کیک پر “میری کرسمس” لکھنے سے انکار !


ایک خاتون پچھلے دنوں کراچی کی ایک مشہور بیکری میں کیک خریدنے گئیں- خاتون نے فرمائش کی کہ کیک پر Merry Christmas لکھ دیا جائے لیکن وہاں بیکری کے ملازم نے محترمہ کو منع کر دیا کہ یہ شرک والا کام وہ نہیں کر سکتا- سیالکوٹ واقعہ کے بعد خاتون نے بھی عافیت اسی میں جانی کہ وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے واپس گھر لوٹ گئیں-

کہنے کو تو یہ ایک چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن یہ مجموعی طور پر ہماری ذہنیت اور منافقت کی عکاسی کرتا ہے – آپ کرسمس مت منائیں لیکن ہمیں یہ حق کس نے دیا ہے کہ ہم دوسروں کو بھی نہ منانے دیں؟ آپ کا ایمان اور مذہب اپنی جگہ لیکن اگر ایک مسیحی یا غیر مسیحی شہری کیک پر “میری کرسمس ” لکھوانا چاہتا ہے تو اس میں آپ کی کون سی جنت جا رہی ہے؟

یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ ایک ہندو مٹھائی والے کے پاس جائیں اور اس کو کہیں کہ اس کیک پر عید مبارک لکھ دینا- ہر نماز میں لکم دینکم ولی دین کا مطلب کیا ہے، کبھی ہم نے سمجھنے کی کوشش کی؟ اس عیسائی خاتون کو کیک پر میری کرسمس نہ لکھ کر ، اب کیا ہم اس کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں؟ کیا ہمارے ملک میں اقلیتی برادری کے کوئی حقوق نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے جھنڈے میں سفید رنگ اقلیتوں کی نمائندگی نہیں کرتا؟ کیا ہم اتنی بھی رواداری کا مظاہرہ نہیں کر سکتے کہ کسی کے غم اور خوشی میں شریک ہو جائیں؟

نیوزی لینڈ کی غیر مسلم جیسنڈا آرڈن دوپٹہ اوڑھ لے تو ہم خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں- امریکہ، لندن، جاپان میں مسجد تعمیر ہو تو سینہ یوں چوڑا ہو جاتا ہے لیکن نہیں اسلام آباد میں مندر نہیں بن سکتا- ان کافر ملکوں نے تو ہمیں ائرپورٹ تک میں نماز پڑھنے کی جگہیں بنا کر دی ہیں- جرمنی کی مسیحی انجیلا مرکل نے شامی مسلمان مہاجرین کے لئے جرمنی کی سرحدیں تک کھول دی، عرب ممالک نے کتنے شامی مسلمانوں کے لئے اپنی سرحدیں کھولی؟
انجیلا مرکل نے صحیح سوال اٹھایا تھا کہ سعودی عرب نے کتنے شامی مسلمانوں کو اپنایا؟

جاوید احمد غامدی صاحب نے اس کرسمس کے موضوع پر بہت دلیل سے اسی نقطہ نظر کی طرف توجہ دلائی ہے جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں- غامدی صاحب بجا فرماتے ہیں کہ اگر ہم کرسمس اور دوسرے مذاہب کی خوشیوں اور غم میں شریک نہیں ہوں گے تو دعوت کا دروازہ کیسے کھلے گا- ہم کس طرح ان لوگوں کو یہ پیغام دیں گے اسلام رواداری ، برداشت اور محبت کا درس دیتا ہے-

یقین مانئے کہ کیک پر میری کرسمس لکھنا، کسی عیسائی بھائی نے آپ کو میری کرسمس کہہ دیا اور آپ نے جواب کے طور پر اس کو اس کا دل رکھنے کے لئے میری کرسمس کہہ دیا، گورے پڑوسی نے کرسمس پر آپ کو دعوت پر بلا لیا اور آپ نے اگر وہاں کھانا کھا لیا تو اطمینان رکھیں کہ آپ ابھی بھی مسلمان ہیں اور اسی ایک خدا کی عبادت کرتے ہیں- آپ کے کسی بھی ان کاموں سے خدا یا آپ کے ایمان میں کوئی فرق نہیں آیا- ہاں البتہ ان کاموں کو کر کے آپ ایک اچھا انسان، پڑوسی، شہری اور مسلمان بننے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں اور خدا کو یہی تو مقصود ہے!

اور اگر اوپر سب کچھ پڑھ کر آپ اس گمان میں ہیں کہ اس بیکری والے نے صحیح کیا تو پھر آپ ان غیر مسلم اور شرک کرنے والوں کے بنائے ہوئے جہازوں میں بیٹھ کر حج اور عمرہ کرنے مت جائیں- آپ بلڈ پریشر، ذیابیطس، دل کی بیماری، کرونا ویکسین اور تمام اینٹی بائیوٹکس کا استعمال فوری طور پر ترک کر دیں کیوں کہ یہ تمام دوائیاں ان ہی شرک کرنے والوں نے بنائی ہیں-

آپ اپنے ایکسرے اور سی ٹی اسکین بھی نہ کروائیں- آپ موبائل فون، کمپیوٹر، ٹی وی، انٹرنیٹ، بجلی، بلب کا استعمال بھی ترک کر دیں- پھر بھلے سے کیک پر مت لکھنا ” میری کرسمس”-

ہمیں برداشت، امن، محبت اور انسان دوستی کی طرف لوٹنا ہو گا- نئے سال کی آمد پر یہ عہد کریں کہ صرف کسی کے عقیدے کی وجہ سے ہم کسی سے نفرت نہیں کریں گے- آئیے سوچ بدلیں-

چاند وہی سورج بھی وہی، سال نیا پھر کیونکر ہو
افکار وہی جذبات وہی، انداز نیا پھر کیونکر ہو
ماضی سے کچھ سیکھو گے، تو حال نیا ہو جاۓ گا
اندازِ فکر جب بدلو گے، تب سال نیا ہو جاۓ گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments