سیاسی جماعتوں میں آمریت


جمہوریت میں اقتدار و اختیارات کسی فرد واحد یا ایک مخصوص طبقے کی بجائے عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جمہوریت بلا تفریق رنگ و نسل کے ہر فرد کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتی ہے اور جمہوری تقاضوں کے مطابق لائق افراد کو پارٹی کی قیادت کرنی ہوتی ہے ’مگر شومئی قسمت ایک عام آدمی کا اسمبلی تک پہنچنا، پارٹی کی قیادت کرنا دور کی بات‘ وطن عزیز میں تو پارٹی کے سینئر کارکنوں کو بھی دیوار سے لگا دیا جاتا ہے اور چند مخصوص افراد ہی بادشاہ بن کر نسل در نسل اقتدار کا تسلسل جاری رکھتے ہیں۔

جس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ نواز شریف تین مرتبہ جبکہ بینظیر بھٹو دو مرتبہ وزیراعظم رہے ہیں۔ پھر بھی اقتدار کی ہوس سے خود کو آزاد نہیں کر سکے۔ یہ لوگ مرنے کے بعد بھی حکمرانی اپنی اولادوں میں بانٹ کر پاکستانی عوام کو وراثتی غلام بنانا چاہتے ہیں۔ جیسے سابقہ ادوار میں بادشاہوں کو ہوا کرتی تھی۔ اس کے لئے اپنے جانشین میدان میں اتار دیے ہیں۔ نواز شریف لندن سے جبکہ آصف زرداری وینٹی لیٹر سے جلسوں کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ اب اہل وطن کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہیے کہ اقتدار کی ہبہ نامہ اپنے شہزادوں کے نام کرانے کے لیے عوام کو سڑکوں پر لایا جا رہا ہے۔

کیا نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں مریم نواز اور بلاول زرداری سے زیادہ لیاقت رکھنے والے تجربہ کار افراد موجود نہیں ہیں؟ ایک طرف نون لیگ میں مریم نواز شہزادی ہونے کے ناتے پارٹی کے بزرگ ترین ارکان پر ان کی اطاعت لازمی ہے۔ جبکہ دوسری جانب یوسف رضا گیلانی، قمر زمان کائرہ، اعتزاز حسن جیسے سینئر اور تجربہ کار کارکنوں کی موجودگی کے باوجود ناتجربہ کار بچوں کو قوم پر مسلط کرنا سراسر جمہوری اصولوں کی منافی ہے۔ یہ لوگ ناسمجھ، سیاسی بصیرت سے عاری اور سب سے بڑھ کر سیاسی طفل مکتب ہیں جن کو لیڈر بنا کر قوم پر غیر قانونی طور پر مسلط کیا گیا ہے۔

عمران خان نے اس موروثی سیاست کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ بظاہر عمران خان کے خاندان کا کوئی فرد یا ان کے وارثوں میں کوئی بھی سیاست میں نہیں ہے۔ مگر خود ان کی پارٹی میں بھی دوسری پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگ ہی ہیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری ہے۔ لہٰذا ارض پاک کی سیاست کو ان موروثی سیاست دانوں کے شکنجے سے آزادی کے لیے اور چند خاندانوں کی اجارہ داری کے خاتمے لے لیے ایسے قوانین متعارف کرائیں جائیں جس سے عام افراد کو آگے بڑھنے اور اقتدار تک رسائی کے یکساں مواقع فراہم ہوں۔ وگرنہ مغل امپائر اور موجودہ موروثی سیاست میں چنداں فرق نظر نہیں آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments