چوہدری نثار علی خان کا سیاسی مستقبل


سیاسی حلقوں کا پسندیدہ موضوع گفتگو ”نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل“ ہے۔ ہی لیکن ہر سیاسی بیٹھک میں چوہدری نثار علی خان کے ”سیاسی مستقبل“ بارے جس فکر مندی کا اظہار کیا جاتا ہے شاید خود چوہدری نثار علی خان کو اس کی اتنی فکر نہ ہو۔ چوہدری نثار علی خان نے پچھلے ساڑھے تین سال سے ”چپ“ کا طویل روزہ رکھا ہوا وہ عصر کے وقت روزہ توڑنا نہیں چاہتے غروب آفتاب کا انتظار کر رہے ہیں لیکن غروب آفتاب ہو نہیں رہا اس کے انتظار میں انہوں نے ساڑھے تین سال کا ”چلہ“ کاٹ لیا ہے جوں ہی غروب آفتاب ہوا چوہدری نثار علی خان اپنے آئندہ سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کر دیں گے۔ چوہدری نثار علی خان 25 جولائی 2018 ء کے انتخابات میں ”مسلط کردہ“ شکست سے دلبرداشتہ ہو کر ”گوشہ نشین“ ہو گئے تھے پھر رہی سہی کسر کووڈ 19 نے نکال دی۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو کر رہ گئیں البتہ انہوں نے اپنے قریبی اور با اثر حلقہ احباب کی ”خوشی غمی“ ترک نہیں کی لیکن جب سے کووڈ 19۔ کے بارے میں صورت حال بہتر ہوئی ہے۔ انہوں نے کسی حد تک چکری میں اپنا ”ڈیرہ“ آباد کر دیا ہے۔ وہاں اپنے حلقہ کے محدود تعداد میں معززین اور با اثر شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ملاقاتیوں کچھ بھی معلوم نہیں کہ ان کے قائد چوہدری نثار علی خان نے آئندہ انتخابات میں بھی آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنا ہے جس پھر کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو کر اپنا سیاسی مستقبل محفوظ بنانا ہے۔

سر دست ان کی مسلم لیگ (ن) میں باعزت واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر ”سیاسی بونوں“ نے ان کی واپسی کی راہ میں ”کانٹے اور سرنگیں“ بچھا رکھی ہیں۔ انہوں نے نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان بنائی گئی دیوار گرانے کی بجائے اسے مزید بلند کر دیا ہے۔ جہاں سے نواز شریف تک کوئی آواز پہنچتی ہے اور نہ ہی چوہدری نثار علی خان نے کسی اچھے ”پیغام“ کے لئے دیوار سے کان لگا رکھے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان نے ملاقاتیوں کو اچھے دنوں کی آمد کا انتظار کرنے کا کہہ کر اپنے ساتھ وابستہ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر مریم نواز کے گرد گھیرا ڈالے گروہ جو اس وقت اس حد ”طاقت ور“ بن گیا ہے کہ مریم نواز ان کی مشاورت کے بغیر کوئی سیاسی بیان جاری نہیں کرتیں۔

میاں شہباز شریف جو اس وقت بظاہر مسلم لیگ (ن) کے صدر ہیں لیکن انہوں نے پچھلے دنوں لاہور کے دو سینئر اخبار نویسوں سے ملاقات میں اپنی بے بسی کا رونا رویا تھا اور کہا تھا۔ ان دو مسلم لیگیوں (جن کا نام دیرینہ دوستی کی وجہ سے نہیں لکھ رہا ) کی نشاندہی کی ہے جن کی وجہ سے آج مسلم لیگ (ن) اس مقام پر پہنچی ہے۔ ظاہر ہے۔ یہی دونوں شخصیات نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان دیواریں بلند کرنے کا باعث ہیں۔

25 جولائی 2018 ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف نے چوہدری نثار علی خان کو پارٹی ٹکٹ نہ دے کر ”جیپ“ پر سوار ہونے پر مجبور کر دیا جب کہ وہ ایسا انتخابی نشان لینا چاہتے تھے جو عام فہم ہو انہوں نے جیپ کے نشان پر انتخاب لڑ سیاسی غلطی کی کیونکہ ”جیپ“ کے نشان یہ تاثر ملا کہ ان کو ”جیپ“ والوں کی آشیرباد حاصل ہے جب کہ انہیں تو جیپ والوں سے شکایات ہی شکایات تھیں این اے 63 واہ ٹیکسلا سے ان کے مقابلے میں ان کی ”سیاسی دریافت“ جب کہ این اے 59 سے انجینئر قمر الاسلام کو ان کے سامنے کھڑا کر دیا گیا جو ان ہی کی کوششوں سے مسلم لیگ (ن) میں آئے تھے۔

وہ بے چارے ایک ایسی شخصیت کو کیا شکست دیتے جس کا ٹیکسلا، واہ اور وادی سواں میں 35 سالہ خدمات کا ریکارڈ ہے۔ انجینئر قمر السلام صوبائی نشست سے طبع آزمائی کرنا چاہتے تھے لیکن پارٹی نے ان کو ایک پہاڑ جیسی قد آور شخصیت کے سامنے لا کھڑا کیا نتیجتاً چوہدری نثار علی خان انتخاب ہار گئے ان کی ہار پر میاں نواز شریف کے سینے میں ٹھنڈ تو پڑ گئی لیکن ان دونوں نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کے دونوں امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں مسلم لیگ (ن) اپنی دو نشستوں سے (اگر چوہدری نثار علی خان کو ٹکٹ دیے جاتے ) محروم نہ ہوتی بہر سیاسی کھیل ہی بے رحم لوگوں کا ہے جس میں بھائی بھائی کا سر لے لیتا ہے جب میں مسلم لیگ (ن) کے ارد گرد تعمیر کردہ دیواروں کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے چوہدری نثار علی خان کی مسلم لیگ (ن) میں واپسی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

پی ٹی آئی میں جانے کے لئے بھی وہ تیار نظر نہیں آتے۔ انہوں نے اس وقت پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار نہیں کی جب میاں نواز شریف نے انہیں پارٹی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا عمران خان نہ صرف پی ٹی آئی کا ٹکٹ دینے کے لئے چوہدری نثار علی خان کے پاس پہنچ گئے بلکہ ان سے کہا کہ وہ پارٹی میں سب سے زیادہ با اختیار ہوں گے۔ وہ پارٹی کے تمام ٹکٹ جاری کریں گے۔ ان کو پی ٹی آئی میں مسلم لیگ (ن) سے زیادہ اہمیت حاصل ہو گی لیکن آئی ایس آئی کے سابق افسر اور افغان امور کے ماہر میجر (ر) کی رہائش گاہ واقع اسلام آباد میں عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں چوہدری نثار علی خان نے انہیں ٹکا سا جواب دے دیا اور کہا کہ ”جس شخص کا میں 34 سال تک دست و بازو رہا وہ میرا نہ بن پایا آپ کے ساتھ تو میں ایک دن بھی نہ چل پاؤں گا“ جس پر عمران خان نے کہا کہ ”نواز شریف تو کرپٹ سیاست دان ہے۔ میرا دامن صاف ہے۔ آپ کو میرے ساتھ چلنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہو گی“ لیکن چوہدری نثار علی خان نے عمران خان سے کہا کہ ”غیب کا علم تو اللہ تعالی ہی جانا ہے۔ میں نواز شریف سے اتنی نفرت کرتا ہوں جتنی وہ مجھ سے کرتے ہیں لیکن میں نواز شریف کو کرپٹ نہیں سمجھتا میں ان کے قریب رہا ہوں اگر مجھے ذرا سی کرپشن نظر آتی تو میں ان کے ساتھ نہ رہتا“

عمران خان اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات ناکام ہو گئی لیکن ساڑھے تین سال گزرنے کے باوجود عمران خان نے ایچی سن کالج لاہور میں اپنے ”روم میٹ“ کو پی ٹی آئی میں لانے کی کوششیں ترک نہیں کیں۔

چوہدری نثار علی خان نے راقم السطور کو یہ بات بتائی کہ میں نے پی ٹی آئی میں لے جانے کے خواہش مند دوستوں کو یہ کہا ہے کہ ”میں پی ٹی آئی کے سٹیج پر کیسا لگوں گا۔ جہاں میری موجودگی میں شریف خاندان کو گالیاں دی جا رہی ہوں اس لئے میں پی ٹی آئی کا حصہ نہیں بنا جن لوگوں کے ساتھ 34، 35 سال گزارے ہوں ان کو گالیاں دے سکتا ہوں اور نہ ہی اپنی موجودگی میں ان کے بارے میں لعن طعن سن سکتا ہوں“ لیکن مسلم لیگ کی اعلی ٰقیادت کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کے باوجود چوہدری نثار علی خان کے لئے مسلم لیگ (ن) میں کوئی جگہ نہیں

دوسری طرف پی ٹی آئی کی حالت بڑی پتلی ہو گئی ہے۔ ساڑھے تین سال کی ناقص کارکردگی نے اس کا بھرکس نکال دیا ہے۔ ایک ایسی جماعت جس کا ہر آنے والے دن مقبولیت کا گراف گر رہا ہو میں شمولیت ”سیاسی خود کشی“ سے کم نہیں چوہدری نثار علی خان سے 4 دہائیوں سے یاد اللہ ہے۔ ان کی شخصیت کے بارے میں جتنا میں نے لکھا ہے۔ شاید کسی اور نے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر قلم اٹھایا ان کے بارے میں کچھ لکھنے سے اس لئے بھی گریز کرتا ہوں کہ باہمی عزت و احترام اور دوستی کا رشتہ آڑے آ جاتا ہے۔

ممکن ہے۔ میں ان کی شخصیت بارے میں انصاف نہ کر سکوں یا اگر میں کی کسی اچھائی کا ذکر کروں تو احباب اسے خوشامد کے ترازو میں تولتے پھریں اگر میں ان کی کسی کمزوری یا خامی کی نشاندہی کروں تو شاید کچھ لوگ یہ سمجھنے لگیں کہ اب وہ اقتدار کے منصب پر فائز نہیں لہذا مجھے بھی ان پر قلم زدنی کی سوجھی ہے۔ میں آج یہ بات دھڑلے سے کہہ سکتا ہوں کہ بڑے بڑے مسلم لیگی لیڈروں کی چوہدری نثار علی خان کے منہ پر ان کی کی کسی بات سے اختلاف کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔ میں ان سے کئی بار مختلف ایشوز پر کھل کر بے لاگ تبصرہ کرتا رہا ہوں تو انہوں نے کئی بار میری بے باکی پر ”ناراضی“ کا اظہار کیا ہے لیکن میرا خلوص ان کو میری تنقید برداشت کا حوصلہ دے دیتا رہا۔

چوہدری نثار علی خان جنرل (ر) پرویز مشرف کی ”قید“ سے رہا ہو کر آئے تو وہ میاں نواز شریف جو اس وقت سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے، سے شدید نالاں تھے۔ انہیں اس بات کا گلہ تھا کہ شریف خاندان جو خود جنرل (ر) پرویز مشرف کے زیر عتاب تھا، کے کسی فرد نے ان کی گھر پر ”نظر بندی“ کے دوران خیریت تک دریافت نہیں کی دوسرا یہ کہ ان کے بارے میں تسلسل سے یہ پراپیگنڈا کیا گیا تو وہ دن کے اجالے میں فیض آباد میں اپنی رہائش گاہ پر مزے کرتے ہیں اور رات کے اندھیرے میں گھر سے باہر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔

ان کے کچھ ”مہربانوں“ نے مرحومہ بیگم کلثوم نواز کو یہاں تک باور کروا دیا کہ انہوں نے خود چوہدری نثار علی خان کو موٹر وے پر چکری جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس زہریلے پراپیگنڈا نے ان کے دل میں نواز شریف سے محبت میں کمی کر دی وہ رہائی کے بعد اپنے میڈیکل چیک اپ کے لئے لندن جا رہے تھے تو انہوں نے میرے اعزاز میں پرل کانٹی نینٹل راولپنڈی میں رات کا کھانا دیا یہ اعزاز کی بات اس لئے بھی تھی کہ چوہدری نثار علی خان ہر کسی کھانے یا اپنی رہائش گاہ پر مدعو نہیں کرتے وہ ہر کسی کے کھانے کی دعوت بھی قبول نہیں کرتے

وہ میاں نواز شریف سے اپنا تعلق ختم کرنا چاہتے تھے تو یہ میں ہی تھا جس نے ان سے کہا کہ آج میاں نواز شریف کو چھوڑ دیں گے تو کوئی مسلم لیگی آپ کے فیصلے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے گا۔ لوگ سوال کریں گے کہ آپ نے نواز شریف کے ساتھ 17 سال اقتدار انجوائے کیا آج وہ مشکل میں ہیں تو ان کو چھوڑ دیا ہے خواہ آپ کا موقف کتنا ہی درست کیوں نہ لوگ اسے مسترد کر دیں گے۔ چوہدری صاحب ایک زیرک سیاست دان ہیں۔ انہوں ”سیاسی خود کشی“ کرنے کی بجائے جدہ کے سرور پیلس میں جا کر میاں نواز شریف سے برابری کی سطح پر صلح کر لی۔

غالباً 2014 ء کی دسمبر کی سرد رات تھی۔ ”پرائیویٹ نمبر“ سے کال آئی تو دوسری طرف اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق تھے۔ انہوں نے رات گئے چائے پینے کی دعوت دی تو میں نے دفتر کا کام ختم نہ ہونے کی وجہ سے معذرت کر لی لیکن جب سردار ایاز صادق نے کہا کہ ”اگر آپ کے انتہائی عزیز دوست بھی موجود ہو تو پھر بھی نہیں آئیں گے لیکن میں سمجھ گیا وہ دوست کون ہے۔ میں 10 منٹ بعد منسٹرز کالونی میں سپیکر ہاؤس پہنچ گیا تو وہاں چوہدری نثار علی خان اور رانا تنویر حسین بیٹھے تھے۔

دونوں چوہدری نثار علی خان کو وزارت سے مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دے رہے تھے۔ اب میں تیسرا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا جس نے ان کو یہی مشورہ دیا کہ وہ اس مرحلے پر نواز شریف کو چھوڑنے کا فیصلہ کر کے پارٹی میں اپنے سیاسی مخالفین کو مضبوط نہ بنائیں گے جب چوہدری نثار علی خان سپیکر ہاؤس سے باہر آئے تو وہ اپنی گاڑی خود ڈرائیو کر کے جانے لگے تو تھوڑی دور اپنی گاڑی روک لی انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ ”وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔“

اگرچہ بعد میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو ایک بار استعفاٰ دے دیا تھا۔ تاہم بعد ازاں دوستوں کی مداخلت سے اپنے استعفے پر اصرار نہیں کیا اسی طرح نواز شریف کی حکومت کے آخری سال چوہدری نثار علی خان میاں نواز شریف کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو کر ان سے الگ ہونا چاہتے تھے۔ سینئر صحافی حافظ طاہر خلیل، عامر الیاس رانا، طارق عزیز، برادر اصغر طارق محمود سمیر اور میری موجودگی میں پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں چوہدری نثار علی خان سے ان کے دل کے دکھڑے سن رہے تھے کہ اچانک چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) سے علیحدٰگی کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے انہیں کھرا جواب دے دیا اور کہا کہ ”میاں نواز شریف کے بغیر آپ کچھ نہیں رہیں گے۔“

اس جواب پر انہوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا انہیں توقع نہیں تھی کہ میں ان کے منہ پر اس طرح کا جواب دے دوں گا کیونکہ وہ ایسی کوئی بات کسی دوست سے نہیں سننا چاہتے تھے۔ ہماری ملاقات تلخی کے ماحول میں ختم ہو گئی لیکن دو روز بعد چوہدری نثار علی خان نے مجھے تنہا ملاقات کے لئے بلا لیا ون آن ون ہونے والی ملاقات میں اندازہ ہو گیا چوہدری نثار علی خان کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ میں نے ان سے جو بات کہی ہے وہ ان کے فائدہ میں تھی۔

میاں نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر اقتدار سے الگ کر دیا گیا چوہدری نثار علی خان مریم نواز کو ان کا سیاسی جانشین مریم نواز کی راہ میں حائل ہوئے تو ان کے لئے جاتی امرا ”اجنبی“ بن گیا چوہدری نثار علی خان کے سیاسی ”مستقبل“ کے بارے میں آئے روز بلاگر اور اینکر پرسن افواہوں کو بنیاد بنا کر ”طبع آزمائی“ کرتے رہتے ہیں لیکن کوئی بھی شخص چوہدری نثار علی خان کے سیاسی مستقبل بارے حتمی رائے نہیں دے سکتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments