سیدوارث شاہ۔ پنجابی سخن کا وارث (4)


ڈاکٹرموہن سنگھ دیوانہ نے قصہ ً ہیر ً مصنفہ سید ارث شاہ جنڈیالوی، مطبوعہ لاہور بک شاپ امرتسر میں وارث شاہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک عالم تھے اس لئے کہ انہوں نے درسی کتابیں پڑھ رکھیں تھیں، طب کی کتابیں ان کی نظر سے گزری تھیں، تھوڑا بہت جوگ کے بارے میں بھی جانتے تھے۔ انہوں نے اپنے وقت کے مذہبی اور سیاسی واقعات کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا تھا۔ گانے کا انہیں شوق تھا، سب راگ اور راگنیوں سے وہ آشنا تھے، لگتا ہے کہ انہوں نے قصہ ہیر رانجھا بھی لوگوں کو خود گا کر سنایا تھا۔ وہ تصوف کی واقفیت بھی رکھتے تھے گو کہ عربی اور فارسی واجبی سی جانتے تھے۔ اپنے عہد اور اس سے پہلے کے پنجابی مصنفین کو بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ان میں اپنے عہد کے مسلمانوں اور ان کے عمل پر تنقید کرنے کی جرات اور حوصلہ بھی موجود تھا۔ ان کی سیاسی لوگوں پر نظر تھی، وہ اشرافوں اور کمینوں، سیدوں اور جاٹوں، جوگیوں، ملوانوں اور گرہستیوں کی ساری کمزوریوں اور ان کے اچھے اور خراب دونوں قسم کے کاموں کو اچھی طرح جانتے تھے۔ وہ سفربھی کرتے رہتے تھے اسی لئے ہندی اور پہاڑی زبانوں کی مثالیں بھی ان کی کتابوں میں موجود ہیں۔ عربی، سنسکرت، فارسی اور پنجابی میں لکھے ہوئے دوسرے شاعروں کے قصے بھی انہوں نے پڑھ رکھے تھے جو انھیں زبانی یاد بھی تھے۔ بہت سارے الفاظ اور قافیے شعر کا وزن برابر کرنے کے لئے انہوں نے توڑے اور بہت سارے نئے بھی بنائے، لیکن زبان ہمیشہ اہل زبان کی طرح لکھی۔ وارث شاہ کا مزاج قلندری طبعیت کا تھا۔ میری یہ رائے ہے جو غلط بھی ہو سکتی ہے کہ وارث شاہ نے کسی بھاگ بھری سے عشق نہیں کیا بلکہ انہوں نے تو شادی تک نہیں کی۔

وارث شاہ نے نہ صرف پنجابی شاعری اور زبان کی خدمت کی ہے بلکہ اس سے زیادہ انہوں نے دنیا میں رہن سہن کے رنگ ڈھنگ اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو سکھانے کی کوشش کی ہے۔ ہیر رانجھا کی صورت میں اتنی لمبی اور ٹھیٹھ پنجابی داستان پہلے پہل صرف وارث شاہ نے ہی لکھی ہے۔ آپ نے سارے قصہ کو بہت کم لفظوں میں منظوم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر موقع ہومحل اور کردار کی ضرورت کے مطابق مناسب ترین زبان استعمال کی ہے۔ ان کی نظروں میں ہمیشہ عام لوگ مقدم رہے اور ان کی سطح پر رہ کر انہوں نے ایسا لکھا جو ہر کسی کی سمجھ میں آ جائے۔ فطرت کی اچھائیوں اور برائیوں کو اچھے طریقہ سے بیان کر کے انہوں نے نئے لکھنے والوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے۔ ان کے بہت سارے مصرعے عام فہم ہونے کی وجہ سے ضرب المثل بن گئے ہیں۔ انہوں نے عام بول چال میں استعمال ہونے والی تشبہیات اور استعاروں سے اپنی شاعری کو سجا یا ہے۔

کہتے ہیں کہ جب ہیر رانجھا کا قصہ لکھ کر کافی مشہور ہو گئے تو وارث شاہ جنڈیالہ جاتے ہوئے قصور اپنے استاد جی کو ملنے گئے۔ اس وقت ان کے ہیر رانجھے کے قصے کی شہرت ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ وہ جب اپنے استاد جی سے ملے تو استاد جی ان سے بہت ناراض ہوئے اور انھیں کہا کہ تم دونوں شاگردوں نے میرا نام ڈبو دیا ہے۔ بلھے شاہ کو پڑھایا تو اس نے سارنگی پکڑ لی اور تمہیں پڑھایا تو تم نے عشق کے قصے لکھنے شروع کر دیے۔ رات وارث شاہ نے مدرسہ میں گزاری اور صبح سویرے اٹھ کر استاد جی کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں نے روح اور بت کا قصہ لکھا ہے اور استاد محترم کو قصے کے کچھ شعر سنائے۔ ان کی باتیں اور شعر سن کر استاد جی نے گہرا اثر لیا اور فرمایا کہ وارث شاہ تم نے تو منج کی رسی (ایک کھردری رسی) میں موتی پرو دیے ہیں۔ حکیم عبدالغفور نے قصہ پر اپنے تبصرہ میں کہا کہ ہیر وارث شاہ ایک عاشق اور اس کی محبوبہ کی داستان نہیں بلکہ روح اور جسم کی کہانی ہے جو انسان پیدائش سے اس کی موت کی کہانی ہے۔

ہیر روح تے چاک قلبوت جانو بالناتھ ایہہ پیر بنایا ای
پنج پیر حواس ایہہ پنج تیرے جنہاں تھاپنا تدھ نوں بایا ای
قاضی حق جھبیلنیں عمل تیرے عیال منکر نکیر ٹھہرایا ای
کوٹھا گور عزرائیل ہے ایہہ کھیڑا جیہڑا لیندو ہی روح نوں دھایا ای
کیدو لنگا شیطان ملعون جانو جس نے وچ دیوان دھڑایا ای
سیاں ہیر دیا ں رن گھر بار تیرا جیہناں نال پیوند بنایا ای
وانگ ہیر دے بنھ لے جان تینوں کسے نال نہ ساتھ لدایا ای
سہتی موت تے جسم ہے یار رانجھا ایہنا دو ہاں نے بھیڑ مچایا ای
شہوت بھابھی تے بھکھ ربیل باندی جیہناں جنتوں مار کڈھایا ای
جوگی ہے عورت کن پاڑ جس نے سبھ انگ بھبوت رمایا ای
دنیا جان ایویں جویں جھنگ پیکے گور کا لڑا باغ بنایا ای
عدلی راجہ ایہہ نیک نین عمل تیرے جس ہیر ایمان ودایا ای
وارث شاہ میاں بڑی پار تیری کلمہ پاک زبان تے آیا ای

(ہیر کو روح اور چاک کو جسم سمجھا جائے بالناتھ وہ خالق ہے جس نے یہ پیر بنایا ہے۔ پانچوں پیر تمہارے پانچوں حواس ہیں جو تمہاری پشت پناہی کر رہے ہیں۔ عیال تمہارے کندھوں پر سوار منکر نکیر ہیں۔ کوٹھا قبر اور کھیڑا عزرائیل ہے جو روح کو لے کر چلتا بنا تھا۔ کیدو شیطان لنگڑا شیطان ملعون ہے۔ ہیر کی سہیلیاں دراصل تمہارا گھر بار اور اہل و عیال ہیں۔ تمہیں ہیر کی طرح باندھ کر لے جائیں گے اور کوئی تمہارا ساتھ نہیں دے گا۔ سہتی موت اور جسم رانجھا یار ہے جس کی وجہ سے یہ سارا ہنگامہ برپا ہے۔ عدلی راجہ تمہارے وہ نیک اعمال ہیں جنہوں نے ہیر کے روپ میں تمہیں ایمان سے سرفراز کیا وارث شاہ تمہاری زبان پر رب کا کلمہ ہے اس لئے تمہاری کشتی کنارے لگ جائے گی۔ )

نوٹ۔ اس مضمون کی تیاری میں ویکیپڈیہ اور انٹرنیٹ کے علاوہ مندرجہ زیل کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔
1۔ حضرت وارث شاہ مرتبہ و تحریر رتن سنگھ مطبوعہ اردو اکادمی دہلی
2۔ مضمون پنجابی ادب کا شیکسپیئر سید وارث شاہ۔ مصنف شیخ ثنا االلہ۔ روزنامہ 92 نیوز۔ ڈائجسٹ
3۔ مقامات وارث شاہ۔ مصنف علی عباس جلالپوری۔ تخلیقات صفاں والا چرک لاہور
4۔ کلام حضرت سید وارث شاہ قاری مولانا غلام حسین قادری ً
5۔ ہیر وارث شاہ مع اردو ترجمہ مرتبہ اکرم شیخ۔ مطبوعہ بک ہوم۔ مزنگ روڈ لاہور
6۔ ہیر ً مصنفہ سید ارث شاہ جنڈیالوی مرتبہ ڈاکٹر موہن سنگھ دیوانہ، مطبوعہ لاہور بک شاپ امرتسر


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments