”تھو کوڑی“


اتوار کی رات سونے سے قبل سوشل میڈیا پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ اس دن منیرؔ نیازی صاحب کی برسی بھی تھی۔ یہ جان کر یاد یہ بھی آیا کہ آج سے کئی ماہ قبل اس کالم میں عہد باندھا تھا کہ کچھ وقت نکال کر منیرؔ صاحب کی شاعری کو غور سے پڑھا جائے گا اور پھر ان کے شعروں کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار ہو کہ وہ وطن عزیز کے ٹھوس حقائق کے حقیقی ترجمان تھے۔ ”شہر“ کو انہوں نے ”سنگ دل“ پایا اور اسے جلانے کی تمنا لئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔

جوانی میں منیرؔ نیازی صاحب سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ یہ وجیہہ انسان اپنے میں گم رہتا تھا۔ صحافت اور ادب پر حاوی کئی شخصیات کو ایک فقرے میں بیان کرتے ہوئے ہمیں ہنساتے اور دیوقامت نظر آتے بتوں کو زمین بوس کر دیا کرتے تھے۔ ہم انہیں احترام سے خان صاحب پکارتے تھے۔ میرے ساتھ انہوں نے ہمیشہ حیران کن شفقت برتی۔ ان کا خیال تھا کہ میرے ماتھے پر خوش بختی دمکتی ہے۔ میں اس سے مطمئن ہوا لیکن اس مشقت سے گریز کرتا ہوں جو کچھ بھی لکھنے والے کے لئے لازمی ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ ہوئی ملاقاتوں کی بدولت میں ان کی شاعری کو ذرا بہتر انداز میں سمجھ سکتا تھا۔

خان صاحب نے مگر زندگی کو ”رائیگاں کا سفر“ بھی ٹھہرایا تھا اور ساتھ ہی گلہ یہ بھی رہا کہ ”عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا“ ۔ اس شعر پر غور کروں تو مجھ کو اپنی زندگی کا ”اس“ وطن عزیز کی سیاست محسوس ہوتی ہے۔ یہاں منیرنیازی ہی کے بقول ”حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ“ ۔ عمر کا بیشتر حصہ اس سفر کی بابت رپورٹنگ کی نذرکر دیا۔ اب کالم لکھتا ہوں تو قارئین کی اکثریت یہ توقع باندھتی ہے کہ لمحہ موجود پر حاوی ہوئے سیاسی رویوں پر اپنی رائے کا اظہار کروں۔ سوشل میڈیا نے ستائش کی تمنا بھی بھڑکادی ہے۔ خواہش ہوتی ہے کہ جو کالم چھپے اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پڑھنے کے بعد پسند کا بٹن دبائیں اور ری ٹویٹ کرتے ہوئے اسے دوسروں کوبھی پڑھنے پر اکسائیں۔ ستائش کی یہ ہوس ایسے وعدے نبھانے نہیں دیتی جیسے میں نے خان صاحب کو دور حاضر کا نمائندہ شاعر ثابت کرنے کے حوالے سے کیے تھے۔

”عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا“ نے تاہم اتوار کی رات سے دل ودماغ کو جکڑ رکھا ہے۔ تاریخ کی کتابیں پڑھتا ہوں تو علم ہوتا ہے کہ برطانوی سامراج کئی دہائیوں تک آج کے بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کہلاتے ممالک کاآقا رہا۔ ان دنوں اس خطے کو برطانوی ہند کہا جاتا تھا۔ اس کی تشکیل کے لئے ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب سراج الدولۂ، ٹیپو سلطان اور بالآخر بہادر شاہ ظفر کے سائے میں قائم ہوئے ریاستی بندوبست کو تباہ وبرباد کیا تھا۔ اس کے علاوہ اودھ کے واجد علی شاہ بھی زد میں آئے۔ برطانوی استعمارنے اپنے اقتدار کے فروغ واستحکام کے لئے جن نوابوں، سلاطین اور بادشاہوں کو تسخیر کیا وہ مسلمان تھے۔ برطانوی ہند کے عوام کی اکثریت لہٰذا یہ سوچنے کو مجبور ہوئی کہ انگریزوں نے درحقیقت اقتدار مسلمانوں سے چھیناہے۔ برطانیہ سے نفرت اس تناظر میں مسلمانوں کا مذہبی فریضہ بھی تصور ہوا۔

ایسے میں غالبؔ جیسے شعراء کے ایما پر سرسید احمد خان جیسے نابغے نمودار ہوئے جنہوں نے وقت کے تقاضوں کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے جدید تعلیم کے حصول پر زور دیا۔ دریں اثناء سوال یہ بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ برطانوی ہند کے شمال مغربی علاقوں میں تعلیم ودفتر کی زبان ا ردو ہو یا ہندی۔ اس کے علاوہ تقسیم بنگال بھی ہوئی جسے ہندوانتہا پسندوں نے مسلح مزاحمت کے ذریعے رد کر دیا۔ اس کے نتیجے میں مسلم بنگال کا تصور اجاگر ہوا اور 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ نامی جماعت کا قیام آج کے بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ہوا۔

ہمارے خطے میں اقبال نمودار ہوئے۔ انہوں نے خطبہ آلہ آباد کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے جدا وطن کا تصور پیش کیا۔ قائد اعظم اس تصور کو لے کر آگے بڑھے اور اگست 1947 میں پاکستان بن گیا۔ اس ملک کے قیام کی تاریخ میں برطانوی ہند کی فوج اور افسر شاہی میں شامل ہوئے مسلمانوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد مگر ملک غلام محمد اور چودھری محمد علی جیسے افسروں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ طے کریں گے کہ اس ملک کو کیسے چلانا ہے جس کے قیام میں انہوں نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ برطانوی ہند کے سدھائے ان افسران کو انگریز کے جاسوسی اداروں کے شاطر ترین میجر جنرل سکندر مرزا جیسے ملازموں نے بھرپور معاونت فراہم کی۔ اس کے بعد ایوب خان پاکستان فوج کے پہلے دیسی سربراہ بن گئے۔ اپنے منصب پر فائز ہوتے ہی انہوں نے پاکستان کو مستحکم اور خوش حال بنانے کے منصوبے تیار کرنا شروع کردئے۔ بالآخر دیدہ ور کی صورت 1958 میں اقتدار پر قابض ہو گئے۔ گورنر جنرل غلام محمد کے دنوں سے آج تک عمر ہماری رہی ”بسر“ اسے مگر کوئی اور ہی کرتا رہا ہے۔ مجھ جیسے قلم گھسیٹ اگرچہ اس گماں میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہم خلق خدا کے حقیقی جذبات کے ترجمان ہیں۔ ”دیدہ وروں“ کی تلاش ہماری ذمہ داری ہے۔ ان کی نشاندہی کے بعد ہم عوام کو انہیں اقتدار میں لانے کو راغب کرتے ہیں۔

زیادہ تفصیل میں جائے بغیر فقط اتنا یاددلانا ہی کافی ہو گا کہ ہمارے میڈیا پر حاوی ہوئے ذہن سازوں کی اکثریت نہایت سنجیدگی سے اس زعم میں مبتلا ہے کہ ان کی کاوشوں سے عمران خان صاحب اگست 2018 میں برسراقتدار آئے تھے۔ سیاست دانوں کا روپ دھارے مبینہ ”چوروں اور لٹیروں“ کے خلاف ہم نے اخباری کالموں اور ٹی وی سکرینوں پر دہائی نہ مچائی ہوتی تو شاید عمران خان صاحب کبھی برسر اقتدار نہ آپاتے۔ منیر نیازی سے محبت نے رب کا شکرمجھے ایسے زعم سے بچائے رکھاہے۔

کوئی پسند کرے یانہیں مکدی گل مگر یہ ہے کہ ہمارے ہاں کا سیاسی منظر بالآخر وہی قوتیں تشکیل دیتی ہیں جنہوں نے ملک غلام محمد کو دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے لئے 1950 کی دہائی شروع ہوتے ہی اکسایا تھا۔ دستور ساز اسمبلی تحلیل ہو گئی تو اعلیٰ ترین عدلیہ کے جسٹس منیر نے اسے ”نظریہ ضرورت“ کے تحت برحق فیصلہ قرار دیا۔ جسٹس منیر کے بنائے راستے پر ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ صاحب جیسے دیدہ ور سینہ پھلاتے ہوئے گامزن رہے۔ ہم سب کی اجتماعی سوچ کو ”حیف ہے اس قوم پر“ لکھتے ہوئے ناقص ٹھہرایا۔ ازخود نوٹسوں کے ذریعے ہمیں سیدھی راہ دکھاتے رہے۔

آج کی نسل سلیٹ سے آشنا نہیں۔ میری نسل کو پرائمری جماعتوں میں لیکن اسے استعمال کرنا ہوتا تھا۔ اس پر حساب کے سوالات کا حل ڈھونڈتے ہوئے اکثر ہم سے غلطی ہوجاتی تو ہم تھوک سے اسے مٹاتے۔ غلط جواب کو مٹاتے ہوئے ”تھو کوڑی“ کے لفظ بھی استعمال کرتے۔ گزشتہ چند دنوں سے تاثر یہ پھیل رہا تھا کہ اگست 2018 میں جو سیاسی منظر نامہ بنایا گیا تھا اس کے خالق ”تھوکوڑی“ کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک بیان کے ذریعے اس کا عندیہ دیا۔ میرے مگر ایک معتبر ومحترم ساتھی ہیں۔ نام ہے ان کا انصار عباسی۔ عباسی بھائی سیاسی معاملات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ہر وقت چوکنا بھی رہتے ہیں۔ زرداری صاحب نے بیان دیا تو انہوں نے ایک معتبر ”دفاعی ذریعہ“ سے گفتگو کے بعد اس کی واضح تردید فراہم کردی۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کے سابق سپیکر ایاز صادق صاحب نے نواز شریف کی وطن واپسی کی بابت چند اشارے دیے۔ پیر کی صبح اٹھ کر اخبارات دیکھے توروزنامہ جنگ کے صفحۂ اول پر عباسی بھائی کی ایک اور خبر چھپی تھی۔ اس خبر میں انہوں نے ”باخبر ذرائع“ کا حوالہ دیتے ہوئے وضاحت فرمادی ہے کہ ”کوئی ڈیل ہوئی نہ نواز شریف واپس آرہے ہیں“ ۔ یہ خبر پڑھتے ہی منیرؔ نیازی پھر یاد آ گئے اور ان کی دریافت کردہ ”حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ“ والی اذیت دہ حقیقت بھی۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments