منظور پشتین کے آزادکشمیر میں داخلے پر پابندی قابل مذمت


آزاد کشمیر حکومت نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کے آزادکشمیر میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ھے۔ منظور پشتین کشمیری قوم پرست تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی دعوت پر 24 دسمبر کو کوٹلی آزاد کشمیر میں کنونشن میں شرکت کرنے جا رہے تھے۔ چند ماہ سے نام نہاد تحریک جوانان پاکستان آزاد کشمیر میں متحدہ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہی ھے۔ اور بے بنیاد الزامات لگا رہی ھے۔ جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی گئی ہیں۔ حقیقتاً TJP کا آزادکشمیر میں کوئی وجود نہیں۔لیکن جس طرح پاکستان میں طرح طرح کی پارٹیاں اور تنظیموں تحریک کے نام سے سرگرم عمل ہیں۔ ان سب کا مسٹر مائنڈ ایک ہی ھے۔ غور طلب بات ھے یہاں تحریک یہ، وہ اور تحریک فلاں ھے۔ یو کے پی این پی نے پشتون رہنماء کے آزادکشمیر میں داخلے پر پابندی کو شرمناک اور قابل مذمت قرار دیتے ہوئےکہا ھے۔ کہ کشمیری انسان دوست اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ جو اپنے مہمانوں کو نہ صرف دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ بلکہ ان کی عزت و احترام پر کبھی کوئی سمجھوتا نہیں کر تے۔ آزاد کشمیر کی تحریک انصاف حکومت نے ایک کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ھوئے مینٹیننس آف پبلک آرڈر ایکٹ 1985 کے سیکشن 5 کے تحت تین ماہ کے لئے منظور پشتین پر پابندی عائد کر دی ھے۔ آزادکشمیر کی حکومت نے یہ قدم نام نہاد تحریک جوانان پاکستان کی ذیلی شاخ تحریک جوانان کشمیر کے احتجاج کے بعد کیا۔
تحریک جوانان کشمیر جنرل ریٹائرڈ حمید گل کو اپنا سرپرست مناتی ھے۔ اور آج کل آزاد کشمیر میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔ اور کشمیری قوم پرستوں کو ملک دشمن اور غیر ملک ایجنٹ قرار دے رہی ہے۔ مذہبی انتہا پسند ایک خول میں رہتے ہیں۔ ان میں سوچنے ، سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں ھوتی۔ ورنہ کشمیری قوم پرستوں کے خلاف ملک دشمن ، غدار اور غیر ملکی ایجنٹ جیسے گھسے پٹے الزامات نہ لگاتے۔ جو اب الزام سے زیادہ اعزاز بن چکے ہیں۔ کیونکہ بانی پاکستان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح ، باچا خان ، غفار خان، جی ایم سید ، ولی خان، نواب خیر بخش میری، نواب اکبر بگٹی، بزنجو، مینگل ، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو ، نواز شریف ، صحافی حضرات ،شعراء ، غرض ہر وہ شخص جو آئین کی بالادستی کی بات کرے جو قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کرے وہ غدار اور ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ اور جو نام نہاد جہاد اور کالعدم تنظیموں کے خلاف لب کشائی کرے۔ تو اُسے کشمیری قوم پرست رہنما سردار شوکت علی کشمیری اور دیگر قوم پرستوں کی طرح جبری جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑتا ھے۔
ایک وضاحت کرتا چلوں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور خود پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست جموں و کشمیر بشمول آزادکشمیر اور گلگت بلتستان متنازع علاقے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ھوتا ھے۔ کہ حمیدگل مرحوم کی پالیسیوں پر خود ان کے ادارے کے سنیئر آفیسرز اور سربراہ ندامت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اور ان کے تربیت یافتہ اثاثوں کو دہشتگرد گروہ قرار دے کر آپریشن ضربِ عضب، ردلفساد اور بےشمار آپرپششنز کر چکے ہیں۔ اور بیشتر انتہا پسند گروہوں اور تنظیموں کو چاہے عالمی برادری کو خوش کرنے کے لئے ہی سہی کالعدم قرار دے چکے ہیں۔حمید گل اور ان کے ساتھیوں کی انتہا پسندانہ پالیسیوں اور تعلیمات کا خمیازہ نہ صرف افغانستان، ریاست جموں وکشمیر بلکہ خود پاکستان کے عوام بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں نام نہاد تحریک جوانان کشمیر کے الزامات کی کیا حیثیت ہے۔ جو خود ایک کٹھ پتلی ھونے کا اقرار کرتی ھے۔
ایک طرف کالعدم تنظیموں کے راہنماء آزاد کشمیر میں بڑی بڑی ریلیاں نکالتے ہیں ، ہر جگہ دندناتے پھرتے ہیں۔ جن کو مقامی انتظامیہ اور طاقتور قوتوں کی مکمل پشت پناہی حاصل ھے۔فل پروٹوکول انجوائے کر تے ہیں۔ اور دوسری طرف منظور پشتین جو پشتون قوم کے حقوق کے لئے پرامن جدوجہد کر رہے ہیں۔ان کے آزادکشمیر میں داخلے پر پابندی عائد کر دی جاتی ھے۔ جو طاقتور قوتوں کی پالیسیوں کی غمازی کرتی ھے۔اور عمران خان کی PTI حکومت کے اصل چہرے کو بےنقاب کرتی ہیں۔جو بظاہر آزادی اظہار رائے ، آزادی صحافت، قانون کی بالادستی اور روشن خیالی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ لیکن درحقیقت کالعدم اور انتہا پسند گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ ورنہTTP کے ترجمان جو کہ APS پر حملے سمیت بےشمار دہشتگرد حملوں کی ذمّہ داری قبول کرنے کے باوجود پراسرار طور پر فرار نہ ھو پاتے، TLP سے معاہدے نہ کرتے۔
پشتون رہنما کو کس کی خواہش اور احکامات پر آزاد کشمیر میں داخل نہیں ھونے دیا گیا۔ اس کو سمجھنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی قوتیں ہیں جو پی ٹی ایم کے لاہور، کراچی اور دوسری جگہوں میں جلسہ گاہوں میں گٹر کا پانی چھوڑتی آئی ہیں۔ تقریباً تمام کشمیری قوم پرستوں تنظیموں کے علاوہ الحاق نواز پارٹیوں نے بھی آزادکشمیر کی حکومت کے اس فیصلے پر اسے آڑے ہاتھوں لیا ھے۔اور پرزور انداز میں مذمت کی ھے۔ ایسے ظالمانہ اور غلامانہ عمل نے آزادکشمیر کی حکومت کے خود کے آزادی کے دعوؤں کی کلی کھول دی ھے۔ کہ وہ بااختیار ہیں۔ اور اپنے فیصلے خود لینے میں پوری طرح آزاد ہیں۔ نادیدہ قوتوں نے بیچ چوراہے آزاد کشمیر حکومت کو بھی ننگا کروا دیا۔
ایسے پالیسی سازوں کے لئے ہی شائد کسی نے کہا تھاکہ۔
‏ھوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments