سسکیوں کی گونج میں زندگی مسکرائی ہے


زندگی کے کچھ لمحے، کچھ پل، کچھ گھڑیاں آپ کی ساری زندگی کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ جب انسان اپنے آپ سے یہ سوال کرے کہ اس کا مقصد حیات کیا ہے؟ پھر اس کا جواب بھی مل جائے تو پھر اس سے زیادہ خوشی کا عالم اور کیا ہو گا؟ مجھے بھی اس بات کا جواب ملا۔

کبھی یہ ساعتیں آپ کی زندگی کا رخ بدل دیتی ہیں سوچیں ذرا آپ کے زندگی کچھ لمحات کسی کو زندگی دے جائیں تو آپ کو کیسا محسوس ہو گا۔

میں انور مسعود کی بیٹی ہوں اسی وجہ سے ان کی کچھ عادات ان سے ملتی ہیں۔ بس ابو کی نظر میں انسان اچھا ہونا چاہیے۔ کون کس عہدے پر ہے، بے شک دنیا اس کے آگے جھکتی ہو ابو کو کچھ خبر نہیں اور نہ فرق پڑتا ہے۔ یہ ہی عادت مجھ میں بھی آئی ہے۔ کون کیا کرتا ہے؟ کس مرتبے پر فائز ہے؟ مجھے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ یقین جانیے اگر مجھے کوئی بتائے بھی نجانے اس وقت دماغ کا سوئچ ایسا آف ہوتا ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں رہتا کہ کس کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ اگر وہ انسان اچھا ہے تو پھر وہ مجھے یاد رہے گا۔

کچھ برس قبل ایک لٹریری فیسٹیول میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ دور سے کرسیاں پھلانگتے ہوئے ہماری جانب آئے۔ بڑے ادب سے سلام کیا اور کچھ اپنے کام کے بارے میں مجھے بتایا۔ ہال میں بہت شور تھا اس لیے مجھے ان کی کچھ بات سمجھ آئی اور کچھ نہیں۔ مگر میں ہر بات پر ایسے سر دھنتی رہی جیسے سب سمجھ آ گئی ہے۔ مجھے جو سمجھ آیا وہ یہ تھا کہ وہ کوئی سرکاری ملازم ہیں۔ کیا کام کرتے ہیں کس عہدے پر ہے سب دماغ نے ڈیلیٹ کر دیا۔ یہاں تک کہ شور میں ان کا نام بھی درست سمجھ نہیں آیا۔ بس یہ بات سمجھ آئی کہ میرا لکھا خط ”خواجہ سرا کا مرنے کے بعد اپنی ماں کو خط“ کو پڑھنے کے بعد وہ اس کوشش میں لگ گئے ہیں کہ ان بچوں کے لیے بورڈنگ ہاؤس بنایا جائے۔ تاکہ کہ ان کے سروں پر چھت ہو۔

بس یہ بات میرے دل کو لگی کہ ان بچوں کے لیے اب لوگ کچھ کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ میں دل ہی دل میں بڑے خوش ہوئی۔ میں نے اپنے کچھ قریبی جاننے والوں کو بتایا تو انہوں نے نام اور ان کا عہدہ پوچھا جس کا جواب تھا وہ تو مجھے یاد نہیں۔ ظاہر ہے ان کا جواب آگے سے یہ تھا کہ کوئی ویسے ہی آپ کو الو بنا رہا ہے۔ میں بھی شرمندہ سی ہو گئی۔ پھر میں یہ سوچتی رہی کہ جو مجھے سمجھ آیا وہ واقعی سچ ہوا تو یہ میری خوش نصیبی ہوگی۔ جو میں لکھ کر کہنا چاہتی تھی، اس پر لوگ سوچ رہے ہیں۔

بچپن سے ابو کا کلام سنا۔ پورے کلام سے جو سبق سیکھا ہے وہ یہ کہ لکھتے ہوئے تین باتوں کا دھیان رکھو۔ نمبر ایک اگر آپ مزاح لکھ رہے ہو تو پڑھنے والے کے لبوں پر مسکان آئے۔ اور اگر آپ کسی کا دکھ بیان کر رہے ہو تو پڑھنے والے کی آنکھ نم ہو۔ لکھاری کے لیے سب سے مشکل کام یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر سے لوگوں کی سوچ بدلے یا پڑھنے والیوں کو کم از کم سوچنے پر مجبور ضرور کرے۔ میں اپنے رب کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ میری ایک چھوٹی سی تحریر نے لوگوں کی آنکھیں نم بھی کی اور ان کی سوچ بھی بدلی۔ ایسا ہر گز نہیں کہ میں اپنے آپ کو کوئی بہت بڑی لکھاری سمجھتی ہوں۔ نہ تو میری پاس بڑی بڑی ڈگریاں ہیں، نہ ہی کسی قابلیت کے دعوے، نہ بھاری بھرکم الفاظ سے دوسروں کو متاثر کرنے کا ہنر۔ بس جو چیز میرے پاس ہے وہ یہ کہ میں لوگوں کے دکھ کو محسوس کر کے الفاظ میں ڈھال دیتی ہوں۔ میرا اصول ہے کہ اگر کسی کا درد لکھ رہی ہوں تو اس کو اس وقت تک شائع ہونے نہیں دیتی جب تک اس کو پڑھتے ہوئے میری اپنی آنکھیں نم نہ ہو جائیں۔

میں چند سال قبل مکمل طور پر گھریلو خاتون تھی جس نے کبھی گھر اور گھر والوں کے طواف کے علاوہ کبھی کچھ سوچا ہی نہیں تھا۔ (ایسا ہرگز نہیں تھا کہ گھر والوں کی طرف سے کوئی پابندی تھی ) پھر لکھنا شروع کیا میری خوش نصیبی کہ جو لکھتی ہوں اس کو لوگ محسوس بھی کرتے ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ میرے لیے یہ بات باعث خوشی ہے کہ میری ایک چھوٹی سی تحریر تحریک کی شکل اختیار کرتی ہے۔ کچھ لوگ عملی طور پر خواجہ سرا کی بہتری کے لیے کچھ قدم اٹھاتے ہیں جس کا سہرا احتشام انور کے سر جاتا ہے۔ احتشام انور کون؟ وہ ہی جن کا نام تو میں بھول گئی تھی مگر کام یاد رہا۔ ان کی تلاش میں میں نے

فیس بک پر اسٹیٹس لگا کہ میرے فیس بک فرینڈ میں اگر وہ صاحب ہیں جو خواجہ سرا کے لیے بورڈنگ ہاؤس بنا چاہتے ہیں تو مجھ سے رابطہ کریں۔ کچھ ہی دیر میں ان کا پیغام موصول ہوتا ہے۔ جس میں انہوں نے اپنا نام احتشام انور بتایا۔ انہوں نے پھر اپنی بات کو دہرایا۔ دل پھر خوشی سے جھوما۔

وہ واحد شخص تھے جو حکومتی سطح پر جا کر ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ پھر خیر چار سال بیت گئے۔ ایک روز موبائل کی گھنٹی بجتی ہے احتشام انور کا نام آویزاں ہوتا ہے۔ خوشی سے بھر پور آواز دوسری جانب سے سنائی دیتی ہے احتشام کی آواز۔ آواز میں تھوڑی سی کپکپاہٹ محسوس ہوتی جو کسی بہت بڑی خوشخبری کو بتانے سے پہلے کسی کے احساسات کو بیان کرتی ہے۔ کہنے لگے کہ ”میں نے آپ کو ایک بہت بڑی خوشخبری دینی ہے“ میں بولی جی فرمائیے۔ کہنے لگے ”کہ جو بات آپ کو بتانے جا رہا ہوں اس بات کی خوشی میرے بعد آپ کو ہو گئی۔“ میں بھی ہمہ تن گوش ہو گئی اور بڑی بے تابی سے پوچھا کہ ایسی کیا بات ہے؟

احتشام نے بتایا کہ وہ بورڈنگ ہاؤس تو نہیں بنوا سکے کیونکہ ان کا تبادلہ ہو گیا تھا۔ لیکن انہوں نے انہی بچوں کے لیے ملتان میں ایک سکول بنایا ہے۔ جس میں اب بہت سے بچے زیر تعلیم ہیں۔ بس یہ سننے کی دیر تھی کہ میری آنکھوں سے آنسو بہتے چلے گئے ہم دونوں ایک دوسرے کو ایسے مبارک دے رہے تھے کہ جیسے بچے اپنی کسی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ میں بار بار ان کی ہمت داد دے رہی تھی کہ پچھتر برس بعد کسی کو ان کے لیے کچھ کرنے کا خیال آیا۔ ان کو وہ بنیادی ضرورت دی گئی جو کہ ہر بچے کا حق ہے۔ میں نے تو بس لکھا اس پر عملی قدم احتشام اور ان کی پوری ٹیم نے اٹھایا۔ ایسا نہیں کہ انہوں نے سوچا اور ادھر عملی قدم اٹھا لیا گیا۔ یہ کام جو ہم پر فرض تھا اس قرض کو ادا کرنے میں جگہ جگہ بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے کڑوی کسیلی باتیں سنا پڑی۔ بہت سے چبھتی نظریں راہ میں حائل ہوئیں۔ مگر جب آپ کسی کام کی ٹھان لیں تو پھر لوگ آپ سے ملتے چلے جاتے ہیں قدم سے قدم ملاتے ہیں۔

اس کے کچھ عرصے کے بعد مجھے انہی بچوں کے سکول میں مہمان کے طور پر دعوت دی گئی۔ مجھے کہیں جانا بہت ہی مشکل لگتا ہے مگر یہاں جانے پر میں فوراً تیار ہو گئی۔

میں اور میرا جگر گوشہ عرصام ملتان کے سفر کے لیے روانہ ہوئے۔ صبح ساڑھے دس بجے سکول پہنچے۔ بہت سے بچے مجھے آ کر مل رہے تھے۔ وہ مجھے یہ کہہ رہے تھے کہ میڈم آپ نے ہمارے لیے پہلا قدم اٹھایا تھا آپ نے لکھ کر لوگوں کی توجہ ہمارے مسائل کی طرف دلوائی۔ میں اس بات سے نادم تھی کہ میں نے کتنی دیر سے ان کے بارے میں سوچا۔ تقریب میں میزبانی کے فرائض ٹرانس جینڈر بچوں نے بہت خوبی سے سر انجام دیے۔ ملی نغمے اور ٹیبلو بھی پیش کیا گیا۔ اس تقریب میں علیشاہ نامی ٹرانس جینڈر نے میری تحریر کو پڑھا۔ کیا عجب اتفاق تھا کہ میں نے اپنی تحریر میں خواجہ سرا کا فرضی نام بھی علیشاہ ہی رکھا تھا۔ جوں جوں خط پڑھا گیا ہال میں سسکیوں کی آواز میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شاید ہی ہال میں ایسا شخص ہو جس کی آنکھیں نم نہ ہوں۔ میں نے ابو کی امبڑی سنتے ہال میں لوگوں کی سسکیاں سن رکھی تھیں۔ اس دن اس بات پر مہر لگ گئی کہ اولاد اپنے والدین سے بہت کچھ سیکھتی ہے۔

ابھی علیشاہ اسٹیج سے نیچے آئی تو مجھے دعوت دے دی گئی میرے میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی صرف سسکیاں تھیں! بس جو کہا اس کا لب لباب یہ تھا کہ مجھ سے لکھنے میں بہت دیر ہو گئی۔ اب ان لوگوں کا ذکر جو اس کام کو آ گئے پڑھانے کا عظم رکھتے ہیں۔ یہاں ساری معلومات ہم نے احتشام صاحب سے درخواست کر کے وائس میسج پر منگوائی تاکہ مجھے یاد رہے ورنہ کچھ چیزیں دماغ سے ڈیلیٹ ہو جانا مجھے اپنے لیے بہت فطری سا لگتا ہے۔ احتشام صاحب  ڈپٹی کمشنر بہاول پور سے لے کر سیکرٹری ایجوکیشن جنوبی پنجاب بننے تک اپنے ارادے پر ڈٹے رہے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سوچ فرد واحد کی تھی مگر عملی شکل دینے کے لیے پوری ٹیم کی بھرپور کاوش ہے۔ جو تعریف اور تحسین کے قابل ہے۔

اور جو لوگ اچھے کام کر رہے ہیں ان کا آپ کو بھی علم ہونا چاہیے۔ بہتری کی جو شمع روشن ہوئی ہے اس میں لوگ کتنا بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہیں ہیں۔ اس تقریب میں ڈی جی نادرا ملتان میجر ریٹائر عمران علی خان کو بھی دعوت دی گئی تھی، ان کی ایک بات سن کر دل پھر بھر آیا جب انہوں نے کہا کہ ”آج کی اس تقریب کے بعد میں ان پر کبھی بھی ہنسوں گا نہیں، ان بچوں کے لیے جو ممکن ہو سکا وہ کریں گے۔ نادرا میں ان کو مزید نوکریاں دیں گے“۔ ثاقب صاحب اخوت فاونڈیشن کے صدر اگلے سال دس دسمبر میں ان کے لیے کالج کا افتتاح کریں گے جہاں پر ان کو رہائش بھی دی جائے گی تاکہ روٹی کے لیے ان سے لوگ غلط کام نہ کروائیں۔

دیکھئے بس ایک قدم اٹھانے کی دیر تھی کہ پنجاب کے سکول ایجوکیشن منسٹر مراد راس صاحب نے اسی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کا بیڑا اٹھا لیا ہے ان کی سرپرستی میں اگلا سکول بہت جلد لاہور میں کھل رہا ہے۔ ہماری دوست ڈاکٹر زری اشرف ذاتی طور پر دسمبر کی چھٹیوں کے بعد ملتان میں ان کے لیے فری میڈیکل کیمپ لگائیں گی اور اپنے ہسپتال رحمت رحمن ہسپتال گل گشت ملتان خواجہ سراؤں کے لیے (شام پانچ سے سات) فری ڈسپنسری مہیا کریں گی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ انہیں میڈیکل سہولیات کی بھی کمی کا سامنا ہے۔ اگر ہر سرکاری ہسپتال میں ان کے لیے دس بارہ بیڈ کا وارڈ بنا دیا جائے تو علیشاہ کی طرح زنانہ مردانہ وارڈ میں انہیں دھکے نہیں دیے جائیں گے۔ ان کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ان کی ذہنی صحت کا خیال بھی رکھنا ہو گا۔ کچھ ماہرین نفسیات بھی ان کے لیے خوش دلی سے کرنے کو تیار ہیں۔

یقین جانیے جب سے میں واپس لوٹی ہوں خوشی کا وہ عام ہے بیان سے باہر ہے۔ میں نے اس ہال میں سسکیوں کی گونج میں زندگی مسکراتے دیکھی ہے۔ ٹرانس جینڈر کی زندگی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے جیسے جلتے انگاروں پر ننگے پاؤں چلنا ہو۔ ہم انہیں تمام عمر قید با مشقت و اذیت دیتے ہیں۔ گھر سے بے گھر ہونے کے عذاب دے کر ہم گہری نیند سو جاتے ہیں۔ ہم انہیں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو خوشیاں بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہم انہیں نچا نچا کر خوشی محسوس کرتے ہیں جن کی زندگی ناچتی ناچتی دم توڑ دیتی ہے۔ ہم انہیں اس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں وہ اپنوں کے پیار کو ترستے ہیں۔ ہم گناہ کبیرہ ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ ہم انہیں اپنوں سے جدا کرتے ہیں جو آپ کے غیر ہوتے ہوئے بھی آپ کے گھر آپ کی اولاد کی خوشیاں منانے دوڑے چلے آتے ہیں۔ ہم انہیں ستاتے ہیں جو زمانے بھر کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں۔ گزرے وقت کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔ بس آپ سے اتنی منت ہے کہ ابھی سے ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیجئے جو زمانے کے ستائے ہوئے ہیں۔ یہ کام اپنے گھر سے کیجئے

میرے گھر ایک لڑکا کام کرتا ہے میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے گاؤں میں خواجہ سرا ہیں؟ کیا لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں؟ تو اس کا جواب تھا ”باجی ظاہری سی بات ہے“ بس یہ وہ جواب ہے جس کی وجہ سے میں ان لوگوں کے لیے لکھتی ہوں۔

ہم کیسے اپنے رب کی بنائی ہوئی مخلوق پر کوئی کمی کوئی خامی یا کوئی عیب تلاش کر سکتے۔ جب آپ کا اور میرا یقین اپنے رب پر ہے تو پھر کیوں اس کی بنائی ہوئی مخلوق پر زندگی تنگ کرتے ہیں؟ کیوں ان کی زندگی سے ہر خوشی چھین لیتے ہیں؟ اور کچھ نہ سہی اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں کہ ان کو انسان ہونے کے حق دلائیں۔ اپنے گھروں سے ہی اس کا آغاز کیجئے۔ ورنہ روز قیامت ہمارا گریبان ہو گا اور ان کا ہاتھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments