جناب آئی جی صاحب پنجاب آپ کی ٹیم پہ رشک آیا ہے


جناب آئی جی صاحب پنجاب آپ کی ٹیم پہ رشک آیا ہے۔ حضور والا ویسے تو موجودہ جدید دور میں وسائل کی کمی کے باوجود آپ کی پولیس نے پیشہ ورانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑے بڑے الجھے ہوئے اور سنگین مقدمات میں جرائم پیشہ عناصر کو نہ صرف گرفتار کیا ہے بلکہ اپنی تمام تر کاوشوں اور قانونی ضوابط کو پورا کرتے ہوئے کیفر کردار تک پہنچایا ہے۔ تھانہ کلچر میں ڈنڈے اور گالی کا قدیم اور تن اور پودا کسی خزاں آلود جھاڑ کی طرح تقریباً نیست و نابود ہونے جا رہا ہے۔

ان تمام تر اصلاحات اور مثبت اقدام کا سہرا آپ کی شبانہ روز محنت اور ماتحتوں کے ساتھ شفیق رویہ کی وجہ سے آپ کے سر جاتا ہے ۔ ضلع بہاولپور کی تحصیل حاصل پور میں ایک اندوہ ناک حادثہ، سانحہ، گھٹیا ترین جرم وقوع پذیر ہوا جس میں چار اوباش بعمری 20 / 20,22 / 22 سال کے لڑکوں نے یکم جنوری 2021 کی درمیانی شب تحصیل حاصلپور کے گاؤں 193 مراد میں گھر میں گھس کر والدین اور جواں سالہ بھائیوں اور ماں باپ کے سامنے ایک ہوا کی بیٹی کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا نہ صرف گینگ ریپ کیا بلکہ اس لڑکی کے بھائی کے ہاتھ پیر باندھ کر اس کی مردانہ شناخت پہ تیز دھار آلے سے وار کیا اور شدید حد تک زخمی کر دیا۔

کسی بھی اہل شعور کے اس منظر کو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ 15 کی کال موصول ہونے پر متعلقہ ایس ایچ او محمد لطیف جھورڑ سب انسپکٹر نے اپنی ٹیم محمد علی سیال سب انسپکٹر، کانسٹیبل محمد کلیم، کانسٹیبل محمد ندیم کے ہمراہ دھند سردی اور سفری تکالیف کو پس پشت ڈال کر ریڈ کرنے کا جامع پلان بنایا، مدعی مقدمہ کا کہنا ہے کہ ”ہمارے پاس پہنچ کر تمام حالات و واقعات کا بغور جائزہ لے کر ایس ایچ او لطیف جھورڑ صاحب کی کیفیت ایسی تھی کہ غصے اور نفرت سے ان کے بدن میں کپکپی طاری تھی، ان کا رویہ اور ہماری مظلوم بیٹی سے شفقت دیکھ کر ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ ہمیں انصاف ملے گا“ ایس ایچ او، نے اپنی پیشہ ورانہ قابلیت سے تمام شہادتیں اور ثبوت اکٹھے کیے۔

ایک ملزم کو مدعی مقدمہ نے شناخت کر لیا جس کو بنیاد بنا کر لطیف جھورڑ اور ان کی ٹیم نے دن رات مسلسل محنت لگن سے محض تین دن میں نہ صرف ان درندہ صفت اوباش لڑکوں کو ٹریس کر لیا بلکہ پنجاب کے متعدد اضلاع میں چھاپے مار کر ان مکروہ کرداروں کو گرفتار بھی کر لیا۔ جب میری لطیف جھورڑ صاحب ایس ایچ او تھانہ صدر حاصل پور سے ملاقات ہوئی میں نے مقدمہ کے حالات و واقعات کے بارے جاننا چاہا تو لطیف صاحب نے کہا ”بابا جی ایسے لوگوں کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں لیکن ہم قانون کے رکھوالے ہیں قانون کی بالا دستی ہماری اولین ترجیح ہے اس لیے میں نے پوری محنت لگن اور سچے جذبے سے ایسی مثل مقدمہ تیار کی ہے کہ کوئی بھی معزز عدالت ان ظالموں پہ رحم کا سوچ بھی نہیں سکے گی۔

یہ معاشرے کا ناسور ہیں اور ان کا انجام انشاءاللہ بہت قریب ہے۔ جب میں نے موقعہ پر پہنچ کر متاثرہ خاندان کی حالت دیکھی تو میرے لیے اس بچی کو اور اس کے ورثہ کو تسلی دینے کے لیے الفاظ کا چناؤ بھی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ لگ بھگ ایک سال بعد معزز ایڈیشنل سیشن جج حاصل پور رانا عبدالحکیم صاحب نے تمام قانونی ضابطوں تفتیشی پیچیدگیوں اور پولیس کی بہترین کارکردگی کی بنا پر کیس کو ہر کسوٹی سے پرکھنے کے بعد اپنا فیصلہ سناتے ہوئے چاروں نامزد درندوں کو سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے نہ صرف قانون کی بالادستی کو قائم رکھا بلکہ اپنے فیصلے سے ثابت کر دیا کہ پنجاب پولیس نے تفتیش کرتے ہوئے مجرمان کو قرار واقعی سزا دلوانے میں بہترین کردار ادا کیا۔

لطیف جھورڑ سب انسپکٹر ایس ایچ او، محمد علی سیال سب انسپکٹر، کانسٹیبل محمد کلیم، کانسٹیبل محمد ندیم  سب کو میری طرف سے جرنیلی سلام، میں سمجھتا ہوں ان جوانوں کو سرکاری سطح پر خراج تحسین پیش کیا جانا ضروری ہے تاکہ پولیس کا مورال بلند ہو اور پولیس کے جوان ہر وقت ظلم جبر زیادتی اور نا انصافیوں کے خلاف برسرپیکار ہیں اس کیس میں تفتیشی ٹیم کو سراہا جانا اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ ملکی تاریخ کا پہلا 376 ii کا مقدمہ ہے جس کی تفتیش اس قدر خلوص سے کی گئی ہے کہ تمام نامزد ملزموں کو کسی معزز عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا ہے بصورت دیگر کبھی اس نوعیت کے مقدمہ میں سزائے موت کبھی نہ دی گئی ہے۔ خیر اندیش بابا جیونا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments