اکرام اللہ کا ناول ”گرگ شب“: نفسیاتی و فنی مطالعہ


سب سے پہلے ہم نفسیات و فن پر مختصر بات کریں گے، نفسیات انگریزی لفظ (Psycholgy) کا ترجمہ ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی روح کے بارے میں علم، گو عام طور پر نفسیات کو جدید ترین علوم میں شمار کیا جاتا ہے مگر ایسا نہیں کیونکہ نفسیات، خود انسان جتنی ہی قدیم ہے۔ آج کی مانند قدیم زمانہ کا انسان بھی اعصابی الجھنوں، دماغی خلل اور شخصیت کے بحران کا شکار تھا۔ انسانی تاریخ کے ہر عہد میں انسان اعصابی اور دماغی خلل میں مبتلا رہا ہے۔ انیسویں صدی میں اعصابی خلل اور دماغی امراض کے علمی مطالعہ کا باقاعدہ آغاز ہوا، سگمنڈ فرائیڈ، ژونگ اور ایڈلر، ان لوگوں کے افکار و تصورات نے جدید نفسیات کی شاندار عمارت کے لیے بنیادیں مہیا کیں۔

اب ہم فن پر تھوڑی بات کرتے ہیں کہ فن کیا ہوتا ہے؟ کسی بھی موضوعی پیشکش میں معاون طریقے کار کا نام ”فن“ ہے۔ فن، اسلوب کو وضع کرتا ہے، اور اسلوب، فن کی مہارت کا پتا دیتا ہے۔ فن کا تعلق زبان سے برابر کا ہے، کسی بھی فن پارے میں فن بذریعہ زبان اس کے اسلوب میں ظاہر ہوتا ہے، زبان کا فصاحت سے بھرپور ہونا فن کے لیے ناگزیر ہے، فن لفظوں کا تقاضا کرتا ہے، فن، محاورہ و روزمرہ کی متقاضی لیے ہوتا ہے کسی بھی فن پارے کی بقا انہی مذکورہ چیزوں سے قائم رہتی ہے۔

نفسیات کے اثرات دوسرے علوم کی طرح ادب پر بھی پڑے اور کئی لکھاریوں کی لکھت کو نفسیاتی تناظر میں سمجھا جانے لگا۔ اب ہم یہاں ناول نگار اکرام اللہ کے فن کا تجزیاتی مطالعہ، نفسیاتی تناظر میں ان کے ناول ”گرگ شب“ کو سامنے رکھ کر کریں گے۔

بنجمن فرینکلن نے ناول گرگ شب کے مرکزی کردار کے لیے ہی شاید کہا تھا کہ ”کچھ لوگ پچیس سال کی عمر میں مر جاتے ہیں مگر اس وقت تک دفن نہیں ہو پاتے جب تک کہ وہ پچھتر برس کے نہ ہو جائیں۔“

اس ناول کا مرکزی کردار بھی کہیں بچپن میں اس وقت مر جاتا ہے جب سماج، رائج اقدار کی بنیاد پر اس کے وجود کو نا جائز ثابت کر دیتا ہے۔ یہ لمحہ اس کی زندگی میں ایک ایسا گہرا شگاف ڈال دیتا ہے جسے وہ ساری عمر اپنے خیال و عمل سے بھرنے کی سعی لاحاصل کرتا رہتا ہے۔

وہ اندر سے کھوکھلا ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر ایک عجب بے ثباتی کے گماں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسے اپنا وجود معاشرے پر بار دکھائی دینے لگتا ہے۔ وہ سماج کی ہول ناک و دہشت ناک نظروں سے بچنے کے لیے کئی چیزوں کے آسرے لینے کے جتن کرتا ہے۔

وہ جنسی شگاف کو بھرنے اور اپنی تنہائی کو معدوم کرنے کے لیے شراب کا آسرا بھی لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس سے شاید اس پر لگا نا جائز شناخت کا کلنک دھل جائے گا، اس جرات بادہ پر سماج کی کھوکھلی مگر قدری کلنک گراں ہے۔

اس کی آسائشات زندگی اور اس کا کاروبار بھی اس کی نا جائز شناخت کا کچھ نہ بگاڑ سکے مزید ستم دیکھیے یہ نا جائز (حرام) مرض اس کے نفسیاتی تعاقب میں مسلسل سرگرداں رہتا ہے۔

یہاں تک کہ اسے ڈراؤنے خواب دکھائی دینے لگتے ہیں۔ جس کی تعبیریں بھی اس کی سمجھ سے باہر ہیں۔ وہ مسلسل عجب کش مکش میں مبتلا نظر آتا ہے۔ جنسی جذبات کی انگیخت بھی شاید اس کے کنٹرول میں نہیں۔

کہیں آخر میں جب اس کے کمرے میں مکھیاں داخل ہوتی ہیں تو وہ سب مکھیوں کو نکالنے میں کام یاب ہو جاتا ہے۔ بالآخر ایک مکھی رہ جاتی ہے اسے بھی جیسے تیسے وہ مار دیتا ہے لیکن سماج جو مکھی اس کے دماغ میں گھسیڑ دیتا ہے اسے نکالنے میں وہ ہمیشہ نا کام رہتا ہے۔ اس مکھی کا خروج خود اس کے اپنے وجود فنا سے کہیں مشروط ہو چکا ہوتا ہے۔

محمد سلیم الرحمٰن صاحب نے اس ناول کے بارے میں کمال کا تبصرہ کیا ہے۔ لگے ہاتھوں اس میں سے ایک مختصر پیرا یہاں بھی شیئر کرتا چلوں، لکھتے ہیں :

”اردو میں لکھے جانے والے مختصر ناولوں میں گرگ شب منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ اسے پڑھنا خوش گوار تجربہ نہ سہی۔ زندگی میں خوش گوار لمحے کم ہی آتے ہیں۔

اکرام اللہ کا ناول ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم سب میں ہم دردی اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی کتنی کمی ہے اور دوسرے لوگ عذاب کیوں ثابت ہوتے ہیں۔ دوزخ بھی ہو گا، لیکن ناول کے مرکزی کردار نے تو زندگی ہی میں دوزخ کا مزہ چکھ لیا اور غضب یہ کہ گناہ گار بھی نہیں۔ ”

اگر ہم انسانی تاریخ کے آفرینش سے بات شروع کریں تو انسانی رشتوں کے حوالہ سے نا جائز اولاد کا تصور بالکل ابتدا میں ہی رد ہو جاتا ہے کیوں کہ ابتدائی انسان جس کی نسلی افزائش، جنسی تسکین کی بنیاد پہ زیادہ ہوئی نہ کہ سماجی ضروریات و باضابطہ رشتوں کی بنا پر۔

دوسرا ابتدائی انسان اپنی جنسی تسکین اور افزائش نسل، انسانی رشتوں کی بنیاد پہ نہیں کرتا تھا بل کہ اس حوالہ سے ابتدائی انسان رشتوں کی حدود و قیود سے آزاد تھا۔ بعد از جب کئی انسانی اقدار وجود میں آئیں تو وہاں انسانی رشتوں کے حوالے سے بھی قدروں کو قائم کیا گیا۔

پھر ان اقدار کی با ضابطہ پاس داری کا عمل شروع ہوا لیکن اس میں بھی ایک فطری تغیر وقوع پذیر رہا جو کہ معاصر سماجی تقاضوں اور انسانی ضرورت کے تحت جاری رہا، جو کہ میں سمجھتا ہوں فطری تھا۔

مگر انسان کے نا جائز ہونے کا تصور، مبادی انسانی تاریخ کے تناظر میں ہی رد ہو جاتا ہے کیوں کہ قدریں تو انسان ہی قائم کرتے ہیں اور ہر دور میں ضرورت وقت کے تحت انسانی اقدار میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں یا کی جاتی رہی ہیں۔

بلکہ یہاں غور کریں تو انسانی رشتوں کی اقدار کے حوالہ سے انسانی جبلت کئی چیزوں کے تصور کو مغالطے کی سطح پہ لے آتی ہے اور پھر وہاں نا جائز اولاد کا تصور بھی ایک سماجی مغالطے سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔

اب موجودہ دور میں جہاں سائنس اس قدر آگے بڑھ چکی ہے اور مسلسل کئی چیزیں تبدیل ہو رہی ہیں، وہاں ایک دفعہ پھر انسانی اقدار بھی بڑی تیزی سے بدلتی جا رہی ہیں اور کافی حد تک بدل بھی چکی ہیں۔

تو اس صورت حال میں، میں سمجھتا ہوں کہ نا جائز اولاد کے موہوم تصور کو بھی ایک سماجی مغالطہ قرار دیتے ہوئے بدل دینا چاہیے۔

اس ناول میں جملوں کی بنت اس طور کمال کی بنی گئی ہے کہ اکثر جملوں کے پس منظر اور پیش منظر کو شان دار محاوراتی مثالوں سے واضح کیا گیا ہے کہ جس سے محاکات کا تصور دماغ میں اس طور سے گھوم جاتا ہے کہ قاری تھوڑی دیر کے لیے اسی فضا میں محو حیرت ہو جاتا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ اس ناول میں دیہی سماج کی عکاسی بھی نفسیاتی تناظر میں اس خوب مرقع انداز میں کی گئی ہے کہ ناول نگار پر سماج و ماحول کا لفظوں راہیں مصور ہونے کا یقین ہونے لگتا ہے۔

اکرام اللہ کے اس ناول کو فنی حوالہ سے ایک عمدہ اور کامیاب ناول قرار دوں گا اور ساتھ ہی ایک دفعہ پھر ناول کے مرکزی کردار کے حوالے سے کہوں گا کہ اسے ناول نگار نے نفسیاتی تناظر میں بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments