں دولت کمانا بھی ایک نظام ہے۔ کبھی کسی امیر مرد کو آپ نے ساری رات کسی لڑکی سے موبائل پہ باتیں کرتے سنا ہے؟ نہ ہی کسی اسی سالہ گوری سے محبت کی شادی کرتے سنا ہو گا۔ امیر مرد کا بیٹا یہ سب کر سکتا ہے۔ لیکن جو دولت کما رہا ہے۔ وہ محنت کر رہا ہو تا ہے۔ اور دو نمبری سے دولت کمانا زیادہ وقت طلب و محنت طلب کام ہے۔

ایسا سوچنے والے ایک بار سوچیں۔ وہ اپنے کام میں کتنی محنت کر رہے ہیں؟ کتنا وقت دے رہے ہیں اسے؟ آگے بڑھنے کے لئے کیا لائحہ عمل اختیار کر رہے ہیں؟ اپنے حالات پہ کتنا صبر کر رہے ہیں؟ ان کا اپنا کردار کتنا بلند ہے؟ یہ سوال اپنے موازنہ ہی لئے کافی ہوتے ہیں۔

نوکری نہیں مل رہی تو پری زاد کے پاس نوکری ہو گی۔ ایسے بہت سے گورے، کالے پری زاد ابھی بھی ملک میں سرمایہ لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن آپ نے اپنی صلاحیت کتنی بڑھائی؟ کیا آپ نے یہ سوچا؟ نہیں سوچا تو اب سوچ لیں موازنہ کر لیں۔

کیا یہ کردار ان نوجوانوں کو یہ امید نہیں دیتا کہ ممکن ہے وہ اپنے وقت کے پری زاد ہوں۔ اس کے لئے انہیں اپنی ذات پہ اور فطرت پہ یقین رکھنا ہے۔ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ انسان نے جو بیج بویا ہوتا ہے۔ اس کی نسلیں وہی پھل کھاتیں ہیں۔

لہذا اگر تو آپ کردار کو مثبت نکتہ نگاہ سے دیکھنا چاہیں تو اس میں وہ بھی عنصر موجود ہے لیکن اگر آپ نے سوچ ہی لیا ہے کہ بھیا یہ سماج میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے تو اگلے ایک عشرے میں اس سنگ بنیاد پہ کھڑی عمارت آپ کو بتا دے گی کہ اس پری زاد نے مرد کے کردار کو جو اظہار دیا ہے۔ وہ سماج کو ایک مثبت ڈگر پہ لے کر گیا ہے

ہم نے ایک عرصہ ہوا مرد سے اظہار چھین لیا ہے۔ سماج میں توازن کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے ہر طرح کے جذبے کا اظہار کرے اب وہ شاعری میں کرے، کردار میں کرے، مکالمے میں کرے، ڈرامے میں کرے، مگر کرے یہ بہت ضروری ہے۔ پری زاد نے اس کی راہ ہموار کی ہے۔ اور کیسے ہموار کی ہے یہ بات وقت ثابت کرے گا۔ ہم رہیں نہ رہیں۔

اگلے آ نے والے ڈراموں میں اس طرح کے مزید موضوعات آئیں گے تو اس موضوع کو ثبات مل جائے گا۔ خرم بٹ نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا تھا ”مزدور کا رنگ پیدائشی کالا نہیں ہو تا بلکہ حالات کے جبر کی حدت انہیں سیاہی مائل کر دیتی ہے،

کچھ بھی کہہ لیجیے آج کا ہیرو کالا پری زاد ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments