شیخ مجیب الرحمان: بنگلہ دیش کے بانی کا سحر، جمہوری اور آمرانہ رویہ کا امتزاج

عارف شمیم - بی بی سی اردو سروس، لندن


سنہ 1972 میں رہائی کے بعد شیخ مجیب لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران
سنہ 1972 میں رہائی کے بعد شیخ مجیب لندن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران
پاکستان کے پانچویں وزیرِ اعظم اور شیخ مجیب کے قریبی ساتھی حسین شہید سہروردی نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ’اگر یہ (شیخ مجیب) کبھی اقتدار میں آیا تو اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘

دوسری طرف یہ حسین سہروردی ہی تھے جنھوں نے مشرقی بنگال میں شیخ مجیب کو تراشا اور انھیں بہت سی سیاسی ذمہ داریاں سونپ کر اپنے جانشین کے طور پر آگے بڑھایا۔

شیخ مجیب کیسے شخص اور سیاستدان تھے؟ کیا ان سے یہ برداشت ہوتا تھا کہ کوئی اور بھی اقتدار میں شراکت کرے؟ یا کیا وہ خود بھی آمرانہ شخصیت کے مالک تھے یا جمہوریت پسند؟ بنگلہ دیش کی آزادی کی بات شیخ مجیب الرحمان کی شخصیت پر بات کیے بغیر نامکمل ہے، کیونکہ آزادی اور شیخ مجیب بنگلہ دیش کے حوالے سے لازم ملزوم ہیں۔

بی بی سی بنگلہ سروس کے ایڈیٹر صابر مصطفیٰ کے والد کے جی مصطفیٰ شیخ مجیب کے قریبی دوست تھے اور وہ کلکتہ یونیورسٹی میں ایک ساتھ پڑھتے رہے تھے۔ وہ 10 جنوری 1972 کے اُس دن کو یاد کرتے ہیں جب شیخ مجیب بنگلہ دیش آئے تھے اور ڈھاکہ کی گلیوں میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ اُن کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

’ان میں سے میں بھی ایک تھا۔ اس وقت شیخ مجیب بنگلہ دیشیوں کے لیے دنیا کے کسی بھی انسان سے بڑے تھے۔ ان کے گرد ایک اسرار اور احترام کی فضا تھی کیونکہ لوگوں نے انھیں 1971 سے پہلے عوامی ریلیوں، جلسوں، الیکشن ریلیوں اور مظاہروں میں دیکھا ہوا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جنگ کے نو مہینوں میں وہ نظر نہیں آئے۔ وہ قید میں تھے اور اسی دوران وہ مزید سحر انگیز شخصیت بن گئے۔ ان کی اتھارٹی کی سطح کے برابر کوئی نہیں جا سکتا تھا، ان کا اپنے دوسرے پارٹی رہنماؤں سے رتبہ بہت بلند تھا۔ بہت سے لوگ نجی محفلوں میں کہتے تھے کہ انھیں گاندھی جیسا کردار نبھانا چاہیے اور کوئی عہدہ نہیں لینا چاہیے۔ گاندھی نے کوئی سرکاری عہدہ نہیں لیا تھا اور وہ ’فادر آف دی نیشن‘ بن گئے تھے۔ مجیب بھی ’فادر آف دی نیشن‘ تھے لیکن انھوں نے وزیرِ اعظم کا عہدہ بھی لے لیا تھا۔‘

صابر مصطفیٰ کے مطابق شیخ مجیب گاندھی والا کردار نبھا سکتے تھے لیکن وہ ایک شاطر سیاستدان بھی تھے جنھیں نے پارٹی کو لیڈ کیا تھا اور وہ اب حکومت کو بھی لیڈ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اپنے خیالات کے مطابق بنگلہ دیش کو بنانا چاہتے تھے، اور ان کے خیال میں حکومت سے باہر رہ کر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔

امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کی پروفیسر عائشہ جلال کہتی ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ مجیب ایک بہت اچھے مقرر تھے، ایک عوامی رہنما تھے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سہروردی صاحب نے کہا تھا کہ ’اگر یہ کبھی اقتدار میں آیا تو اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ اُس وقت بائیں بازو کی طرف جھکاؤ کا ’پاپولزم‘ چل رہا تھا، پاکستان میں بھٹو، انڈیا میں اندرا گاندھی، مشرقی پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش میں شیخ مجیب۔ اس لحاظ سے جنوبی ایشیا میں بڑا دلچسپ وقت تھا جہاں پر تین بڑے عوامی رہنماؤں نے اپنی عوام کے ساتھ بڑے وعدے کیے لیکن وہ انھیں پورے نہ کر پائے اور آمرانہ رویہ اپنا لیا۔

’تاہم یہ ضرور سچ ہے کہ مجیب اپنے عوام کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بنگلہ دیش کو کسی نئی جگہ پر لے جائیں۔ لیکن اس وقت جنگ کی وجہ سے معشیت بری حالت میں تھی اور فوج کے اندر بڑی کشمکش تھی۔ اس لیے مجموعی طور پر ان کو بہت سے محاذوں پر جنگ لڑنا تھی۔‘

عائشہ جلال بتاتی ہیں کہ ’بائیں بازو کی طرف رجحان والے عناصر اس بات پر خوش نہیں تھے کہ شیخ مجیب ریگولر غالب طبقے کے ساتھ سمجھوتہ کر کے آگے بڑھیں۔ مگر چونکہ مجیب حکومت میں تھے اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ایک توزان رکھیں اور اس طرح ان کے لیے آپشنز محدود ہو گئے تھے۔‘

’بنگلہ دیش میں ایک بہت بڑا قحط بھی پڑا، اس لیے بہت سی چیزیں ساتھ ساتھ ہو رہی تھیں۔ عوامی لیگ کے اندر بھی مختلف دھڑے بن چکے تھے۔ کوئی چاہتا تھا کہ امریکہ نواز ہوا جائے، دوسرا چاہتا تھا کہ سوویت نواز بنیں اور اس طرح 1971 کے بعد بنگلہ دیش پوری طرح سرد جنگ کی لپیٹ میں بھی رہا۔ اس لیے مجیب نے ملک کو ایک پارٹی کی ریاست بنانے کی بھی کوشش کی جسے ’بکسال‘ کہا جاتا ہے اور وہ فیصلہ کافی غیر مقبول تھا۔‘

شیخ مجیب

شیخ مجیب سے کہاں غلطیاں ہوئیں اور کیا وہ آمرانہ صلاحیتوں کے حامل تھے؟

صابر مصطفیٰ کہتے ہیں کہ گذشتہ پچاس سال میں ملک میں کسی نے بھی ایسا نہیں کہا کہ شیخ مجیب کرپٹ تھے لیکن ان کی غلطی تھی کہ وہ اپنی پارٹی میں لوگوں کی کرپشن روکنے میں ناکام رہے تھے۔

’وہ ایک بُرے منتظم ثابت ہوئے تھے۔۔۔ وہ امن و امان کنٹرول رکھنے میں ناکام رہے، جس کی ایک وجہ بائیں بازو کے کچھ انقلابی گروپ بھی تھے جنھوں نے فیصلہ کیا کہ انھوں نے ایک جمہوری بورژوا نظام کے لیے لڑائی نہیں لڑی تھی بلکہ انھوں نے طبقاتی نظام کے خلاف لڑائی لڑی تھی۔ اس لیے انھوں نے حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کر دی اور حکومتی سہولیات اور صنعتوں پر حملے شروع کر دیے اور مجیب اسے اچھی طرح روک نہیں سکے۔ اور اس کے بعد قحط آ گیا جس نے انھیں واقعی نقصان پہنچایا۔‘

صابر کہتے ہیں کہ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ کوئی آمر تھے۔

’یہ ان کے خمیر میں ہی نہیں تھا، وہ جمہوریت کو بہت زیادہ مانتے تھے اور خود اس پر پورے طریقے سے عمل بھی کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی جماعت کو ایک آمر کی طرح نہیں بلکہ ایک مضبوط رہنما کی طرح چلایا جو دوسرے پارٹی رہنماؤں کی عزت کرتا تھا اور فیصلوں میں ان کی شمولیت ہوتی تھی۔‘

صابر کے مطابق وہ مسلم لیگ کے ان سیاسی رہنماؤں کی بھی عزت کرتے تھے جنھوں نے بنگلہ دیش کی مخالفت کی تھی۔ مگر وہ بتاتے ہیں کہ ’جب شیخ مجیب بائیں بازو کی بغاوت اور اپنے اقتدار کی مخالفت جیسے چیلنجز کا حل نہیں نکال سکے اور معیشت بھی گرتی گئی اور ملک قحط کی حالت میں چلا گیا تو پھر وہ بھی آمرانہ رویہ اپنانے لگے۔‘

’انھوں نے سوچا کہ بحران اور مسائل کو جمہوری طریقے سے ہینڈل کرنا ان کے بس میں نہیں رہا تو انھوں نے آزاد پریس کو بند کر دیا، سیاسی جماعتوں کے دفاتر بند کرنا شروع کر دیے اور ایک پارٹی کا ملک بنا دیا۔ اور یہی ان کے زوال کا سبب بنا۔‘

سنہ 2019 میں بنگلہ دیشی عوامی کلچرل فورم شیخ مجیب الرحمان کے قاتلوں کو سزایے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے

سنہ 2019 میں بنگلہ دیشی عوامی کلچرل فورم شیخ مجیب الرحمان کے قاتلوں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے

پولیس اور فوج کے ہوتے ہوئے شیخ مجیب کی طرف سے رکھی باہنی (نینشل گارڈز) کی تشکیل کو بھی شیخ مجیب کی اقتدار پر آمرانہ طریقے سے گرفت قائم رکھنے کی ایک کوشش سمجھا جاتا ہے، لیکن صابر اس کے متعلق ایک دلچسپ حقیقت بتاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ رکھی باہنی کو 1972 میں ماؤسٹ باغی گروہوں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے عناصر کے خلاف اس وقت تشکیل دیا گیا تھا جب وہ پولیس سٹیشنز پر حملے کرنے لگے اور جاگیرداروں کو نشانہ بنانے لگے۔

صابر کہتے ہیں کہ ’اس کے کئی سالوں بعد میں جنرل شفیع اللہ کا انٹرویو کیا جو مجیب کے دور میں فوج کے سربراہ تھے۔ انھوں نے مجھے انٹرویو میں بتایا کہ یہ غلط ہے کہ شیخ مجیب نے ذاتی طور پر اپنے لیے رکھی باہنی بنائی تھی۔ دراصل فوج خود شیخ مجیب کے پاس گئی تھی اور کہا تھا کہ ان لوگوں کے خلاف آپریشنز کا حصہ نہیں بننا چاہتی، کیونکہ یہ فوج کو عوام کے ساتھ براہ راست لڑانا ہے۔‘

اس انٹرویو میں انھوں نے مزید بتایا کہ ’یہ باغی گروہ بھی بنگلہ دیشی ہیں اور سیاسی ہیں اور ان کے پاس عوام کی طرف سے کچھ سیاسی حمایت بھی ہے لہذا اگر فوج ان کے خلاف آپریشن کرتی ہے تو اسے ان کے ساتھ براہ راست لڑنا پڑے گا، شاید عام دیہاتیوں کے ساتھ بھی لڑنا پڑے اور فوج ایسا کرنا نہیں چاہتی۔‘

یہ بھی پڑھیے

پاکستان اور بنگلہ دیش میں معافی پر سیاست، آگے کیسے بڑھا جائے؟

خوراک کی قلت کا شکار بنگلہ دیش خود کفیل کیسے بنا؟

زبان، ثقافتی تسلط، حق تلفی یا کوئی سازش: مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما تھے؟

پاکستان کے ’بنگالی‘ اور بنگلہ دیش کے ’بہاری‘، پچاس سال سے شناخت کے منتظر بے نام لوگ

’اس لیے انھوں نے شیخ مجیب کو مشورہ دیا کہ وہ نیم فوجی دستوں جیسی ایک فورس بنائیں جس کا کام باغیوں سے نمٹنا اور ان سے اسلحہ وغیرہ برآمد کرنا ہو، کیونکہ جنگ کے بعد بنگلہ دیش میں کافی اسلحہ آ چکا تھا۔ لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، جیسے جیسے رکھی باہنی طاقتور ہوتی گئی اس کی کارروائیاں زیادہ جابرانہ ہوتی گئیں اور اسے نہ صرف ماؤ نواز باغیوں جیسے انتہا پسند گروہوں کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اسے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کیا جانے لگا۔‘

تاہم عائشہ جلال سمجھتی ہیں کہ شیخ مجیب پھر بھی کوئی آمر نہیں بلکہ ایک جمہوری رہنما تھے اور جمہوریت پر مکمل یقین رکھتے۔ لیکن ان کے مطابق شیخ مجیب کو اتنے مسائل نے گھیر رکھا تھا کہ وہ سب کچھ نہ کر سکے جو وہ کرنا چاہتے تھے۔

آزادی کے چار سال بعد ہی ’فادر آف دی نیشن‘ کا قتل

شیخ مجیب کے ساتھ بھی وہی ہوا جو انڈیا میں فادر آف دی نیشن مہاتما گاندھی کے ساتھ ہوا تھا۔ انھیں چند ہی سال بعد پورے خاندان سمیت، سوائے دو بیٹیوں کے جو ملک سے باہر جرمنی میں تھیں، ایک فوجی انقلاب میں قتل کر دیا گیا۔

لیکن یہ بھی عجیب بات ہے کہ اس فوجی انقلاب کی سربراہی فوج کے سربراہ یا کسی سینیئر جنرل نے نہیں کی تھی۔ یہ کچھ جونیئر لیول کے فوجیوں کا انقلاب تھا جس میں کچھ ریٹائرڈ آفیسرز بھی شامل تھے، لیکن بعض مبصرین کے مطابق اسے عوامی لیگ کے اندر سے حمایت حاصل تھی۔

شیخ مجیب کے قتل کے فوراً بعد کونداکر مشتاق احمد صدر بن گئے جنھوں نے مجیب کے قاتلوں کو سراہا اور انھیں ’سورج کے بیٹے‘ بھی کہا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے کے ایم شفیع اللہ کی جگہ جنرل ضیا الرحمان کو فوج کا سربراہ مقرر کیا اور عوامی لیگ کے شیخ مجیب کے حمایتی رہنماؤں کو گرفتار کروا کے جیل بھیج دیا جن میں سے چار بڑے رہنماؤں کو ڈھاکہ سینٹرل جیل کے اندر ہی قتل کر دیا گیا۔

صابر کہتے ہیں کہ جب جونیئر فوجیوں کا صدارتی محل پر قبضہ ہوا اور وہ صدر مشتاق احمد کو بتانے لگے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے تو فوج کے سینیئر آفیسرز کو یہ بہت بُرا لگا۔ ان میں فوج کے نائب سربراہ چیف آف جنرل سٹاف میجر جنرل خالد مشرف بھی شامل تھے۔

انھوں نے فوج کے سربراہ جنرل ضیا الرحمان سے کہا کہ ان آفیسرز کو صدارتی محل سے نکالنا چاہیے اور سزا دینی چاہیے لیکن وہ نہ مانے۔ سو شیخ مجیب کے قتل کے تین مہینے بعد تین نومبر کو ایک اور فوجی انقلاب آیا جس میں خالد مشرف نے دوسرے فوجی آفیسرز کے ساتھ مل کر آرمی چیف کو گرفتار کیا اور صدر کو کہا کہ وہ اقتدار چھوڑ دے۔

مکتی باہنی کے گوریلے انڈیا میں فوجی تربیت لیتے ہوئے

مکتی باہنی کے گوریلے انڈیا میں فوجی تربیت لیتے ہوئے

لیکن یہ نئے فوجی سربراہ قتل و غارت نہیں چاہتے تھے، نہ تو انھوں نے ضیاالرحمان کو مارا اور نہ ہی مشتاق احمد کو۔ تاہم سات نومبر کو ایک اور فوجی انقلاب آیا جس میں خالد مشرف سمیت بہت سے لوگوں کو مارا گیا اور ضیاالرحمان کو واپس لایا گیا۔

صابر کے مطابق ضیا الرحمان کے دور میں مجیب کے قاتلوں کو معاف کیا گیا اور انھیں ملک سے باہر بھیج دیا گیا، کئی ایک کو سفارتخانوں میں نوکریاں دی گئیں۔ جب شیخ حسینہ 1996 میں اقتدار میں آئیں تو انھوں نے ان میں سے کچھ کو گرفتار کروایا اور پھر انھیں پھانسیاں دی گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments