نواب رضا علی خان: انڈیا کی سابق شاہی ریاست رام پور کی ڈھائی ہزار کروڑ کی جائیداد کی شرعی تقسیم کا معاملہ 49 سال سے التوا میں

شہباز انور - بی بی سی ہندی کے لیے


انڈیا کی سب بڑی ریاست اُترپردیش کے ضلع رامپور کی ایک عدالت نے چھ دسمبر کو ریاست رامپور کے آخری نواب رضا علی خان کی جائیداد کی تقسیم سے متعلق ایک ’پارٹیشن سکیم‘ سپریم کورٹ کو ارسال کی ہے۔

تقسیم کی اس سکیم کے تحت نواب رضا علی خان کی 26 سو کروڑ سے زائد کی جائیداد کو شرعی قانون کے تحت نواب کے 16 ورثا میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اب سپریم کورٹ کو اس تجویز پر حتمی فیصلہ کرنا ہے۔ نواب رضا علی خان کے پوتے اور ان کے وارثوں میں سے ایک نواب کاظم علی کے وکیل سندیپ سکسینہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے 30 جولائی 2019 کو رامپور عدالت کو حکم دیا تھا کہ وہ شرعی قانون کے تحت اس معاملے کا فیصلہ کرے۔ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے نواب رضا علی خان کے بڑے بیٹے مرتضیٰ علی خان کے ورثا کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔‘

معاملہ کیا ہے؟

دراصل رامپور غیر منقسم انڈیا میں ایک ریاست ہوا کرتی تھی جس کے آخری حکمران نواب رضا علی خان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے متعلق سنہ 1972 سے تنازع جاری ہے۔ اس تنازع میں ایک طرف نواب مرتضیٰ علی خان کے صاحبزادے محمد علی خان، نواب رضا علی کے بڑے بیٹے اور بیٹی نگہت علی خان ہیں۔ دوسری طرف نواب رضا علی خان کے دو اور بیٹے ہیں، نواب ذوالفقار علی خان اور نواب عابد علی خان کے بچے اور چھ بہنیں۔

دوسرے فریق کا الزام ہے کہ نواب مرتضیٰ علی خان اور ان کے خاندان نے منقولہ جائیداد پر قبضہ کر لیا تھا جس میں نواب رضا علی خان کی پانچ غیر منقولہ جائیدادیں بھی شامل تھیں۔ اس کو چیلنج کرنے والی درخواست سنہ 1972 میں نواب رضا علی خان کی بڑی بیٹی کی بیٹی خورشید لقا بیگم طلعت فاطمہ کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔

اس درخواست میں عدالت سے مسلم پرسنل لا کے شرعی قانون کے تحت تمام ورثا میں جائیداد کی تقسیم کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

49 سال سے تنازع جاری ہے

نواب کاظم علی خان کے وکیل سندیپ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ’رامپور کے آخری نواب، نواب رضا علی خان کی رامپور کوٹھی خاص باغ، بے نظیر باغ، لکھی باغ، کنڈا اور نواب ریلوے سٹیشن میں پانچ جائیدادیں تھیں۔ یہ پانچ جائیدادیں نواب رضا علی خان کی تھیں۔ اور یہ ان کی ذاتی جائیدادیں تھیں۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب ملک آزاد ہوا اور تمام شاہی ریاستیں ملک میں ضم ہو گئیں تو اس میں رامپور کی شاہی ریاست بھی شامل تھی، اس موقع پر شاید نواب رضا علی خان نے یہ محسوس کیا ہو گا کہ ان کے پاس کیا بچے گا؟ تو پھر انھوں نے یہ پانچ جائیدادیں اپنے پاس رکھ لیں۔ سنہ 1966 میں نواب رضا علی کی وفات کے بعد ان جائیدادوں پر سنہ 1972 میں تقسیم کا دعویٰ دائر کیا گیا۔

یہ معاملہ رامپور ڈسٹرکٹ کورٹ کے ذریعے ہائی کورٹ پہنچا اور بعد میں سپریم کورٹ پہنچا۔ اس کے بعد 30 جولائی سنہ 2019 کو سپریم کورٹ نے رامپور کی ضلعی عدالت کو حکم دیا کہ یہ جائیداد مسلم پرسنل لا میں شریعت کے مطابق تقسیم کی جائے گی۔

سروے کے بعد جائیداد کی قیمت کا اندازہ لگایا گیا

نواب رضا علی خان کی ان پانچ جائیدادوں کا جائزہ لینے کے لیے ایک سروے ٹیم تشکیل دی گئی۔ اس سروے کی تکمیل میں تقریباً ڈیڑھ سال کا وقت لگا۔

سندیپ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ‘تقسیم کی سکیم کو نافذ کرنے کی عدالت کی ہدایت پر سروے ٹیم اور ایڈووکیٹ کمشنر نے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا جائزہ لینے کے بعد یہ رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ اس کے بعد 15 جولائی 2021 کو تقریباً 143 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ پر تمام فریقین کے ساتھ تبادلہ خیال کیا گیا۔ تقسیم کی مجوزہ سکیم پیش کی گئی اور اُن (فریقین) سے اعتراضات طلب کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیے

رام پور کے سٹرانگ روم کا خزانہ کہاں گیا

مسلمان حاکم کی خواہش کے باوجود ریاست حیدرآباد پاکستان کا حصہ کیوں نہ بن سکی

اعتراضات نمٹانے کے بعد تقسیم کا منصوبہ ضلعی عدالت نے تیار کیا۔ اس کی ایک کاپی ضلعی عدالت نے سپریم کورٹ کو بھیج دی ہے۔ اس سارے عمل میں تقریباً دو سال اور چار ماہ سے زیادہ کا وقت لگا۔

کون کون ورثا ہیں جن میں جائیداد تقسیم ہو گی؟

رامپور کی ریاست کے آخری حکمراں نواب رضا علی خان کے خاندان میں ان کی تین بیویاں، تین بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں۔

نواب رضا علی خان کے پوتے کاظم علی عرف نوید میاں کہتے ہیں: ‘ہمارے دادا نواب رضا علی خان کی تین بیویاں، رفعت زمانی بیگم، قیصر زمانی بیگم اور طلعت زمانی بیگم تھیں۔ ان کے تین بیٹے مرتضیٰ علی خان، ذوالفقار علی خان اور عابد علی خان تھے۔ چھ بیٹیوں میں سے پانچ ایک دادی سے تھیں، خورشید لقا بیگم، برجیس لقا بیگم، قمر لقا بیگم، اختر لقا بیگم اور ناہید لقا بیگم۔ سب سے چھوٹی پھوپھی کی دادی، مہرالنسا، طلعت زمانی کی بیٹی ہیں۔‘

نواب رضا علی خان کے بیٹوں کی اولاد میں نواب مرتضیٰ علی خان کے بیٹے محمد علی خان اور بیٹی نگہت علی خان ہیں جبکہ نواب ذوالفقار علی خان کے بچوں میں نواب کاظم علی عرف نوید میاں اور دو بیٹیاں سمن علی خان اور صبا دریز احمد ہیں۔ ان کے علاوہ نواب ذوالفقار کی اہلیہ اور سابق رکن پارلیمان بیگم نور بانو ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے نواب عابد علی خان کے بچوں میں سید رضا اینڈریوز علی خان اور سید ندیم علی خان ہیں جو اس وقت جرمنی میں رہتے ہیں۔ کل 16 ورثا میں اب جائیداد کی تقسیم ہو گی۔’

تاہم مرتضیٰ علی خان کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے محمد علی خان اور ان کی بیٹی نگہت علی خان اس جائیداد پر اپنا حق جتاتے رہے ہیں۔ اس خاندان کے یہ دونوں افراد اس وقت گوا اور دہلی میں مقیم ہیں۔

رامپور کورٹ کی تقسیم کی سکیم کے بارے میں سابق رکن اسمبلی بیگم نور بانو نے کہا کہ شریعت کے مطابق تقسیم کے حوالے سے ہمارے درمیان کوئی رنجش وغیرہ نہیں ہے، سب پرسکون انداز میں ہوا ہے۔ ہاں، خاندانی رنجشوں کی وجہ سے تاخیر ضرور ہوئی ہے اور اس میں تقریباً 49 سال لگ گئے ہیں، لیکن اب جلد ہی عدالت اس معاملے پر کارروائی کرتے ہوئے اسے حتمی شکل دے رہی ہے۔ ہم صرف اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

دراصل یہ پورا معاملہ نوابی دور کے خاتمے اور جمہوریہ ہند میں انضمام کے بعد جائیداد کی تقسیم کے قواعد میں فرق کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

نظام کے35 ملین پاؤنڈ میں سے ورثا اور انڈیا کو حصہ مل گیا

سیکس سکینڈل جس نے ہندوستان کو ہلا کر رکھ دیا

رام پور کے سینیئر وکیل گجیندر سنگھ کہتے ہیں: ’دیکھیے، نوابی دور میں یہ روایت تھی کہ بادشاہ کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا وارث گھر کا سب سے بڑا بیٹا ہوتا تھا۔ جہاں کوئی وارث نہیں ہوتا تھا وہاں انگریز کورٹ آف وارڈز کے تحت جائیداد کو قبضے میں لے لیتے تھے۔ لیکن جمہوریہ ہند میں ریاستوں کی انضمام کے بعد نواب یا بادشاہ بھی ایک عام شہری کی طرح قانون کے دائرے میں آ گئے۔‘

سروے رپورٹ کے مطابق رام پور میں نواب رضا علی خان کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی مالیت 2600 کروڑ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ مقدمے کے وکیل سندیپ سکسینہ کا کہنا ہے کہ ‘سروے رپورٹ میں منقولہ اور غیر منقولہ اثاثوں کی قیمت 2,600 سے 2,700 کروڑ روپے کے درمیان بتائی گئی ہے۔‘

نواب نوید میاں کا کہنا ہے کہ ‘یہ بات بالکل طے ہے کہ جو بھی نواب رضا علی خان کا جانشین ہے، جس میں ان کی تین بیویاں، چھ بیٹیاں، تین بیٹے ہیں، اسلامی شریعت کے مطابق جائیداد ورثا میں تقسیم کی جائے گی۔’

پاکستان کے سابق ایئر چیف مارشل عبدالرحیم خان کی اہلیہ بھی فریق

انڈیا کے سابق صدر فخرالدین علی احمد کی بہو صبا دریز احمد بھی رام پور کے نواب رضا علی خان کی تقسیم کی سکیم کے وارثوں میں شامل ہیں۔ صبا دریز نواب رضا علی خان کے بیٹے نواب ذوالفقار علی خان کی بیٹی ہیں۔ صبا دریز احمد کے شوہر دریز احمد جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔

دوسری جانب نواب رضا علی خان کی صاحبزادی مہرالنسا بھی فریق ہیں۔ ان کے شوہر پاکستان کے سابق ایئر چیف مارشل عبدالرحیم خان ہیں۔

تمام ورثا میں سے صرف نواب نوید میاں اور ان کی والدہ بیگم نور بانو رامپور میں رہتے ہیں۔

رامپور کی شان 205 کمروں پر مشتمل محل، جو 55 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے

امام باڑہ خاص باغ میں بنایا گیا محل رام پور کا افتخار سمجھا جاتا ہے۔ یہ نواب رضا علی خان کی جائیدادوں میں خاص ہے۔

نواب نوید میاں کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بڑی جائیداد ہے، یہاں جو محل ہے اسے 100 سال میں تین ٹکڑوں میں بنایا گیا تھا، اس محل کی تعمیر نواب حامد علی خان کے دور میں شروع ہوئی جو کہ نواب رضا علی کے دور میں پوری ہوئی تھی۔

یہ سنہ 1930 میں مکمل ہوا تھا۔ بہت سے لوگ یہاں سیلفی لینے اور سیر کے لیے آتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 205 کمروں کا یہ محل ایشیا کا پہلا مکمل ایئر کنڈیشنڈ محل تھا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32544 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments