ہم شرمسار ہیں



ایک خاص طرز عمل ثقافت رہن سہن ایک سوچ ایک عمل اور مشترکہ مفادات کے حامل لوگوں کے خاص گروہ کو قوم کہا جاتا ہے۔ لفظ قوم کی اہمیت کا اندازہ آپ کو اس وقت ہوتا ہے جب ایک قوم ہجوم کی شکل اختیار کر جائے۔ ہجوم لوگوں کا ایک ایسا گروہ ہوتا ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی ہے جو مار جلاؤ گھیراؤ پر یقین رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم ایک قوم سے مختلف گروہوں میں تقسیم ہو چکے ہے۔ ہر گروپ کے اپنے مفادات ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لئے کسی بھی وقت دم توڑتی ریاست کو یرغمال بنا لیتے ہے۔

سنہ اسی کی دہائی میں ایک ایسا زہر آلود بیج بویا گیا جس کو مختلف وقت میں مختلف مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے اب یہ ایک تناور درخت بن چکا ہے جس کی شاخیں ہر سمت پھیل چکی ہے۔ اور جس کی جڑیں پنجے گاڑ چکی ہے۔ اس درخت کی آبیاری معصوم لوگوں کا خون بہا کر کی جا رہی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے کئی دہائیوں سے اس خوں آلود درخت کی آبیاری اور حفاظت کی ہے وہ یقیناً کسی پر آسائش جگہ پر بیٹھ کر اپنی کامیابی کا جشن مناتے ہو گے۔

زمین کے اس عام اور انتہائی چھوٹے سے خطے میں درندگی بہیمانہ تشدد اور انسانیت سوز واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے ہر نیا واقعہ اپنی سفاکیت میں ماضی کے حادثات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ مشال خان آسیہ بی بی مغیث اور منیب اور ان جیسے کئی بے گناہ ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے جا چکے ہے۔ لیکن سری لنکن مینیجر کا قتل نا صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کو ایک بار پھر ہزیمت کا شکار کر گیا ہے۔ توہین رسالت ﷺ کا الزام لگا کر ایک غیر ملکی کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

یہ کیسا انصاف تھا جس میں ملزم کو صفائی کا موقع بھی نہ دیا گیا۔ بغیر کسی ثبوت کے کیسے ایک انسان کو کیسے زندگی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کیسے لوگ تھے جو منصف بن بیٹھے تھے۔ جنگل میں آگ لگے تو جانور جنگل سے باہر کی طرف بھاگتے ہے درندے بھی یوں ہی کرتے ہے۔ انسان کو آگ لگے تو انسان مجمع لگا کر نظارہ کرتا ہے کچھ نعرے لگاتے کچھ سلفیاں بناتے اور کچھ ٹک تاک بنانا شروع کر دیتے ہے۔ یہ واقعہ ہمارے لئے یوم سیاہ نہیں ہے بلکہ ہماری جہالت کا باقاعدہ یوم آغاز ہے۔

دوسری قوموں نے سائنسدان تخلیق کار اور رفاہ عامہ کے کام کرنے والے لوگ پیدا کیے۔ اور ہم نے ایسے لوگ پیدا کیے جو اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے میں ہر اول دستہ کا کام انجام دے رہے ہے۔ تحقیقات کے مطابق غیر ملکی مینیجر نے کوئی توہین آمیز رویہ اختیار نہیں کیا تھا اس نے اپنے فرائض کے مطابق دیواروں پر لگے پوسٹر ہٹانے کو کہا تھا۔ اور کارکنوں کو اپنی ڈیوٹی ٹھیک طرح سے کرنے کو کہا تھا جس کا ورکرز کو عناد تھا اور اپنی دشمنی میں انہوں نے ایک معصوم سے اس کی جان چھین لی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک غیر ملکی جو آپ کے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے۔ جو عربی زبان نہیں جانتا ہے جس کو اپ کی مذہبی امور اور شخصیات کا کچھ پتا نہیں ہے وہ کیوں کر جان بوجھ کر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائے گا۔ بالفرض ایسا ہے تو لوگوں کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ قانون ہاتھ میں لے۔ مرکزی ملزم کی ویڈیو دیکھ کر اس کی جہالت اور اپنے مذہب سے محبت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا امام حسین کے پوسٹر کو پھاڑنے پر وہ مشتعل ہو گیا تھا۔

یقیناً مینیجر امام حسین کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہو گا تو پھر گستاخی کس طرح ہو گی۔ ملزم کی گفتگو اور چال ڈھال دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کتنا عملی مسلمان تھا۔ مجھے یہ یقین ہے اگر ملزم سے پہلا کلمہ طیبہ یا اسلام کے بنیادی ارکان نماز اور وضو کا طریقہ پوچھا جائے تو بتانے سے قاصر ہو گا۔ مجھے یقین ہے نہ صرف مرکزی ملزم بلکہ سارے ہجوم کا اسلام یا اس کے ارکان سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ ان میں سے بہت سو نے تو کبھی مسجد کا رخ نہیں کیا ہو گا۔

یہ تو وہ لوگ ہے جو اپنی ہر بات کا آغاز اور اختتام فحش اور غلیظ الفاظ بول کر کرتے ہے۔ عجیب عاشق ہے اذان سن کا اپنی خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہے۔ کم۔ تولنا جھوٹ بولنا کام میں بد دیانتی کرنا وعدہ خلافی کرنا دھوکہ دہی حسد اور غیبت کرنا ان عاشقان کی صفات ہے۔ ایک ایسے ہی جاہل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جو اس افسوس ناک واقعہ کو درست قرار دے رہا ہے اس کا بیان کا انداز اس کی قابلیت بتا رہا ہے۔ اس نے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے حدیث پر کتنا عمل کیا ہے۔

اس افسوس ناک واقعہ پر ہر حکومت کا حصہ رہنے والے اور کروڑوں کی لسی سرکاری خزانے سے مفت میں پی جانے والے شخص کا بیان سنے تو اپ کا سر شرم سے جھک جائے۔ یہ اور ان جیسی سوچ کے حامل افراد نے ہمارے ملک کو انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا ہے۔ ہم تو اس پاک پیغمبر حضرت محمد کے پیروکار ہیں جن پر ایک بڑھیا روز کچرا پھینکتی تھی لیکن آپ ﷺ کی ذات اقدس نے اف تک نہیں کی اور وہ بڑھیا آپ ﷺ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔

آپ ﷺ نے تو اپنے دندان مبارک شہید کرنے والوں کے لئے بھی خیر کی دعا کی تھی۔ تو پھر یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کس مذہب کے پیروکار ہیں؟ ان کا اسلام اور اس کے منانے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ رانگ نمبر ہے۔ یہ مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے یہ سب اپنے مفادات کو تخفظ دینے کے لیے کچھ سال سے تشکیل دی جانے والی جماعت لبیک کے پیروکار ہے۔ کبھی آپ نے سوچا یہ خادم حسین رضوی ایک دم سے اتنی سٹریٹ پاور کے ساتھ کہا سے آ گیا یہ بوٹ کی طاقت اور جعلی ووٹ کو عزت دو کی آپس کی لڑائی کا شاخسانہ ہے جس کو یہ قوم مزید کی دہائیاں جھیلے گی۔

ہماری بوٹ کی طاقت اور ووٹ کو عزت دو والوں سے درخواست ہے آپ کے پاس طاقت اور دولت دونوں ہے ان دونوں سے دنیا میں کوئی اور زمین کا ٹکڑا خرید لیِں اور وہاں پر اپنے بوٹ، لوٹی ہوئی دولت اور نسل در نسل حکمرانی کے نشے کو دوام دیں۔ اپنے مفادات کے لئے اس خطے کے لوگوں کو آپ انتہا پسندی شدت پسندی کے تحفے دے چکے ہے جس کے نتیجے میں یہاں کے باسی انسانوں کی بجائے درندوں کی شکل اختیار کر چکے ہے۔ یہ ملک اور اس میں زندہ بچ جانے والے چند انسانوں پہ رحم کریں۔ اور یہاں سے اپنی بدصورتی سمیت کوچ کر جائیں۔ اب بوٹ اور جعلی ووٹ کی طاقت کو خدا حافظ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments