اب بیڈسین کو دیکھنے کے درمیان سنسر شپ کاپردہ حائل نہیں ہوگا


سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا جدید ثقافتی دنگل زوروں پر ہے اور دونوں ہنگامی بنیادوں پر ایسے ایسے انقلابی اقدام کر رہے ہیں جن کے کرنے کی ان سے اتنی جلدی توقع نہیں تھی۔ یو اے ای تو خیر بہت پہلے ہی اس راستے پر چل پڑا تھا مگر سعودی عرب، ایران اور افغانستان جیسے ممالک کو ایک طرح سے ”جیل ممالک“ تصور کیا جاتا ہے اور اب سعودی عرب نے اس روایتی جیل سے آزادی کا فیصلہ کر لیا ہے اور باقی دو ممالک بھی عنقریب انہی راستوں کے راہی بنتے نظر آئیں گے کیونکہ جان ہے تو جہان ہے، جب پیٹ میں روٹی نہیں ہو گی تو کہاں کے اخلاقی بھاشن اور تہذیب پر اترانا؟

کیونکہ کھوکھلے دعووں کی کلغی میں معاشی کمزوری کی وجہ سے وقت کے ساتھ ساتھ تناؤ ختم ہو جاتا ہے۔ اس ثقافتی یلغار میں اول پوزیشن پر رہنے کی غرض سے متحدہ عرب امارات نے سنسر شپ ہٹا دی ہے اور سنسر بورڈ کو فرمان جاری کیا ہے کہ ہر قسم کی فلم ”ایز اٹ از“ اور بغیر خراش تراش کے عوام کی خدمت میں پیش کردی جائے۔ جو انہوں نے ایک لمبے عرصے سے اپنی تہذیب کے گرد ایک روایتی حفاظتی حصار قائم کر رکھا تھا تاکہ دوسری تہذیبیں عربی تہذیب کی شناخت کو مسخ نہ کریں وہ روایتی حصار اب انہوں نے توڑ دیا ہے اور عربی تہذیب مشرف با مغربی تہذیب ہو چکی ہے۔

اب حال ہی میں سعودی عرب میں ایک میوزیکل فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا جو کچھ دنوں تک چلتا رہا جس میں ایک اطلاع کے مطابق تقریباً آٹھ لاکھ لوگوں نے شرکت کی، اتنے بڑے پیمانے پر لوگوں کا باہر آ کر لطف اندوز ہونے کے یہ مناظر ایک بات تو بالکل واضح کر دیتے ہیں کہ لوگوں کی آج کے دور میں ترجیحات کیا ہیں۔ جنہیں صدیوں ”روحانی حصار“ میں قید رکھا گیا اور جب انہیں آزادی نصیب ہوئی تو انہوں نے تمام گناہ و ثواب کے پیمانوں کو ایک طرف کر کے اپنی ذاتی زندگی جینے کا فیصلہ کیا۔

یہ وہ انفرادی حق ہے جو “کفار” بہت عرصہ پہلے اپنی عوام کو دے چکے ہیں اور آج عرب ریاستوں نے بھی اس حق کی اہمیت کو جان لیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ وہ قومیں ہیں جو صدیوں سے اپنے اقدار میں جکڑی ہوئی تھیں اور اپنی تہذیب کو دوسری تہذیبوں کے مقابلے میں سب سے نمایاں اور اہم سمجھتے تھے مگر آج ان کو ”مائٹ از رائٹ“ کا فلسفہ سمجھ آ گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی یہ معاشرے پہلے بند تھے اور فحاشی و عریانی یا جنسی تفریحات کی شرح زیرو تھی؟

ایسے معاشرے جن کا ظاہری خول یا ساخت بہت زیادہ سخت یا جبری ہوتا ہے وہ اندر سے کھوکھلے اور وہاں ان ڈور سرگرمیوں کا چلن زوروں پر ہوتا ہے اور ایسے معاشروں میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ہر کوئی ان مخفی جنسی سرگرمیوں سے فیض یاب ہوتا رہتا ہے کیو نکہ ”جنسی زور“ کسی روحانی ضابطوں کو نہیں مانتا اور اس بات کا ثبوت یہ لاکھوں لوگ ہیں جو میوزیکل کنسرٹ انجوائے کر رہے ہیں۔ جہاں پر تفریحات کے اتنے مواقع عوام کو دیے جا رہے ہیں وہیں سعودی حکام نے دینی اور روحانی لوگوں کو بھی اس فیض سے محروم نہیں رہنے دیا اب یہ لوگ گھر بیٹھے ”حجر اسود“ کا ورچوئل نظارہ اور اسے چھو سکیں گے اور شاید عنقریب ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حج اور عمرہ بھی ورچوئل ہونے لگیں۔

جب اتنا کچھ اتنی تیزی سے ہو رہا ہے تو ایسا حج و عمرہ بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے صرف ایک فرمان ہی تو جاری کرنا ہے۔ اب ایک طرف اسلامی دنیا میں اتنی بڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جبکہ دوسری طرف ملک عزیز پاکستان میں ہمارے مومنین نے ”میگنی فائر“ عدسہ کی مدد سے مولانا الیاس قادری کی گال پر لفظ ”اللہ“ ڈھونڈ نکالا ہے اور آج کل اس کے چرچے بہت زوروں پر ہیں۔ دوسری طرف ”کے پی کے“ کے بلدیاتی انتخابات میں مولانا فضل الرحمن کا ڈنکا پھر سے بجنے لگا ہے۔

پہلے ملک پر کلین شیو مولویوں کا راج ہے اور اب باریش مولوی بھی اس سسٹم کو مضبوط بنانے کے لیے میدان میں آ چکے ہیں۔ ہمارے شعور کی سطح آج بھی عظمت رفتہ کی پہیلیوں میں کھوئی ہوئی ہے اور ہم انہی راستوں پر چل کر اپنی منزل تلاشنے کے خواہش مند ہیں جن پر صدیوں سے کئی نسلیں چلتی آ رہی ہیں مگر سوائے نفرت، تفریق اور قتل و غارت کے علاوہ اب تک کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ہمیں شعور کی اس بالغ صدی میں ابھی تک اس بات کا ادراک نہیں ہوا کہ جو کوکھ بانجھ ہو جاتی ہے وہ بچے نہیں جنتی، جو زمین بانجھ ہو جاتی ہے وہاں سبزہ نہیں اگتا اور جو راستے پامال ہو جاتے ہیں ان راستوں سے کوئی نئی سوچ اور فکر جنم نہیں لیتی۔

آج ہمارے روحانی مراکز نے ان تمام دکانداریوں کو بند کر کے گناہ و ثواب سے بالاتر ہو کر اپنے بند معاشروں کو جدید تقاضوں کے مطابق کھول دیا ہے اور جبری روایتوں کے نام پر سنسر شپ کے تمام پردے ہٹا دیے ہیں تاکہ ہر کوئی اپنی زندگی اپنے مطابق جی سکے اور وہ ایسے اقدامات کر کے دنیا کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ اب متحدہ عرب امارات نے شادی کے بغیر بھی عورت مرد کو کمرہ شیئر کرنے کی اجازت دے دی ہے اور آگے آگے دیکھتے جائیں ابھی تو شروعات ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments