بھٹہ صاحب


جام صاحب کے دوست بھٹہ صاحب اپنی نوعیت کے واحد آدمی تھے۔ بھٹے رے بھٹے تیری کون سی کل سیدھی۔ بھٹہ صاحب جوانی میں ہی اپنے بالوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ جام صاحب کے بقول بھٹہ صاحب نے بال دھو دھو کے ہی کھوئے ہیں۔ وہ دن میں کم از کم دس مرتبہ شیمپو کیا کرتے تھے۔ اس لیے بال ان کے سر سے اتر کر ہاتھ میں آ گئے اور آج تک واپس سر پر نہیں لگ سکے۔ اب وہ گنجے سر کو دن میں دس مرتبہ مالش کرتے ہیں تاکہ بال دوبارہ اگ سکیں لیکن شاید جو کھیتی ایک مرتبہ ویران ہو جائے دوبارہ آباد نہیں ہو سکتی لیکن وہ کاوش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بال تو نہیں اگے مگر میدان کافی صاف اور چمکیلا ہو چکا ہے جس کو جام صاحب کبھی کبھی بطور آئینہ بھی استعمال کرتے رہتے ہیں۔

بھٹہ صاحب جو بھی کام کرتے ہیں مسلسل کرتے ہیں۔ اسی تسلسل کا سلسلہ انہوں نے فیل ہونے میں بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ ماشاء اللہ پینتیس کی عمر میں بھی بی اے کا امتحان پاس کرنے میں ابھی تک کامیابی حاصل نہیں کی یونیورسٹیز کے مقررہ امتحانی مراحل گزارنے کے بعد زندگی بھر کے لیے نا اہل ہوچکے ہیں۔ آج کل بلوچستان یونیورسٹی کو بدنام کرنے کے در پے ہیں۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ خیرپور یونیورسٹی نے بھی ان کو پاس کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ آپ اس خبر کے بعد نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ وہ ماشا اللہ قابلیت کے اوج معلی پر فیض یاب ہیں۔ لیکن بھٹہ صاحب تمام اداروں کا امتحان ضرور لیں گے۔

بھٹہ صاحب ہر بات کم از کم دس مرتبہ دہراتے تھے پوری دنیا کو وہ بات یاد رہتی مگر وہ خود بھول جاتے۔ اس طرح ایک مرتبہ انہوں نے دعوت عام کا سندیسہ بھیجا اور کم ازکم اپنی عادت کے مطابق دس مرتبہ سب دوستوں کو یاد کرایا لیکن جب تمام دوست دعوت کے مقررہ وقت پر پہنچے تو بھٹہ صاحب گھر پر موجود نہ تھے بلکہ ایک کام سے کسی دوست کے گھر تشریف لے گئے تھے اور اہم بات یہ ہے کہ وہ دوست بھی دعوت عام میں شرکت کے لیے ان کے گھر موجود تھے اور ان پر تین حرف بھیج رہے تھے۔

ان کی ایک ان کی عادت تھی کہ وہ کسی سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے۔ ان کو وہم تھا کہ اگر ان سے یہ عمل ہو گیا تو وہ ناپاک ہو جائیں گے۔ اگر یہ عمل غیر ارادی طور پر بھی سرزد ہو جاتا تو سارا دن ہاتھ دھونے میں گزار دیتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے گھر والوں نے تمام لٹیرین کو تالے لگا رکھے تھے اور اگر ان کو حاجت بھی آئے تو ان کو اجازت نہیں دی جاتی تھی کیونکہ ڈر یہ ہوتا تھا کہ وہ پانی کی ٹینکی ختم کر کے آئیں گے اگر وہ بیت الخلا میں دس منٹ سے زیادہ لگاتے تو ان کی والدہ پانی بند کر دیتیں تاکہ بھٹہ صاحب باہر تشریف لے آئیں۔ نل پر جھک جھک کے ان کی کمر پر بل پڑ گئے تھے اور کب نمایاں ہو گیا تھا۔

بھٹہ صاحب المعروف صفائی والا مشہور ہوچکے تھے۔ محلے کے بچے ان کا دور سے استقبال کرتے بھٹہ صفائی والا بھٹہ صفائی والا کے نعرے گونجنے لگتے۔ وہ بچوں کے پیچھے بھاگتے لیکن بچے کورس میں مل کر صفائی صفائی والا صفائی والا پکارے جاتے اور ان کو وہاں سے رفوچکر ہونا پڑتا۔

ان کو چائے پینے کا بہت شوق تھا سارا دن صرف چائے پیتے تھے۔ گھر کا دودھ، پتی، چینی ختم کر جاتے۔ وہ فرماتے تھے کہ ان کی رگوں میں خون کی بجائے چائے گردش کرتی ہے۔ بھٹہ صاحب کے پورے گھر کا بجٹ ان کے چائے کے خرچہ سے کم تھا۔ ان کے والد صاحب نے مجبورا باورچی خانے کی الماری کو تالا لگا دیا تاکہ چائے پینے پر پابندی لگا سکیں۔

جام صاحب فرماتے ہیں کہ وہ بھٹہ صاحب کے لیے دعا گو ہیں کہ وہ اپنا تسلسل جاری رکھیں اور نئی نسل کے لیے مشعل راہ بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments