اختر احسن: آنے والے وقتوں کا ماہر نفسیات


شعبہ اطلاقی نفسیات پنجاب یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی مجھے میرے ذی قدر استاد پروفیسر خالد سعید دام ظلہ نے ڈاکٹر اختر احسن کے بارے میں مختصراً یہ بتایا تھا کہ وہ ایک پاکستانی ماہر نفسیات ہیں۔ انہی کی طرح ڈاکٹر اجمل مرحوم کے شاگرد ہیں۔ شاعر ہیں۔ مائتھالوجی کے ماہر ہیں۔ فلسفی ہیں۔ اور نفسیاتی علاج کے ایک نئے مکتبہ فکر کے بانی ہیں۔ خالد سعید صاحب چونکہ فرائڈ کی عینک سے نفسیات کو دیکھتے ہیں اسی لیے یہ بھی فرمایا کہ ڈاکٹر اختر احسن کا کام فرائیڈ ہی کی روایت کا ایک پھیلاؤ ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں پہنچ کر یہ پتا چلا کہ ڈاکٹر اختر احسن کا کام مینٹل امیجری Mental Imagery پر ہے یہ امیجری ایک ایسا لفظ ہے جس کا اردو متبادل اس طالب علم کو آج تک نہیں مل سکا۔ لیکن جب یہ پتہ چلا کہ ان کا کام منٹل امیجری نہیں بلکہ آئیڈیٹک امیجری Eidetic Imagery پر ہے تو اور اوسان خطا ہوئے۔ ہم ایسے ہر تصور کو اس کے اردو متبادل سے سمجھنے کے عادی لوگ اب اس آئیڈیٹک امیجری کو کیا سمجھتے۔ سو اسے ایک بھاری پتھر سمجھ کر کسی اور دن کے لئے رکھ چھوڑا۔
ماسٹرز کے بعد سینٹر فار کلینکل سائیکالوجی پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک دن ڈاکٹر اختر احسن کو ایک لیکچر کے لیے دعوت دی گئی ہے۔ وہ پاکستان کے ایک مختصر سے دورے پر تھے۔ اس طرح کے مہمان لیکچرز کا اہتمام عموماً دوپہر میں ہوتا تھا۔۔ جب ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے تو مجھے لگا کہ یہ علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال کے بھائی ہیں۔ حالانکہ معلوم تھا یہ ان کے بھائی نہیں ہیں لیکن بہت زیادہ مماثلت یہی خیال بار بار ذہن میں لاتی رہی۔ گو اس بات کا اس مماثلت سے تو کوئی تعلق نہیں مگر بعد میں یہ پتہ چلا کہ ڈاکٹر اختر احسن کی پیدائش سیالکوٹ کے اسی گھر میں ہوئی تھی جس گھر میں علامہ اقبال پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے نظریات کا ایک انتہائی مختصر تعارف سائیکو تھراپی کے ابتدائی درجے کے طلباء کے لئے پیش کیا۔ ان کو یہ جان کر خوشی ہوئی اور سنٹر کے طلبہ ان کے نام اور کام سے گو سرسری طور پر ہی سہی مگر واقف ضرور تھے۔
ان کے اسی دورے کے دوران میں انہیں گورنمنٹ کالج لاہور اور دیگر اداروں میں بھی مدعو کیا گیا۔۔ کچھ اور کانفرنسز میں بھی ان کو سنا۔ ان کی ایک تربیتی ورکشاپ میں بھی شرکت کی۔ لیکن سوائے اس بات کے کہ یہ فرائیڈ اور دیگر بڑے ماہرین نفسیات کے نظریات اور طریقوں سے مختلف ایک نظریہ اور طریقہ علاج ہے کچھ اور قطعاً پلے نہیں پڑا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے مخاطبین کی ذہنی اور علمی سطح کو پیش نظر رکھے بغیر اپنی بات کہنے کے عادی تھے۔ ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی تھی کہ ان کی بات ان کے مخاطبین اور حاضرین کے لیے چونکہ بالکل نئی ہے اس لیے وہ اپنی بات سے اے بی سی شروع کریں۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ بعض جگہوں پر انہوں نے اے بی سی کی بجائے اپنی بات ایم یا این سے شروع کی۔ اور حاضرین کو ششدر چھوڑ کر یہ جا اور وہ جا۔۔۔ ایک تربیتی ورکشاپ میں انہوں نے حاضرین کے سامنے ایک ہی سیشن میں ایک ایسے فرد کا علاج کیا جو اپنے نفسیاتی علاج کے لیے سالہا سال سے ماہر نفسیات سے مل رہا تھا۔ وہ فرد خود کہہ رہا تھا کہ وہ پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہے لیکن سامنے بیٹھے ماہرین نفسیات یہ سوچ رہے تھے کہ یہ ہوا کیسے ہے۔۔ ۔۔یہ وہ جادو تھا جو ڈاکٹر اختر احسن نے تخلیق کیا تھا جو آج کی کی تاریخ تک نفسیاتی علاج میں یکتا، بے مثل و بے مثال ہے۔
اپنے تین دہائیوں پر محیط تجربے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر اختر احسن کے طریقے کی تین خصوصیات ایسی ہیں جو اسے نفسیاتی علاج کے دیگر طریقوں سے ممتاز اور مختلف ثابت کرتی ہیں۔
1. ان کے طریقہ علاج کی براقیت اور سبک رفتاری ایک ایسی خصوصیت ہے جو سائیکو تھیراپی کے نوجوان طلباء کو آج بھی متاثر کرتی ہے۔ پہلے ہی سیشن میں فرد اپنے اندر وہ تبدیلی محسوس کرتا ہے جو دیگر طریقے متعدد ملاقاتوں میں بھی پیدا نہیں کر سکتے۔
2. ان کے طریقے میں یہ استعداد آئیڈیٹک امیجری سے آئی ہے جس کی مدد سے یہ طریقہ ایسے جسمانی عوارض کا کامیابی سے علاج کرتا ہے جس کے بارے میں دیگر طریقہ اور ان کے بانیوں نے دعویٰ کرنا تو درکنار شاید کبھی سوچا بھی نہ ہو۔ ملٹی پل سکلروسز Multiple Sclerosis جیسا مرض بھی ایسے ہی امراض میں شامل ہے اس کی شکار ایک مریضہ نے اپنے کامیاب علاج کی پوری رویداد اپنی کتاب میں لکھ دی ہے۔ عام سائیکو سومیٹک Psychosomatic مسائل کے شکار افراد تو ان کے طالب علم بھی اپنے روز مرہ کے کاموں میں روزانہ دیکھتے ہیں۔
3. سائیکو تھیراپی کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ یہ گفتگو کے ذریعے کیے جانے والا نفسیاتی مسائل کا ایک علاج ہے۔ معالج نفسیاتی مسائل کے شکار فرد سے گفتگو میں مسئلے کی وجوہات اور اس کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لئے معالجے کی ضرورت محسوس کرنے والے فرد کے لئے ضروری ہے کہ وہ بات چیت کر سکتا ہو۔۔ معالج کی بات کو سمجھنے کی ذہنی صلاحیت رکھتا ہو۔۔ اور معالج کی ہدایت پر عمل بھی کر سکے۔ لیکن ذہنی پسماندگی Intellectual Disabilities کے شکار وہ افراد جو گفتگو کی صلاحیت سے جزوی یا کلی طور پر محروم ہوں کے نفسیاتی مسائل کیسے حل ہوں گے؟ فرائیڈ سمیت بڑے بڑے ماہرین آج تک ان افراد کو سائکوتھیراپی کا اہل نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے خیال میں یہ افراد اس علاج کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے پیدائشی طور پر محروم ہوتے ہیں۔ اسی طرح آٹزم جیسے مسائل کے شکار افراد کے نفسیاتی اور رویوں کے مسئلے ماہرین نفسیات کے لیے ڈراؤنے خواب بن کر رہ گئے ہیں۔ سوائے کرداری Behaviourism نظریات پر مبنی سطحی اور روایتی طریقوں کے ان افراد کے لیے ماہرین نفسیات کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر اختر احسن کے طریقہ علاج نے ان لوگوں کے نفسیاتی مسائل کے علاج کو بھی کامیابی سے ممکن بنایا ہے جو اپنی ذہنی پسماندگی کی وجہ سے گفتگو کی صلاحیت سے پیدائشی طور پر محروم ہوتے ہیں۔
یہ خصوصیات ڈاکٹر اختر احسن کے طریقہ علاج کو دیگر طریقوں سے نہ صرف یہ کہ ممتاز کرتی ہیں بلکہ ان کے طریقہ کو پاکستان میں موجود افراد کے لیے بہت مفید اور موزوں بھی بناتی ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں مریض نفسیاتی علاج کی بجائے دواؤں پر اس لئے انحصار کرتے ہیں کیونکہ ماہرین نفسیات ان سے اس زبان میں بات کرتے ہیں جو مریض سمجھ نہیں پاتے۔ اور ایسا بنیادی طور پر مغرب میں تشکیل دیے جانے والے طریقوں کو اپنے کلچر کے مطابق تبدیل کئے بغیر استعمال کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ماہرین نفسیات فرد کو جو ہدایات دیتے ہیں مریضوں کے لیے وہ ناقابل عمل ہوتی ہیں۔ اورتیسرے یہ علاج بہت طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے۔ پاکستان میں نفسیاتی مسائل کے شکار افراد ڈاکٹر اختر احسن کے طریقہ علاج کی مدد سے نہ صرف یہ کہ جلد صحت یاب ہوسکتے ہیں بلکہ ماہرین نفسیات اس کی مدد سے ادویات تجویز کرنے والے سائیکاٹرسٹ کی پیشہ ورانہ بالادستی کو بھی کامیابی کے ساتھ چیلنج کر سکتے ہیں۔
آئیڈیٹک سائیکو تھیراپی ڈاکٹر اختر احسن جیسے نابغہ کے علم اور مہارت کا صرف ایک اظہار ہے۔ ان کے ایک طالب علم کے طور پر مجھے اجازت دیں کہ ترتیب کے اعتبار سے مائتھالوجی پر ان کی دسترس اور کام کو ان کی کارگزاری میں دوم قرار دوں۔ اس ضمن میں ان کی پانچ کتابیں بالخصوص اس قابل ہیں کہ ان پر مفصل تبصرہ کیا جائے۔ ٹروجن ہارس، حضرت سلمان، ہائیپو نویا، ایفروڈائٹی اور ہندو مائتھالوجی کے کردار گنیش پر ان کی کتابیں صرف ان کہانیوں کے بیان پر مبنی نہیں ہیں بلکہ جدید زمانوں میں ان کہانیوں اور کرداروں کی نئی تفسیر اور تشریح بھی ہیں۔ یہ کتابیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہ کہانیاں آج کس طرح انسانی شعور کی تشکیل میں کارفرما ہیں۔ حال ہی میں ادبی مجلہ “بنیاد” نے ان کی ایک یادگار تحریر شائع کی ہے جو انھوں نے سعادت حسن منٹو کے مشہور زمانہ افسانے “دھواں” کی تشریح اور دفاع میں لکھی تھی۔
میں ادب کا طالب علم نہیں بلکہ صرف ایک عام قاری ہوں۔ میں نے دھواں” پر ہونے والے تنازعہ کے بارے میں پڑھا ہے.. سعادت حسن منٹو کے دفاع میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی جست جستہ دیکھا ہے اپنے علم کی حد تک میں دعویٰ کر سکتا ہوں کہ منٹو کے دفاع میں اس قدر عالمانہ تحریر آج تک نہیں لکھی گئی۔  بنیاد کے ایڈیٹر جناب ڈاکٹر ناصر عباس نیر سے اتفاق کیے بنا چارہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر اختر احسن کی اس تحریر کا موازنہ ہر صورت میں فرائیڈ کے دوستوفسکی پر لکھے گئے مضمون سے کیا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ مضمون کسی بھی طور پر فرائیڈ کی تحریر سے کم نہیں ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ وہ مضمون دوستوفسکی پر فرائیڈ نے لکھا تھا اور یہ تحریر ڈاکٹر اختر احسن نے منٹو پر لکھی ہے…۔ ہم کب اپنے لوگوں کو بڑے ناموں کے مقابل لانا پسند کریں گے؟
ڈاکٹر اختر احسن کی تیسری شناخت ان کی شاعری ہے۔ تین زبانوں اردو، انگریزی اور پنجابی میں ان کی شاعری کی اہمیت ہو سکتا ہے آنے والے نقاد آنے والے زمانے ایک مرتبہ پھر دیکھ پائیں۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ زین شاعری اور نئی نظم کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انگریزی زبان میں ان کی ایک طویل نظم Manhunt in the Dessert  تخیل، مائتھالوجی اور لسانی قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ یہ صحرا میں محو سفر ایک انسان کی داستان ہے جو ہوا کو رہنما کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ انسان کی فطرت کے ساتھ جاری کشمکش کے شاعرانہ اظہار کا معراج اس شاعری میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سال کے مختصر ترین دن 21 دسمبر 2018 کو وفات پانے والے ڈاکٹر اختر احسن پردیس کی مٹی میں ہمیشہ کی نیند سو گئے۔ مگر اپنے پیچھے نفع پہنچانے والے علم کا ایک ایسا خزانہ چھوڑ کر گئے کہ جس کی شناخت اور اہمیت کا ادراک ان کی زندگی میں شاید ممکن نہیں تھا۔ میں یہ بات ان کی مائتھالوجی، شاعری اور فلسفے پر لکھی گئی کتابوں پر تو اس یقین سے نہیں کہہ سکتا مگر نفسیاتی طریقہ علاج اور استعمار کی نفسیات پر ان کے نظریات کے اطلاق کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے ہی نہیں دھڑلے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ آنے والے وقتوں کے ماہر نفسیات تھے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments