کفار کی ٹیلی اسکوپ


25 دسمبر کو سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوا ہے۔ اسی سال یعنی 2021 کی گزارش کر رہا ہوں۔ دنیا میں سنجیدہ ترین لوگوں نے اسے کرسمس کا سب سے عظیم تحفہ قرار دیا ہے۔

حقیقت میں یہ پوری انسانیت کے لیے ایک ایسا نایاب گفٹ ہے جو آنے والی دہائیوں میں شاید تمام علوم کی بنیاد بن سکتا ہے۔ کائنات کے رموز و اسرار کو بدل سکتا ہے۔ انسانی زندگی میں وہ انقلاب برپا کر سکتا ہے جس کا آج کے ماحول میں تصور تک کرنا خواب ہو گا۔ ناسا نے دو دن پہلے دنیا میں آج تک بنی ہوئی تمام تحقیقی ٹیلی اسکوپس سے جدید تر ’حد درجہ سنجیدہ اور شاہکار ٹیلی اسکوپ فضا میں بھیجی ہے۔ اس کانام جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ ہے۔

اس کو تخلیق کرتے ہوئے بہترین سائنسی دماغوں کو پورے تیس برس لگے ہیں۔ ناکامیوں اور کامیابیوں کے اس مسلسل سفر کی معراج اس کرسمس کے موقع پر عمل میں آئی ہے۔ جنوبی امریکا سے فضا میں لے جانے کے لیے Arina 5 Rocket استعمال کیا گیا ہے۔ اس ٹیلی اسکوپ پر دس بلین ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔ ٹیلی اسکوپ حجم میں ایک ٹینس کورٹ کے برابر ہے۔

یہ سورج کے گرد مدار میں گھومے گی۔ اور زمین سے اس کا فاصلہ دس لاکھ میل سے بھی زیادہ ہو گا۔ اسے آپ فلموں میں نظر آنے والی ٹائم مشین بھی کہہ سکتے ہیں اور یہ تخلیق کائنات کے رموز افشاں کرے گی۔ بگ بینگ جس کی وجہ سے زمین اور ہماری گلیکسی وجود میں آئی تھی ’اس دھماکے کے بعد آنے والے واقعات پر تحقیق کرے گی۔ سادہ الفاظ میں یہ ٹیلی اسکوپ معلوم کر پائے گی کہ آج سے اربوں برس پہلے کائنات کس طرح کی تھی۔ اس میں انفرا ریڈ بنیائی کا استعمال کیا گیا ہے جو کاسمک گیس کے آر پار دیکھنے کی استطاعت رکھتی ہے۔

دراصل عدم سے وجود تک کے تمام سائنسی حقائق معلوم کرے گی۔ اس جدید ترین تحقیق سے دنیا میں کیا انقلاب برپا ہو گا۔ سائنسدانوں کے مطابق ابھی اس کا اندازہ تک لگایا نہیں جا سکتا۔ اس ٹیلی اسکوپ کو حدت سے بچانے کے لیے ایک شیلڈ بنائی گئی ہے۔ جو دس برس تک اسے کسی بھی تیز ترین درجہ حرارت میں جلنے سے محفوظ رکھے گی۔ صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ موجودہ کائنات کے تمام اسرار کھول کر سب کے سامنے رکھ دے گی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو آپ نے اس جملہ سے لگا ہی لیا ہو گا کہ یہ دنیا کو کرسمس کا سب سے عظیم تحفہ ہے۔

شاید اب تو اس قباحت سے کوئی رنج نہیں پہنچتا کہ اس عظیم تحقیقی کارنامہ میں کسی مسلمان ملک کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کسی بھی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس بدلتی ہوئی دنیا میں اس کارہائے نمایاں میں کسی طرح بھی چندپیسے ڈال کر اپنا فرض نبھائے۔ اب زبوں حالی کا دوسرا پہلو ملاحظہ فرمائیے۔ ناسا میں سترہ ہزار تین سو چالیس افراد کام کرتے ہیں۔ ان کے کلیدی سائنسدانوں میں عیسائی ’یہودی‘ ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ موجود ہیں۔ مگر ایک بھی مسلمان سائنسدان نہیں ہے۔ مرکزی سائنسدانوں کی بابت عرض کر رہا ہوں۔

ناسا میں سنجیدہ ترین تحقیق کے متعلق عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ جملہ پڑھنے کے بعد چند افراد سیخ پا ہو جائیں اور سترہ ہزارکے عملے میں سے دوچار مسلمان نکال لیں۔ مگر اس کے برعکس ’دنیا کی سب سے پر تعیش کشتی (yacht) سیرین‘ خدا کے فضل سے ایک مسلمان شہزادے کی ہے۔ اور ہاں۔ اس سے پہلے کہ فراموش ہو جائے۔

ایک مسلمان فرمانروا نے دنیا کی سب سے مہنگی پینٹنگ بھی خریدی ہے جس کی قیمت چار سو پچاس ملین ڈالر ہے۔ اس کامصورلی نارڈو ڈی ونشی ہے۔ مشرق وسطی کے امیر ترین خانوادے آج بھی خواتین کے حرم قائم کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ آگے کیا لکھوں۔ آپ خود سمجھ جائیں کہ یہ تمام شہزادے اور شہزادیاں ’ذاتی طمع سے اوپر دیکھنے کی استطاعت اور حیثیت ہی نہیں رکھتے۔ اور یہی حال ہمارے ملک کا ہے۔

یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں باضابطہ طریقہ سے شاہی خاندان ’بادشاہ اور ملکائیں نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ بے ضابطہ طور پر حقیقت کی آنکھ سے دیکھیں تو ہمارے ہاں شہنشاہ بھی ہیں‘ شہزادگان کا وجود بھی ہے۔ شہزادیوں کی چہل پہل اور ملکائیں بھی کسی نہ کسی روپ میں حکمرانی فرما رہی ہیں۔ ہمارے ہاں درباری بھی ہیں ’مسخرے بھی ہیں‘ سچ کو جھوٹ اور مکر و فریب کو ازلی سچ بنانے والے لفظی جادو گر بھی موجود ہیں اور شاہی جلاد بھی ہیں۔

اپنے ملک کی طرف نگاہ دوڑائیے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ کی آنکھ میں سیاسی ’مذہبی‘ علمی اور اقتصادی تعصب نہ ہو۔ پھر اپنے پیارے ملک پر غورکیجیے۔ موجودہ اور سابقہ حالات کو دیکھیے۔ آپ اداسی اور غم کی پاتال میں ڈوب جائیں گے کہ یا خدا ’ہم کیا تھے اور اب ہمیں کیا بنا دیا گیا ہے ۔ دولت اور اختیارات کی بے رحمانہ تقسیم نے ہمارے سماج کو کس طرح برباد کر ڈالا ہے۔ یہ بھی ایک ناقابل اصلاح جرم ہے۔ مذہبی حوالے سے بات کرنے کی ہمت کرتا ہوں۔

بتایا جاتا ہے کہ ہم امن پسند لوگ ہیں۔ علمی اور کتابی حد تک تو یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن کیا ہمارے ہاں ’ایک فرقہ دوسرے فرقہ کو مسلمان تسلیم کرتا ہے؟ اس سے آگے کیا لکھوں۔ اس لیے کہ مجھے اپنی گردن عزیز ہے۔ ہاں‘ جواب دیجیے۔ کیا افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے مسلمان نہیں ہیں! کیا شہید ہونے والے بھی مسلمان نہیں ہیں؟ پر صاحبان! کتابی علم کو مبہم حقائق چھپانے کے لیے انتہائی کرختگی سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی سرپھرا اس پر بات کرے تو اس کے درپے ہو جاتے ہیں۔

حقیقت کچھ اور ’اور فسانہ بالکل کچھ اور ہے! ایک بات اور بھی ہے کسی پاکستانی عالم اور مذہبی رہنما نے یہ نہیں فرمایا کہ جاؤ سائنس کو اوڑھنا بچھونا بناؤ‘ تحقیق کی دنیا میں داخل ہو جاؤ ’جدید علوم کو زیر کرو‘ کسی عالم سے کبھی موجودہ سائنسی علوم کومسخر کرنے کے احکامات جاری نہیں ہوتے۔ یہ المیہ ہے اور رہے گا۔

سیاست دانوں کے کردار پر ذہن لڑائیے۔ چار پانچ سیاسی خاندان اورمعدودے قلیل ریاستی شخصیات کی آپس میں کھینچا تانی ہے۔ ہر ملک میں سیاست ہوتی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے دست و گریبان رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لتے لیتے نظر آتے ہیں۔ مگر جو معاملات ہمارے منافق معاشرے کے ہیں۔ اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ ہمارے اختلافات اب سیاسی نہیں ہیں۔ یہ شخصی اور ذاتی دشمنی ہے۔

یہ وسائل اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی وہ جنگ ہے جس میں اخلاقی نعروں کوبطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ روش ستر برس سے یکساں ہے۔ نام لیے بغیر عرض کروں گا۔ کیا سندھ کے شہزادے اور ان کے والد محترم ’واقعی عوام کی خدمت کے لیے سیاست کر رہے ہیں؟ کیا وہ اپنی بے پناہ دولت کا دنیا کے کسی بھی غیر جانبدار تحقیقی ادارے کو جواب دے سکتے ہیں۔ کیا واقعی ان کے تیرہ برس کے مسلسل حکمرانی سے سندھ کے عام آدمی کی صورت حال بہتر ہو گئی ہے۔

صاحبان ’ان کی باتوں اور بیانات پر اب تو ہنسی آتی ہے۔ نہیں شاید اب رونا آتا ہے۔ مگر کیا کروں‘ وہ دہائیوں سے جھوٹ بولنے اور اسے بیچنے میں مکمل طور پر کامیاب ہیں۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب کی طرف آیئے۔ کیا اس میں کوئی شبہ ہے کہ شاہی خاندان نے تمام دولت ’اپنے اقتدار کے دورانیہ میں کمائی ہے۔ سیکڑوں ایکڑوں کے پر تعیش محلات میں رہنے والے کس ڈھٹائی سے صوبہ پنجاب کے خادم بنے ہوئے ہیں۔

عدالتیں اور ادارے ان کی طاقت سے گھبراتے اور ڈرتے ہیں۔ ان کی دولت کی ایک پائی بھی لندن سے واپس پاکستان نہیں لائی جا سکتی۔ اور بالکل یہی ادنیٰ حالات کے پی کے اور مرکزی حکومت کے ہیں۔ نا اہل ترین لوگ ’لوگوں کی گردنوں پر سوار ہیں۔ ہر بندہ مال کمانے پرمگر دوسرے پر تنقید کرنے میں مصروف کار ہے۔

عوام کی خستہ حالت موجودہ سیاسی حکومت نے جو کر ڈالی ہے اس ابتری کی مثال ملنا ہر درجہ مشکل ہے۔ مگر ان تمام شاہی خاندانوں میں ایک بات حیرت انگیز طور پر یکساں ہے۔ ان کے کسی بادشاہ نے یہ حکم صادرنہیں کیا کہ جاؤ ’تحقیق اور سائنس کی دنیا میں کود جاؤ۔ اپنے آپ کو جدید ترین علوم کا وارث بنا لو۔ جاؤ‘ اللہ کے پہلے حکم ’ ”اقرا“ کے مطابق علم حاصل کرو۔ ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آئی۔

ناسا نے جیمز ٹیلی اسکوپ بنا ڈالی جو کائنات کے راز افشا کرے گی۔ اس کے برعکس ہم مزید پستی میں ڈوبیں گے۔ کیونکہ ہمارے بادشاہوں نے ہمیں دولے شاہ کے چوہوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہر قسم کی علمی سوچ سے مبرا اور بھرپور طریقے سے جہالت پر مطمئن! جناب لوریوں سے پکی نیند سوئے رہے۔ کسی قسم کا کوئی مسئلہ نہیں۔ مگر کفار تو محیرالعقول ٹیلی اسکوپ بناتے رہیں گے۔
بشکریہ ایکسپریس نیوز۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments