یہ بدحواسی کس طوفان کا پتہ دیتی ہے؟


یوں تو وزیر اعظم عمران خان کا ہر بیان ہی اپنی نوعیت میں محیر العقول ہوتا ہے تاہم آج وزارت خارجہ کے دورہ کے دوران انہوں نے سابقہ حکمرانوں پر عوام کی بجائے ڈالروں کی محبت میں افغان جنگ کا حصہ بننے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں چونکہ بیس برس پہلے فیصلے کرنے والے لوگوں کے قریب تھا ، اس لئے میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ افغان جنگ میں حصہ لینے کافیصلہ ڈالروں کے لئے کیا گیا تھا ۔ اس موقع پر پاکستانی عوام کی فلاح پیش نظر نہیں تھی‘۔
عمران خان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’جس طرح اسّی کی دہائی میں افغان جہاد میں شرکت کا مقصد امریکی ڈالر بٹورنا تھا، اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شرکت کا فیصلہ بھی ڈالروں کے حصول کے لئے کیا گیا تھا۔ اس طرح ملک کی شہرت کو نقصان پہنچایا گیا اور غیر ملکی امداد کی خاطر ایسی خارجہ پالیسی بنائی گئی جو عوامی مفاد کے خلاف تھی‘۔ وزیر اعظم کاماضی قریب میں ملکی سیکورٹی و خارجہ پالیسی کے بارے میں یہ بیان اس لحاظ سے چونکا دینے والا ہے کہ اس میں وہ خود کو ذاتی طور واقعات اور فیصلہ سازی کے گواہ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ یعنی یہ ان کا سیاسی تجزیہ یا تاریخی واقعات کے بارے میں تاثرات نہیں ہیں بلکہ انہوں نے وزارت خارجہ کے افسروں کو بتایا ہے کہ 20 سال پہلے وہ اس وقت کے فوجی حاکم جنرل پرویز مشرف کے اتنے قریب تھے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ افغان جنگ میں تعاون کافیصلہ کرتے ہوئے عمران خان کو اعتماد میں لیا تھا۔
یوں تو وزیر اعظم نے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کا حلیف بننے کے بارے میں ماضی کی غلط پالیسیوں پر پہلی بار تنقید نہیں کی۔ وہ اس سے پہلے بھی امریکہ کا ساتھ دینے اور افغانستان میں القاعدہ کے خلاف امریکی جنگ میں تعاون کے معاملہ پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اقتدار میں آنے سے پہلے انہوں نے افغان طالبان کی مسلسل حمایت میں ایسا سیاسی مؤقف اختیار کیا تھا کہ انہیں ’طالبان خان‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا رہا ہے۔ تاہم افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا اور طالبان کے ساتھ معاہدہ کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان ایک بار پھر خود کو درست ثابت کرتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ تو ہمیشہ سے ہی بات چیت کرنے اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے تنازعات ختم کرنے کی بات کرتے تھے جس کی پاداش میں انہیں طالبان خان کہا جاتا تھا حالانکہ وہ پہلے بھی درست تھے اور اب بھی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
اس بحث سے قطع نظر کہ عمران خان کی سیاسی بصیرت سے افغانستان میں بیس سالہ جنگ کے دوران کیوں فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور ملکی فوج سمیت جو بقول عمران خان ’قومی فیصلے کرتے ہوئے ملکی مفاد کی بجائے ڈالروں کے حصول پر توجہ مبذول کئے ہوئے تھی‘ کیوں کسی نے اس نابغہ روزگار لیڈر کی رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ ۔۔ یہ جاننا چاہئے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں امریکہ اور مغربی ممالک سے افغانستان پر رحم کرنے اور وہاں کے چارکروڑ لوگوں کو حکمران طالبان سے الگ کرکے دیکھنے کا تقاضہ کرنے کے بعد اب وزیر اعظم درحقیقت کس کے خلاف دعویٰ دائر کررہے ہیں؟ ان کا مخاطب امریکہ اور اس کے حلیف ہیں یا وہ ملک کی فوجی قیادت پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کہ وہ ’سازشوں‘ اور مالی مفادات کی بنیاد پر کئے گئے اقدامات سے آگاہ ہیں جو ملکی مفاد کے برعکس ڈالر لینے اور ذاتی مفاد کے لئے کئے جاتے رہے تھے۔ اور اس انتباہ نما ’انکشاف‘ کا حقیقی مقصد کیا ہے۔
وزیر اعظم نے دو روز پہلے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہا تھا کہ ’وہ تو آج تک یہی نہیں سمجھ سکے کہ امریکہ افغانستان میں بیس برس تک کون سے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا‘۔ آج امریکہ پر ڈالروں کے عوض پاکستانی لیڈروں کی ’وفاداریاں ‘ خریدنے کا الزام لگاتے ہوئے اسی مؤقف کو دہرانے کے علاوہ یہ بتایا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے سے پہلے پاکستان کی ہر حکومت نے اپنے قومی مفاد کی بجائے غیر ملکی یا دوسرے لفظوں میں امریکی مفاد کی خدمت گزاری کی ہے۔ اب عمران خان نے بطور وزیر اعظم اس چلن کو تبدیل کیا ہے اور اس طرح پاکستان کا وقار دنیا بھر میں پھر سے بلند ہونے لگا ہے۔ یہ بحث بھی بے مقصد ہوگی کہ قومی وقار اور سفارتی کامیابی کو ماپنے کا کون سا پیمانہ عمران خان کے دعوؤں کا احاطہ کرنے کے لئے درکار ہوگا۔ البتہ یہ جاننا چاہئے کہ پاکستان اور موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی پاکستانی حکومت سفارتی، معاشی اور سیاسی کامیابی کے لئے واشنگٹن کی نظر کرم کی محتاج ہے۔ پاکستانی معیشت کو بحال رکھنے کے لئے آئی ایم ایف کی امداد درکار ہے جو امریکی اشارے کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اسی طرح پاکستانی برآمدات میں اضافہ کے لئے امریکہ اور اس کے مغربی حلیف ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ سے نکلوانے یا بلیک لسٹ سے بچانے کے لئے بھی عمران خان کے لئے امریکہ کو راضی رکھنا اہم ہے۔
جہاں تک خارجہ تعلقات کا معاملہ ہے تو پاکستان کی خارجہ پالیسی افغانستان کے گرد گھومتی ہے۔ پاکستان اس وقت افغانستان سے قحط اور بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر گھر چھوڑنے والے پناہ گزینوں سے بچنے کے لئے ہی امریکہ کو قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہاں پیدا ہونے والا انسانی بحران علاقے اور دنیا کے لئے خطرناک ہوسکتا ہے۔ گویا اس معاملہ میں بھی اسے واشنگٹن کی امداد چاہئے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور کشمیر کے سوال پر کسی بریک تھرو کے لئے بھی امریکی دوستی پاکستان کے لئے کلیدی اہمیت کی حامل ہوگی۔ ملکی معیشت و سیاست کی بنیاد اس وقت سی پیک کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس منصوبہ کی مناسب طریقے سے تکمیل اور اس کے ثمرات سمیٹنے کے لئے بھی اسے واشنگٹن کو راضی کرنا پڑے گا کہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کسی بھی طرح امریکی مفادات اور سلامتی کے لئے خطرہ نہیں ہوں گے۔
کسی ایک ملک کے ساتھ جڑے مفادات کے ان تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی ناجائز اور ظالمانہ پالیسی کے باوجود پاکستان جیسے چھوٹے اور بے وسیلہ ملک کے لئے اس کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے چیلنج کرنے، غلطیوں کی نشاندہی اور ماضی کو کھنگالنے کی بجائے، میانہ روی اختیار کرنے اور مؤثر سفارتی کوششوں سے حالات سازگار بنانے کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کاکوئی ذی ہوش لیڈر امریکہ جیسی بڑی طاقت کے ساتھ تعلقات کے بارے میں پر جوش تقریریں کرنے کی بجائے درپردہ سفارتی کوششوں اور ماہرانہ مواصلت سے اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ ماضی کے لیڈروں پر ذاتی مالی منفعت کے لئے قومی مفادات کا سودا کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عمران خان کو یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اس طرز گفتگو سے درحقیقت پاک امریکہ تعلقات میں نئی دراڑیں ڈالنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ رویہ موجودہ حالات میں ان فیصلوں سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوسکتا ہے جن کا حوالہ دے کر عمران خان خود کو سرخرو اور اپنے ’نامعلوم ‘ دشمنوں کو زیر کرنا چاہتے ہیں۔
سلامتی، معاشی اور سفارتی تعلقات پر عمران خان کے خیالات کے منفی اثرات کے علاوہ قومی سیاسی منظر نامہ میں اس پر جوش تقریر کی وجوہات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے افغانستان کی د و جنگوں میں پاکستان کی شمولیت کو قومی مفاد کی بجائے ڈالر لینے کا طریقہ قرار دیا ہے۔ ان دونوں جنگوں میں شریک ہونے کا فیصلہ بالترتیب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی فوجی حکومتوں کے ادوار میں ہؤا تھا۔ وزارت خارجہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اس معاملہ میں پورے یقین سے یوں بھی بات کرسکتے ہیں کیوں کہ وہ 2001 میں نائن الیون کے بعد امریکی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کرنے والوں یعنی اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف کے قریب تھے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عمران خان نے اندرون خانہ ہونے والی اس گفت و شنید میں پرویز مشرف کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل نہ ہونے کا مشورہ دیا تھا تو بھی انہیں اب عوام کو ان دو سوالوں کا جواب دینا ہوگا:
1)وہ کس حیثیت میں غیر آئینی طور سے ملکی حکومت پر قابض فوجی قیادت کے ساتھ رابطے میں تھے اور اس سے وہ کون سا سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اور کیا وہ اسی وقت سے فوجی قیادت کو اس بات پر آمادہ کررہے تھے کہ کسی طرح اقتدار ان کے حوالے کیا جائے تاکہ ملکی سیاست میں دو مقبول جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ حقیقت تاریخ کا حصہ ہے کہ پرویز مشرف کسی بھی قیمت پر نواز شریف کے علاوہ بے نظیر بھٹو کو پاکستانی سیاست سے بے دخل کرنے کے خواہاں تھے۔ کیا عمران خان خود کو اسی وقت سے فوجی قیادت کے سامنے متبادل کے طور پر پیش کررہے تھے؟
2)آج اپنے بیان سے عمران خان نے اپوزیشن کے اس الزام کی تصدیق کی ہےکہ وہ 2018 میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر وزیر اعظم نہیں بنے بلکہ ملکی اسٹبلشمنٹ نے انہیں ’نامزد‘ کرکے ملک کے اقتدار پر فائز کیا تھا اور وہ درحقیقت ایک دھاندلی شدہ نظام اور انتخاب کی پیداوار ہیں۔ اگر وہ یہ تسلیم کررہے ہیں تو سچ بولنے اور دیانت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود وہ اپنی اس غلطی اور سیاسی کوتاہی کا اعتراف کرنے میں کیوں شرمندگی محسوس کررہے ہیں؟
کرپشن کے خلاف جنگ اور قانون کی بالادستی عمران خان کا تکیہ کلام بن چکا ہے۔ وہ شریف و زرداری خاندان کی کرپشن سے خاص طور سے نالاں رہتے ہیں ۔ آج کے انکشاف کے بعد کہ پرویز مشرف کی حکومت نے ڈالروں کے عوض قومی مفاد کے برعکس فیصلے کئے تھے، وزیر اعظم کو اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ ماضی کی فوجی حکومتوں نے کیوں ڈالر لے کر ملکی و عوامی مفاد کا سودا کیا؟ اور کیا ایسی سودے بازی کرنے والا شخص یا قیادت بدعنوان اور قانون شکن نہیں کہلائے گی ۔ عمران خان کی حکومت نے پرویز مشرف کو ایک خصوصی عدالت کے فیصلہ سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ کیا اس طرح وہ خود اس ’قومی غداری اور بدعنوانی‘ کا حصہ نہیں بنے؟ اس کے باوجود وہ کس منہ سے خود کو قوم کا مسیحا قرار دیتے ہوئے سر اٹھا کر بات کرسکتے ہیں؟
وزیر اعظم نے خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخاب میں تحریک انصاف کی عبرت ناک شکست کے بعد وزارت خارجہ کے افسروں سے خطاب کیا ہے۔ عمران خان سمیت تحریک انصاف کا کوئی لیڈر ابھی تک اس سیاسی ہزیمت کی حقیقی وجوہ کا اندازہ کرنے میں کامیاب نہیں ہے۔ کیا وزیر اعظم نے آج کی تقریر میں اپنے سرپرستوں کی بے اعتنائی کا گلہ کرتے ہوئے یہ انتباہ دینے کی کوشش کی ہے کہ اگر ان کے سر سے ہاتھ اٹھایا گیا تو وہ بھی رازوں سے پردہ اٹھائیں گے؟ کیا ملکی سیاست میں یہ ایک نئے مہا یدھ کا پیغام ہے؟ کیا یہ بدحواسی اقتدار پر عمران خان کی ڈھیلی ہوتی گرفت کا اشارہ ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments