علما کی دوغلی پالیسی


سیالکوٹ سانحے کے چند دن بعد بھاری بھر کم علما کا ایک وفد جس میں مفتی تقی عثمانی، حنیف جالندھری اور طاہر اشرفی شامل تھے، سری لنکن ہائی کمشن میں تعزیت کرنے پہنچا۔ انہیں بتایا کہ اسلام میں تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں۔ دس دسمبر کو یوم مذمت منانے کا اعلان ہوا جس میں جمعے کے خطبے کے دوران (شاید پہلی دفعہ) اقلیتوں کے حقوق اور امن کی باتیں کرنے کا اعلان ہوا۔ بعض علما اس واقعہ پر شرمندگی کا اظہار کرتے رہے۔ آج مورخہ 22 دسمبر کومولانا طارق جمیل بھی سری لنکن ہائی کمشن پہنچے اور ان کو باور کراتے رہے کہ “ہمارا دین تو امن کا دین ہے وہ اس طرح کی باتوں کی اجازت نہیں دیتا” مولانا نے وہاں سری لنکن قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگی۔

ان علما سے یہ سوال ہے کہ پریانتھا کمارا اگر سری لنکن کی بجائے پاکستان میں بسنے والی کسی بھی اقلیت کا رکن ہوتا، وہ اگر تھر کا کوئی ہندو ہوتا، پشاور کا کوئی سکھ ہوتا، ربوہ کا کوئی احمدی ہوتا، سیالکوٹ کا کوئی مسیحی ہوتا یا بلوچستان کو کوئی ہزارہ ہوتا تو بھی ان علما کا یہی ردعمل ہوتا؟

کیا امن کے یہ داعی بھٹوں میں جلائے جانے، عدالتوں کے اندر قتل کئے جانے، کئی کئی سال ذاتی عناد کے ہاتھوں جیلوں میں گذار دینے اور پورے پورے گروپ کی صورت میں گولیوں سے چھلنی کر دیئے جانے والوں کے گھروں میں بھی پہنچے۔ انہیں بھی “ ہمارا دین امن کا دین ہے “ کا پیغام دیا۔ ان کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھا یا ان کے گھر والوں سے کسی نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی؟

پھر یہ کیوں نہ فرض کرلیا جائےکہ نہ تو آپ کو امن کے دین سے کوئی دلچسپی ہے، نہ آپ کی تعزیت دل سے ہے، نہ آپ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کے تدارک کے لئے سنجیدہ ہیں نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی شرمندگی ہےاور نہ ہی آپ کی معافیوں کی کوئی اہمیت۔

دوسری طرف حکومت پاکستان نے بھی پریانتھا کمارا کے خاندان کو انصاف فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کی یقین دہانی بھی کی۔ وزیراعظم کے مشیر خاص طاہر اشرفی صاحب نے چیف جسٹس سے اس واقعہ کے “سپیڈی ٹرائل” کا مطالبہ بھی کیا۔

اردگرد کے چند ممالک میں آپ کے تعلقات لے دے کے چین اور سری لنکا سےرہ گئے ہیں۔ شاید سری لنکا سے کسی دفاعی سودے کی بھی توقع ہے، سیالکوٹ بھی ان دو ایک صنعتی شہروں میں شامل ہے جو کچھ نہ کچھ مال برآمد کر رہے ہیں اور زرمبادلہ کما رہے اور تجارتی خسارے کو کسی حد تک کم کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔ دوسرے لفظوں میں چھوٹا سا ہی سہی لیکن سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے۔

پھریہ کیوں نہ یقین کر لیا جائے کہ نہ آپ کو امن کے دین سے غرض ہے، نہ مظلوم سے ہمدردی۔ نہ آپ کو انصاف کی فراہمی سے دلچسپی ہے، نہ آپ ایک انسان کے ناحق خون کاافسوس کرنے گئے اور نہ ہی ایک بے گناہ کے لواحقین سے ہاتھ جوڑنے۔ بلکہ یہ تمام تر ردعمل آپ کا اپنا ہے ہی نہیں۔ آپ اوروں کے کہنے پر معیشت بچانے، ملک کی رہی سہی ساکھ بچانے اور عالمی سطح پر مزید پابندیوں سے بچنے کے لئے دوڑائے گئے ہیں۔

اگر واقعتاً ایسا نہیں ہے تو مشال خان کی ٹوٹی انگلیاں، شمع اور شہزاد کی جلی لاشیں، ڈاکٹر عبدالقادر کا شگاف سینہ، حکیم ستنام سنگھ کا خون سے رستہ جسم اور ایسے بیسیوں اور لوگوں کی روحیں بھی آپ کی راہ تک رہی ہیں کہ آپ ان کے لواحقین کو بھی جا کر تسلی دیں گے، ہاتھ جوڑیں گے اور بتائیں گے کہ ہمارا دین امن کا دین ہے۔ ہم شرمندہ ہیں، مذہب کے نام پر خون کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے، آپ کے کیس کےسپیڈی ٹرائل ہوں گے۔

یا پھر ہم بادل ناخواستہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ آپ کی مذمتیں جعلی ہیں، آپ کی تعلیم نقلی ہے، آپ کا ردعمل سطحی ہے اور پالیسی باہر والوں کے لئے ایک اور گھر والوں کے لئے دوسری ہے، ایسی پالیسی جسے دوغلی پالیسی کہا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments