مفتی طارق مسعود کا بالی وڈ کنگ سلمان خان کو مفت مشورہ


جب کبھی آپ پریشان ہوں یا کبھی کھل کر ہنسنے کو جی چاہے تو لطائف وغیرہ پڑھنے کی بجائے یوٹیوب پر مفتی طارق مسعود عرف ”بولو بھائی بولو“ کا بیان سن لیں آپ کافی حد تک ڈپریشن سے باہر آ جائیں گے مگر تجربہ شرط ہے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے بالی ووڈ کے دبنگ سلمان خان کو ایک مفت مشورہ دے ڈالا کیا ہی بہتر ہوتا اگر مفتی صاحب یہ مشورہ سلمان خان کو ارض مقدس میں کنسرٹ میں پرفارم کرنے سے پہلے عنایت کر دیتے تو ہو سکتا ہے وہ اس مقدس سرزمین پر گناہ کا پرچار کرنے سے باز آ جاتے اور ان کی عاقبت بھی خراب نہ ہوتی۔

آپ نے یہ مفت کا مشورہ دینے میں کافی سستی کا مظاہرہ کیا ہے مگر آپ کو ان لوگوں کی عاقبت کا ذرا بھی خیال نہیں آیا جو اس ارض مقدس کے باسی ہیں اور تقریباً سات لاکھ لوگوں نے گناہ و ثواب سے بے نیاز ہو کر سلمان خان تو درکنار انہوں نے تو بالی ووڈ کی ”گڈ لکنگ“ خواتین اداکاراؤں کے حسن کے جلوے بڑے قریب سے مشاہدہ کیے ۔ سوچتا ہوں جن لوگوں کی سوچ کو روحانی مٹی کی حقیقی وابستگی بھی اس شیطانی چکر کے چنگل میں پھنسنے سے باز نہ رکھ سکی وہاں مفتی صاحب کا مشورہ کتنا کار گر ثابت ہو سکتا تھا اس کا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مفتی صاحب سارا معاملہ معیشت کا ہے کمزور معیشت والے ممالک اور خالی جیب والے بندے کو کوئی منہ نہیں لگاتا اور اس بات کا اندازہ آپ کو بہت اچھے سے ہے۔ آپ کے یوٹیوب چینل کی مارکیٹنگ اور اس پر ننگے اشتہارات کا چلنا یہ اس سسٹم کا پروٹوکول ہے اور آپ نے بڑی چالاکی سے جامعۃ الرشید سے اپنے چینل پر چلنے والے عریاں اشتہارات کے متعلق حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے چینل کو عوامی اعتراضات سے بچانے کے لیے فتویٰ حاصل کر لیا تھا تاکہ آپ بے خوف ہو کر ”فول پروف پوزیشن“ کو انجوائے کر سکیں۔

اسی لئے اب کوئی بھی اس قسم کا اعتراض کرتا ہے کہ مفتی صاحب آپ کے چینل پر قابل اعتراض اشتہارات چل رہے ہیں تو آپ فوراً جامعۃ الرشید کا فتوی نکال کر دکھا دیتے ہیں اور دھیمے سے یہ بھی ارشاد فرما دیتے ہیں کہ ہمارے ایڈمن کے اخراجات بہت بڑھ چکے ہیں تو پھر ہم کیا کریں۔ مفتی صاحب رولا تو سارا معیشت کا ہے اور اسی معیشت کو مضبوط بنانے کے لئے آپ کے ہاں آپ کے چینل پر عریاں اشتہارات پر آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر آپ معیشت کو مضبوط بنانے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے سلمان خان اور سعودی عرب کے سلطان پر کیوں اعتراض کر رہے ہیں؟

کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟ خود آپ اپنی سروسز کی ڈیجیٹل چارجنگ کر رہے ہیں اور دوسروں کو عاقبت سنوارنے کے اخلاقی بھاشن دے رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے سلمان خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ جب سعودی حکومت نے آپ کو کنسرٹ کے لیے بلایا تھا تو آپ کو معذرت کرتے ہوئے سعودی حکام کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ”جیسے یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کا قبلہ ہے بالکل اسی طرح میرا بھی ہے، اس لیے یہ شیطانی چکر انڈیا کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر اس ارض مقدس میں یہ سب کچھ نہیں کر سکتا“ اس کے بعد مفتی صاحب کا فرمانا تھا کہ اگر آپ یہ ”بولڈ سٹیپ“ لے لیتے تو ہو سکتا ہے آپ کی عاقبت بہت اچھی ہو جاتی اور جنت میں مزے کرتے۔

واہ مفتی جی کتنی زبردست بات کہی آپ نے مگر کیا یہ ”جذباتی بیان بازیوں“ سے سعودی عرب یا سلمان خان کو کوئی فرق پڑے گا؟ کیا شہزادہ سلمان کو اپنے ملک میں تبدیلی لانے کے لئے اور اپنی سماجی و روحانی ثقافت میں کوئی پیش رفت کرنے سے پہلے آپ سے مشورہ کرنا ہو گا؟ کیا انہیں نہیں پتا کہ جو اقدامات وہ کرنے جا رہے ہیں اس سے سعودی ثقافت تباہی کے دہانے تک پہنچ جائے گی؟ جس ارض مقدس کی تکریم کے سبق آپ سلمان خان کو پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں شہزادہ سلمان کا جم پل اور ان کے آبا و اجداد کی زندگیاں اسی روحانی مرکز میں بسر ہوئی ہیں کیا وہ اس تکریم کی اہمیت سے بے نیاز ہیں؟

مفتی صاحب اپنی فکر کریں شہزادہ سلمان اور سلمان خان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں کیونکہ وہ اس ”نمایاں پوزیشن“ پر چھو لے دے کر نہیں پہنچے، سالہا سال کی ریاضت ان کے ٹریک ریکارڈ کا حصہ ہے اور آپ تو ابھی ذہنی پسماندگی کے قرون وسطیٰ کے لیول پر ہیں اور بند غاروں میں قید ہو کر دنیا کو برائیوں سے بچانے کی ترکیبیں کرتے رہتے ہیں۔ اسی ویڈیو کلپ میں کسی نے سوال پوچھا کہ ”مفتی صاحب جب آپ اپنے بیان میں لطیفے وغیرہ سناتے ہیں تو خواتین بھی ہنستی ہیں کیا ان کا ہنسنا یا آپ کے بیانات سننا ان کے لئے جائز ہیں“ ؟

آپ اس کا جواب سنیے اور سر دھنیے مفتی جی کا فرمانا تھا کہ اگر کسی خاتون کو میرے بیانات سے کوئی غیر اخلاقی کشش محسوس ہو تو میرا بیان نہ سنے کیونکہ اسے پردے کا حکم اسی لئے دیا گیا ہے کہ وہ خود کو محفوظ رکھ سکیں اور مکمل آزادی کا حق تو صرف مرد کو دیا گیا ہے اور یہ حکم بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ پردے کا حکم عورت کو دیا گیا ہے مرد کو نہیں۔ اگر کسی مرد سے عورت کو ایٹریکشن ہو رہی ہے تو عورت کو چاہیے کہ وہ ”سٹیپ بیک“ کرے اور پردے کا مکمل اہتمام کرے۔

آدمی کو تو آدمی اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ اس نے معاشرے میں آزادی سے رہ کر معاش کا فریضہ سرانجام دینا ہوتا ہے۔ یہ اکیسویں صدی میں اس طبقے کی عورت کے متعلق ذہنیت ہے تو دوسرے زندگی کے معاملات میں یہ کتنے روشن خیال ہوں گے اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ اسی ذہنیت نے افغانستان کا جو حشر کیا ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور موجودہ وقت میں وہاں خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے وہ آپ سوشل میڈیا پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے افغانی لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی بچیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اس فقرے پر غور کیجئے گا کہ ”وہ بچیوں کو فروخت کر رہے ہیں بچوں کو نہیں“ خواتین ان کی نظر میں ایک پروڈکٹ یا جنسی شیطان سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی اور اسی لئے مفتی صاحب اپنے چینل پر بیویوں کو کنٹرول میں رکھنے کے نسخے اور حکم عدولی پر سزا کے پیمانوں کی تشریح فرماتے رہتے ہیں۔ اس لیے مفتی صاحب یہ معیشت کی دنیا ہے اور جذباتیت کی آج کی دنیا میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔

دونوں ”سلمان“ اس کی اہمیت بڑے اچھے سے جانتے ہیں اور ان کی دنیا پر نظر آپ سے زیادہ ہے۔ آپ کے مشوروں کی آپ کی نظر میں تو بہت زیادہ اہمیت ہو سکتی ہے مگر یہ پریکٹیکل نہیں ہے اور اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے ایمان کو جو ایک عورت پر نگاہ پڑنے سے کمزور پڑ جاتا ہے اس کی فکر کریں اور سعودی عرب یا سلمان خان کو ان کی حدود بتانے سے گریز کریں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments