دبے پاؤں آتی میل کاٹ تبدیلی کا قصہ


wusat ullah khan وسعت اللہ خان

معلوم نہیں کہ درست لگ رہا ہے یا غلط۔ پر لگ رہا ہے کہ لاہور سے فیض آباد چوک تک حالیہ برسوں کے دوران ڈنڈہ بردار ذہنیت کے تیز تر فروغ کے نتیجے میں کلچرل ایکٹو ازم شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔

اور یہ تازہ ثقافتی چلن افیون ازم کے شکار ریاستی لال بھجکڑوں پر تکیہ کرنے اور خود سے کچھ نہ کرنے کی علت سے چھٹکارا پانے کی راہ بھی دکھا رہا ہے۔

اس تبدیلی کی بنیاد سخت جانی ہے۔ کراچی 30 برس تک ریاستی بے اعتنائی کی سیخ پر بار بی کیو ہونے کے باوجود مرنے سے انکاری رہا اور حیدرآباد نے لسانی و نسلی زنجیروں میں بندھنے کے رجحان کی بھرپور مزاحمت کی۔ جبکہ زندہ دلی کا استعارہ لاہور نڈھال ہے یا نڈھال کیا جا رہا ہے۔

دو ہزار آٹھ میں کراچی آرٹس کونسل نے بین الاقوامی اردو کانفرنس کی سالانہ روایت ڈالی۔ منتظم احمد شاہ اور ان کی ٹیم نے یقینی بنایا کہ یہ کانفرنس اپنے تئیں ادارے کے اندر ادارہ بن جائے۔ لہذا بلا وقفے یا حیلے بہانے یہ کانفرنس 14 برس سے ہو رہی ہے۔ حتیٰ کہ کووڈ بھی نہ روک پایا۔

رفتہ رفتہ یہ کانفرنس اردو کے ساتھ ساتھ پاکستانی کی دیگر زبانوں کی سیاسی و سماجی حصے داری کی نمائش کا منڈب بھی بنتی چلی گئی۔

حکومتیں لاکھ خراب سہی، ان کی کارکردگی مایوس کن سہی مگر وہ بھی کسی انفرادی یا غیر سرکاری پروجیکٹ کو کامیاب ہوتا دیکھتی ہیں تو اس کی روشنی میں نہانا چاہتی ہیں۔

حکومتِ سندھ نے اس بنیاد پر آرٹس کونسل کی خود مختاری کی حوصلہ افزائی کی بلکہ گرانٹ بھی کئی گنا بڑھا دی۔ دیکھا دیکھی اب وفاقی حکومت بھی اردو کانفرنس کے ماڈل کو اپنانا چاہ رہی ہے۔

دو ہزار دس میں امینہ سید اور آصف فرخی (مرحوم) کی ہم خیال ٹیم کی کوششوں سے اشاعتی ادارے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے تحت برٹش کونسل کے تعاون سے پہلا کراچی لٹریری فیسٹیول ( کے ایل ایف ) منعقد ہوا۔

یہ وہ گیم چینجر تھا جس نے بین الاقوامی اور مقامی ادب کو جوڑنے میں نہ صرف پل کا کام کیا بلکہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اسی طرز کے میلے منعقد کرنے کی چنگاری بھڑکا دی۔

دو ہزار چودہ سے یہ فیسٹیول اسلام آباد میں بھی باقاعدگی سے ہو رہا ہے اور دو ایک بار لندن اور نیویارک میں بھی ہو چکا ہے۔

دیکھا دیکھی 2012 میں رضی احمد نے لاہور لٹریری فیسٹیول شروع کیا۔ 2014 میں فیصل آباد آرٹس کونسل کے احاطے میں لٹریری فیسٹیول کی روایت پڑی جو آٹھ برس سے بلا وقفہ جاری ہے۔ اس کی ذمہ داری فیصل آباد کی ٹیکسٹائل اشرافیہ کی چند ادب نواز بیگمات نے لائل پور لٹریری کونسل کے پلیٹ فارم سے اٹھائی اور انھیں یہ راہ دکھانے میں معروف لیکھک اصغر ندیم سید کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔

دو ہزار اٹھارہ سے سرگودھا یونیورسٹی سالانہ لٹریچر فیسٹیول کی میزبانی کر رہی ہے اور دو ہزار اٹھارہ سے علی نقوی اور اختر سید کی ٹیم ملتان لٹریچر فیسٹیول کی آبیاری کر رہی ہے۔

گوادر میں مقامی نوجوان اور تنظیمیں جیب سے پیسے لگا کر گوادر بک فیسٹیول کا 2018 سے انعقاد کر رہے ہیں۔ مکران کے نوجوانوں میں یہ علت پائی گئی ہے کہ چپل بھلے کتنی پرانی ہو مگر کتاب نئی خریدنی چاہیے۔

جبکہ کوئٹہ کی آئی ٹی و انجینیرنگ یونیورسٹی (بیوٹم) بھی چند برس سے کتاب، قاری، سامع اور ثقافت کا رشتہ بحال کرنے کا فیسٹیول کر رہی ہے۔

اسی کام میں گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے کئی سرپھرے بھی جٹے ہوئے ہیں۔

کراچی میں 2016 سے جاری سندھ لٹریچر فیسٹیول اور حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول میں اردو بھی ہے اور سندھی تو خیر ہے ہی۔ کبھی کبھی منتظمین میں اختلافات گروہ بندی کی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں مگر یہ ادبی و انتظامی گروہ بندی قبائلی و سیاسی و مذہبی گروہ سے بہرحال ہزار درجے بہتر ہے۔

جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا 2010 میں کراچی لٹریچر فیسٹیول سے جس روایت کی بنا پڑی اس نے دیگر شہروں میں نجی و نیم سرکاری کوششوں سے ہونے والے ادبی میلوں میں عنوانات کے انتخاب، سٹیج کی ڈیزائننگ، سیشنز کی تقسیم اور مقررین و سامعین کی سہولت کاری پر گہرے اثرات چھوڑے۔ ہر نیا میلہ پچھلے تجربے سے سیکھتا جا رہا ہے اور خود کو بہتر کرتا جا رہا ہے۔

یہ میلے اب دقیق اور خشک نہیں ہوتے۔ اس میں ہر عمر کے لوگ آتے ہیں، شریک بزرگ ’ہمارا زمانہ ہی سنہرا تھا‘ کے سنڈروم سے باہر نکلتے ہیں اور بچوں کو معلوم ہوتا ہے کہ اردگرد کی دنیا میں اگر بہت کچھ اچھا نہیں بھی ہو رہا تو بھی کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہو رہا ہے۔ اور کچھ اچھا کسی کی راہ دیکھنے میں وقت صائع کرنے کے بجائے اپنے بل بوتے پر بھی ممکن ہے۔

دہائیوں سے جاری صوفی و نغماتی میلے اپنی جگہ بدستور دیوانہ وار مقبول ہیں۔ مگر بدلتے وقت میں بدلتی نسل اپنا رنگ بھی رفتہ رفتہ پھیلا رہی ہے۔

اس کی ایک مثال حیدرآباد میں 2016 سے شروع ہونے والا سالانہ لاہوتی میلو ہے۔ کہنے کو یہ میوزیکل جشن ہے مگر جس طرح اس میں نئی آوازوں، صوفیت اور لٹریچر کو پرویا جاتا ہے وہ ایک ادھ بدھ منظر ہے۔ گلوکار سیف سمیجو، ثنا خواجہ اور ان کی ٹیم نے نئی نسل کو لاہوتی میوزک فیسٹیول کے بہانے ادبیاتی جال میں پھنسانے کی کامیاب سازش رچائی ہے۔

کل ہی (سنیچر) حیدرآباد میں سندھ کے جدید شعری امام کے نام پر ’ایاز میلو‘ اختتام پذیر ہوا۔ یہ ساتواں ایاز میلو تھا جس میں شعر، گفتگو، موسیقی اور سماجی میل جول کی شکل میں وہ متبادل بیانیہ پانچ روز تک وافر میسر رہا جو اب تک کسی سرکار کے ہاتھ نہیں آ پا رہا۔

نہایت سکون اور مسرت کی منظم فضا میں ہزاروں کی شرکت ہوئی۔ پچانوے فیصد سامعین متبادل حل کی پیاسی نوجوان نسل سے تعلق رکھتے تھے۔ نا نعرے بازی نہ کوئی ہراساں کرنے کا واقعہ۔ ان 15 سے 25 برس کے بچوں کو کسی نے نہیں سکھایا تھا کہ ملک بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کو سنتے ہوئے کب تالی بجانی ہے اور کب خاموش رہنا ہے اور کب جھومنا ہے۔ سب کچھ خود رو، خود بخود اور دم بخود تھا۔

یہ نازک کام سندھ یونیورسٹی کی استاد امر سندھو، عرفانہ ملاح اور تدریس و سماجی شعبوں سے منسلک خواتین کی کلیدی ٹیم اور سو سے زائد رضاکار لڑکے لڑکیوں نے دن رات ایک کر کے ممکن بنایا۔

یہ میلے جو اب سرپرستی و نا سرپرستی کے چکر سے آزاد ہو کر سماجی زمین میں جڑیں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا پھل آتے آتے آ ہی جائے گا۔

کل ہی میں نے پڑھا کہ خیرپور یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم اور اس کے ساتھیوں نے ایک بس روک کر یونیورسٹی میں ہی پڑھنے والی ایک طالبہ کو اسلحے کے زور پر اغوا کرنے کی کوشش کی۔ مگر دیگر طلبا نے جان پر کھیل کر یہ کوشش ناکام بنا دی۔ اغوا کاروں کی مزاحمت کرنے والے طلبا میں سے پانچ زخمی بھی ہوئے۔

گویا تبدیلی آ رہی ہے۔ تماشائی کردار بھی بننے لگا ہے۔ مگر یونیورسٹی انتظامیہ اب بھی تحقیق کر رہی ہے کہ قصور وار کون ہے۔ یونیورسٹیوں کو یونہی تو ’تحقیقی مراکز‘ نہیں کہتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments