مغل سلطنت کا زوال


انفارمیشن منسٹر، چوہدری فواد صاحب نے کچھ دن پہلے فخریہ انداز میں بتایا کہ پی ٹی وی مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر پر فلم بنانے جا رہا ہے تو دل میں مغل سلطنت کے زوال کی وجہ جاننے کا شوق جاگا۔ پہلے تو پاسبان عقل حیران ہوا پھر کھلکھلا کر ہنسا اور میرا ساتھ دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ خیر میں بھی ارادوں کا پختہ صرف اور صرف غیر اہم سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں ہی ٹھہرا۔ اشتیاق میں کتابیں چھان ماریں مگر کہیں کوئی معقول وجہ میری جستجو کی تشنگی کم نہ کر سکی۔ سو اپنی کم علمی پر بھروسا ہی پھر سے میرا آخری انتخاب ٹھہرا۔ جب آنکھیں ظاہری سے ہٹ کر باطنی علم کی طرف لگیں تو کئی منظر آنکھوں کے سامنے کسی ماہر مصور کی تصویر کا مقابلہ کرنے کو بے تاب نظر آئے، اور رفتہ رفتہ مغلوں کے زوال کا راز آشکار ہوتا گیا۔

سب سے پہلا سوال جو تشنہ لب لیے میرے سامنے تھا وہ یہ تھا کہ مغل ہمیشہ قصوں میں کہانیوں میں، تاریخ کے ورقوں میں جنگجو مشہور رہے ہیں اور ظاہر ہے جنگجو مرد ہی مشہور ہیں، عورتوں کا تذکرہ کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، مگر مغلوں نے جینڈر بیلنس کرنے کے لیے ایک انوکھی ترکیب کا سہارا لیا، اگر تھوڑی دیر کو مغلوں سے جذباتی لگاؤ کو پرے رکھ کر غور کیا جائے تو بڑی نوکدار مونچھوں اور کنڈی نما قلموں کے سوا مغل بادشاہوں میں کوئی مردانہ وضع قطع نظر نہیں آتی بلکہ تھوڑی دیر کو اگر مغل بادشاہوں کی گردن کے اوپری حصے کو یکسر نظرانداز کر دیا جائے تو حلیہ کچھ تماش بین طبیعتوں کے لیے نہایت قابل دید ہو گا۔

پیروں سے شروع کرتے ہیں تو چمکیلے کھسے جن کے منہ کو دیکھ کر کسی توری کی بیل کی نکلی ہوئی شاخ کا گمان ہوتا ہے ایک عجیب قسم کی نسوانیت اپنے اندر سموئے ہوئے ہے بلکہ آج کے دور میں بھی اگر کسی پر وجاہت مرد کو جامہ وار کی فراک اور کنڈل والا چمکیلا کھسہ پہنا دیا جائے تو چال میں اک نازکی اور نغمگی نا چاہتے ہوئے بھی شامل ہو جائے گی۔

مورخین بھی نہ جانے کن سنی سنائی باتوں پر تکیہ کر کے مغلوں کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست کا ذمہ دار سازشی عناصر اور غداروں کو ٹھہراتے ہیں حالانکہ اگر کسی جنگی ماہر سے پوچھا جائے بلکہ اس کام کے لیے جنگی ماہر ہونا ضروری نہیں بلکہ کسی محلے کے لڑاکا صفت بچے سے بھی پوچھا جائے کہ بیٹا اگر ایک فوج کھسے پہن کر جنگ کرنے جائے اور مخالف فوج بوٹ پہن کر آئے تو جیت کس کی ہو گی؟ تو یقیناً جواب بوٹوں والوں کے حق میں ہو گا۔

اور خیر بیشتر پاکستانی جو اب بھی مغل دور کو اپنی برتری کی یادگار تصویر سمجھے سینے سے لگائے ہوئے ہیں، بوٹوں والوں کی طاقت، اختیار اور برتری سے خوب واقف ہیں۔ انگریز جنہوں نے بوٹ کی طاقت کو برصغیر میں متعارف کروایا ان کا مغلوں کو زیر کرنا اب سمجھ میں آیا ہے۔ اسی لیے تو باٹا برانڈ مشہور ہوا مگر کھسے کا کوئی برانڈ سننے میں نہیں آیا، قدم ہی مضبوطی سے نہ جمیں تو حکومتیں قائم رکھنا ناممکن ہوتا ہے۔

ذرا اب ذکر ہو جائے پیروں سے اوپر کا تو آپ کو مغل بادشاہوں کی ٹانگیں چست ریشمی پاجامے میں دم گھٹتی دکھائی دیں گی۔ ریشمی پاجامے اور کھسے کا امتزاج فوراً خیال کو انار کلی یا امراؤ جان ادا کی جانب دھکیل دیتا ہے۔ بات ریشمی تنگ پاجامے پر ہی ختم نہیں ہوتی مغل بادشاہ رنگ برنگی ریشمی فراکوں کے بھی دل دادا پائے جاتے ہیں اور بڑی بڑی موتیوں کی مالا تو لباس کا لازمی جز ہے۔ ہمارے آج کل کے عروسی ملبوسات مغل بادشاہوں کے ذوق سے ہی مستعار لیے گئے ہیں۔

اب کوئی بھی ذی شعور انسان ان ساری باتوں سے کیا تاثر لے سکتا ہے۔ ظاہر ہے مردانہ وجاہت تو دور دور تک خیال کو چھو کر بھی نہیں گزرے گی بس ذہن میں طوائفوں، حرموں اور کنیزوں کی ہی جھلک رقصاں ہو گی۔ یہ خیال بھی غالب ہے کہ مغل شہزادے اکثر کنیزوں کے جھرمٹ میں نظر آتے ہیں کہیں ان کی یہ وضع قطع ان کنیزوں اور طوائفوں سے والہانہ محبت کا اظہار تو نہیں؟ ہے یا نہیں یہ بات درکنار مگر مغل بادشاہ اور شہزادے نسوانیت سے مغلوب نظر آتے ہیں۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول ناک کے نتھنوں سے چپکائے اور دوسرا ہاتھ پشت پہ رکھے، مغل شہزادے اپنے بنائے ہوئے باغوں میں چہل قدمی کرتے نظر آتے ہیں اب بھلا یہ کیا نظارہ ہے؟

متجسس ہوں کہ ایک شہزادہ ہاتھ میں گلاب کا پھول لیے، ریشمی پاجامہ فراک پہنے اور گردن اور کانوں میں قیمتی زیور سجائے آخر کیا سوچتا ہو گا۔ ظاہر ہے اس ماحول میں کوئی جنگی حکمت عملی تو بنائی جا سکتی نہیں اور رعایا کا خیال اس موقع محل کے لیے بنا نہیں تو پیچھے بچیں کنیزیں اور حرمیں جو شہزادوں کے خیال پر غالب رہتی تھیں۔

یہ تو ذکر ہو گیا مغل بادشاہوں اور شہزادوں پر غالب نسوانیت کا ، اب کچھ خدا کی بنائی ہوئی معصوم اور خوبصورت مخلوق کی بات بھی کرتے ہیں جن کی بددعا مغلوں کو لے ڈوبی۔ جس بادشاہ کو دیکھو اپنے تاج پر خوبصورت پرندوں کے پر سجائے نظر آتا ہے۔ تاج سجانے کے لیے پرندہ مار دینا اور پھر اسی تاج کی خاطر اپنے باپ، بھائیوں اور بیٹوں کو مار دینا پرندوں کی بددعا نہیں تو اور کیا ہے؟

موروں کا تو مت ہی پوچھیں، بیچارے اپنا خوبصورت پچھواڑا چھپاتے پھرتے تھے مغلوں سے، مگر مغلوں کی راحت کا سامان مور بیچارہ اپنا پچھواڑا قربان کر کے کرتا تھا جس سے مغل شہزادوں اور بادشاہوں کے لیے بڑے بڑے پنکھے تیار کیے جاتے تھے۔

تعمیرات کے دل دادا مغل اس بات سے ہمیشہ بے خبر ہی رہے کہ ان کے زوال کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ تعمیرات کا شوق بھی تھا۔ غضب خدا کا ، چھ فٹ کی قبر پر عالی شان محل کھڑا کر ڈالنا، دو مرلے کا کمرہ بنا کراس کے ارد گرد کئی ایکڑوں پر محیط باغ بنا دینا، رعایا کو لباس کے لیے پیوند میسر ہو یا نہ ہو مگر شیش محل کی دیواریں ڈھانپنے کو قیمتی شیشہ اور جواہر یوں میسر تھے جیسے کسی کنیز کی ستارے بھری چنری۔ اب ظاہر ہے مملکت کا خزانہ اگر معاشی مضبوط حکمت عملی، سائنسی تحقیق، جدید ہتھیار اور جنگی مشقوں کی بجائے باغ بنانے، مقبرے بنانے، زرق برق فراکوں اور زیورات پر خرچ ہو گا تو انجام زوال ہی ہو گا۔

مغل تو چلے گئے مگر ان کی شاہ خرچیاں اور کنیزوں اور حرموں پر دولت نچھاور کرنے کی عادات ہمارے حکمرانوں میں منتقل ہو گئیں۔ مغلوں کی راحت کا سامان مور اپنا پچھواڑا قربان کر کے کرتے تھے اور اپنے حکمرانوں کی راحت کا سامان ہم اپنا سب کچھ قربان کر کے کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments