ورجینیا وولف اور سلویا پلاتھ کا خودکشی سے پہلے آخری خط


انگلستان کی مایہ ناز ادیبہ ورجینیا وولف نے مارچ 1941 میں فیصلہ کیا کہ وہ ڈپریشن کی اذیت سے اتنا تھک چکی ہیں وہ مزید زندہ نہیں رہنا چاہتیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے کوٹ کی جیبوں کو بھاری پتھروں سے بھرا اور اپنے گھر کے قریب دریا میں اتنی دور تک چلتی چلی گئیں کہ واپس لوٹ کر نہ آئیں۔ خودکشی کے لیے گھر سے رخصت ہونے سے پہلے وہ اپنے شوہر لینرڈ وولف کے لیے ایک خط چھوڑ گئیں وہ خط جو ایک ادب پارہ بھی ہے اور ایک محبت نامہ بھی۔ وہ رقم طراز ہیں

میرے بہت ہی پیارے محبوب

مجھے پورا یقین ہے کہ مجھ پر پاگل پن کا ایک بار پھر دورہ پڑ رہا ہے۔ میں ایسے اذیت ناک دور سے ایک دفعہ پھر نہیں گزرنا چاہتی۔ میں اس حقیقت سے باخبر ہوں کہ اس دفعہ میں اس دورے سے صحتیاب نہیں ہوں گی۔ مجھے پھر غیبی آوازیں آنی شروع ہو گئی ہیں۔ اس لیے میں وہ قدم اٹھانے جا رہی ہوں جو میری نگاہ میں بہترین قدم ہے لیکن رخصت ہونے سے پہلے میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تم نے مجھے زندگی کی بہترین خوشیاں دی ہیں۔ میری اس بیماری سے پہلے ہم کتنے خوش تھے۔ میں اب اس بیماری سے مزید نہیں لڑ سکتی۔ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی دردناک ہو رہی ہے۔ میں چلی جاؤں گی تو تم کام کرنے کے قابل ہو سکو گے۔ مجھے یقین ہے کہ پھر تم ضرور کام کرو گے۔

میں یہ خط بھی اچھے طریقے سے نہ لکھ پا رہی ہوں نہ پڑھ پا رہی ہوں۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ میری زندگی میں خوشیاں صرف تمہاری وجہ سے تھیں۔ تم نے میرے ساتھ کتنے صبر اور خوش دلی کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں اس کا اعتراف کرنا چاہتی ہوں۔ اگر کوئی مجھے یہ قدم اٹھانے سے روک سکتا تھا تو وہ تم تھے۔ اب میں نے ہر چیز میں اعتماد اور ایمان کھو دیا ہے سوائے تمہاری محبت اور نیک دلی کے۔ میں تمہاری زندگی کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتی۔ ہم دونوں سے زیادہ اس دنیا میں کوئی اور جوڑا خوش نہیں رہا ہو گا۔

۔ ۔ ۔

ورجینیا وولف نے اپنے افسانوں ’ناولوں اور مقالوں سے جن شاعروں‘ ادیبوں اور دانشوروں کو متاثر کیا ان میں امریکہ کی ایک نوجوان ادیبہ بھی تھیں جن کا نام سلویا پلاتھ تھا۔ سلویا پلاتھ ورجینیا وولف کی خود کشی سے چند سال پیشتر پیدا ہوئی تھیں۔

سلویا پلاتھ بھی ورجینیا وولف کی طرح ڈپریشن کی مریضہ تھیں۔ انہوں نے بھی ورجینیا وولف کی طرح اپنی حساس شخصیت اور زندگی کی اذیتوں سے تنگ آ کر کئی بار اقدام خود کشی کیا تھا لیکن ہر دفعہ بچ گئیں۔ وہ کئی ماہ نفسیاتی ہسپتال میں بھی داخل رہیں اور ان کا بجلی کے جھٹکوں سے علاج بھی کیا گیا۔

سلویا پلاتھ بھی شادی شدہ تھیں اور ان کے دو چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔

سلویا پلاتھ اپنے شوہر ٹیڈ ہیوز سے شادی کے آغاز میں جتنی محبت کرتی تھیں بعد میں اتنی ہی نفرت بھی کرتی تھیں۔ جب انہیں پتہ چلا کہ ٹیڈ ہیوز کسی اور حسینہ کی زلف کا اسیر ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہمبستری کرنے لگا ہے تو انہوں نے اپنے گھر جدا کر دیے۔ پھر انہوں نے ٹیڈ ہیوز کو ایک خودکشی کا پیغام بھیجا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ خط انہیں خود کشی کے بعد ملے گا لیکن ڈاک اتنی جلد پہنچ گئی کہ وہ سلویا پلاتھ کی خود کشی سے پہلے ہی ان کے گھر پہنچ گئے اور ان کی جان بچا لی۔

اس کے بعد سلویا پلاتھ اپنے شوہر کو چھوڑ کر اور بچوں کو لے کر امریکہ سے انگلستان چلی گئیں۔

انگلستان میں وہ اس سال حد سے زیادہ سردی اور بچوں کی نگہداشت سے نڈھال ہو گئیں۔ پھر انہیں ٹیڈ ہیوز کا ایک خط موصول ہوا جس میں اس نے ایک نظم بھیجی تھی۔ اس نظم نے انہیں اور بھی دل شکستہ و دلبرداشتہ کر دیا اور انہوں نے اس زندگی کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کر دیا۔

اس نظم کا نام۔ آخری خط۔ ہے۔ وہ نظم طویل ہے میں یہاں ان نظم کے چند مصرعوں کا ترجمہ پیش کرتا ہوں تا کہ آپ کو اس نظم کی ماہیت اور جذباتیت کا اندازہ ہو سکے۔

اس رات کیا ہوا
آخری رات
جب میں تم سے آخری بار ملا
اور تم نے اپنا آخری خط
میرے سامنے جلا دیا
اور اس کی راکھ کو ایش ٹرے میں ڈال دیا
وہ خط تم نے
مجھے صبح ہی بھیجا تھا
تمہارا خیال تھا
وہ مجھے اگلے دن ملے گا
لیکن تمہاری شومی قسمت
وہ مجھے اسی سہ پہر مل گیا
اور میں بھاگا بھاگا تمہارے گھر آیا
مجھے ڈر تھا
میں دروازہ کھٹکھٹاتا رہوں گا
اور کوئی کھولنے والا نہ ہو گا
دروازہ توڑ کر اندر جاؤں گا تو
مجھے تمہاری لاش ملے گی
لیکن تم نے دروازہ کھولا
اور میری تسلی ہوئی
لیکن پھر
باتیں کرنے کے دوران
تم نے وہ خط
میری نگاہوں کے سامنے جلا دیا
اور اس کی راکھ ایش ٹرے میں پھینک دی
تمہارے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی
زہر خند مسکراہٹ
تم جانتی تھیں کہ میں
تمہیں چھوڑ کر جا چکا تھا
اور تمہاری رقیب کے ساتھ
ہمبستری کر چکا تھا
اسی بستر میں
جس بستر میں ہم دونوں نے
شب عروسی گزاری تھی
اگر مجھے وہ خط جلد نہ ملتا
اور میں تم سے نہ ملتا
تو مجھے اگلے دن خبر ملتی
کہ
تمہاری بیوی مر چکی ہے
۔ ۔

اس خط کر پڑھ کر سلویا پلاتھ ایک دفعہ پھر ڈپریشن کی وادی میں اتر گئیں۔ ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ سلویا پلاتھ علاج کی خاطر ہسپتال میں داخل ہوجائیں لیکن انہوں نے ہسپتال جانے سے انکار کر دیا۔ جب ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ اپنے گھر میں ایک نرس رکھ لیں جو ان کا خیال رکھیں تو وہ مان گئیں۔

جس صبح نرس نے نو بجے آنا تھا اس صبح نرس کے آنے سے پہلے انہوں نے بچوں کو علیحدہ کمرے میں سلایا۔ دروازہ بند کیا۔ دروازے پر گیلے تولیے رکھے تاکہ زہریلی گیس اندر نہ جا سکے اور انہوں نے باورچی خانے میں گیس کے چولھے کو جلایا اور اس چولھے میں سر ڈال دیا اور کاربن مونو آکسائڈ کی زہریلی گیس سے خود کشی کر لی۔

(میرے بعض دوستوں اور مریضوں نے مجھے بتایا کہ سلویا پلاتھ کی خودکشی کے بعد انگلستان میں گیس کے چولھے بنانے والی فیکٹری نے اس چولھے کی ساخت بدل دی ہے تا کہ اب کوئی اس میں سر ڈال کر خود کشی نہ کر سکے )

جب نرس آئی تو اسے سلویا پلاتھ نہیں ان کی لاش ملی۔
ورجینیا وولف اور سلویا پلاتھ دونوں لکھاریوں نے خود کشی کی۔
خود کشی کرتے وقت
ایک لکھاری اپنے شوہر سے شدید محبت کرتی تھیں
اور دوسری لکھاری شدید نفرت۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail