ایما لازارس کا نیا مجسمہ


اس حبس زدہ اورالجھن زدہ معاشرے سے باہر نکلتے ہیں اور آزاد اور کھلے معاشروں کی تازہ خبرپڑھتے ہیں جہاں اندھیرے اور اجالے میں جنگ چل رہی ہے، ہمارے ہاں تولگتا ہے مستقل تاریکی کے ڈیرے ہیں-
لیکن اس سے پہلے ذرا پیچھے چلتے ہیں اور امریکہ کے’مجسمہ آزادی’ کو دیکھتے ہیں- امریکِی خانہ جنگی (1865-1861جس میں امریکہ میں غلامی کا خاتمہ ہوا) کے بعد ‘ایڈورڈ رینے لابوئیلے’—- جو کہ ایک فرانسیسی سیاستدان تھا اور غلامی کے خاتمے کا حامی تھا—- نے تجویزپیش کی کہ فرانسیسی عوام کی طرف سے غلامی کے خاتمے کی کامیاب جنگ کے بعد امریکی عوام کو ایک مجسمہ تحفے کے طور پر دیا جائے- فرانسیسی مجسمہ ساز ‘بارٹھولڈی’ نے اس کا خاکہ تیار کیا، اس کو فرانس میں تیار کیا گیا اور بحری صندوقوں میں رکھ کرامریکہ لا کر نصب کیا گیا-
یہ ایک عورت کا مجسمہ ہے جس نے لمبی قبا پہن رکھی ہے دائیں ہاتھ میں ایک مشعل ہے اور بائیں ہاتھ میں ایک تختی پکڑ رکھی ہے جس پر لاطینی میں چار جولایَ ‘اعلان آزادی’ کی تاریخ کندہ ہے- اس کے قدموں میں بیڑیاں اور زنجیریں ٹوٹی پڑی ہیں- مشعل تارکین وطن کو خوش آمدید کہ رہی ہے، آزادی کا پروانہ دوسرے ہاتھ میں ہے اور ٹوٹی ہوئ زنجیریں انسانیت کی رنگ، نسل، عقیدہ اور مذہب کے تفرقہ سے آزادی کا استعارہ ہے-
اسکی بنیاد بنانے کے لیے اخراجات درکار تھے، اس کی فنڈنگ میں جن لوگوں نے حصہ لیا اس میں ایک یہودی نژاد امریکی ‘ایما لازارس’ بھی تھیں، 1883میں ایما لازارس نے چند اشعار[سات اشعار] ارزاں کیے تھے جو آج بھی وہاں کندہ ہیں- ان اشعار کو ‘نیا مجسمہ’ کا عنوان دیا گیا– نیَ سوچ نیا آغاز-New Clossus
ان اشعار میں انہوں نے اس مجسمے کا موازنہ یونانی دیوہیکل مجمسمے سے کیا ہے جو بادشاہت اور استعماریت کا نشان تھا، اور آزادی کے مجسمے کو ‘تارکین وطن کی ماں’ کے طور پر پیش کیا-
رہوڈ جزیرہ پر ایستادہ مجسمہ اس دور کی عکاسی کرتا ہے جب یونانی، رومی اوراس کے بعد برٹش اور فرانسیسی استعمار میں طاقت اورجبرہی ریاست کی بنیاد تھا جبکہ بیسویں صدی کے آغاز میں ایما لازارس نے ریاست کو ایسے ماں کے تصورکےطورپر پیش کیا ہے جو ترقی ، رواداری، برداشت اور انسانی مساوی حقوق کی علمبردار ہے
Emma Lazarus
آخری اشعار میں ایما اس مجسمے سے کہلواتی ہیں کی “اے فرسودہ ریاستو تم اپنی جاگیریں، دولت اور جھوٹی شان و شوکت اپنے پاس رکھواور اپنے کمزور، بےکس اور نادار لوگوں کوجو آزادی کی سانس لینا چاہتے ہیں مجھے دےدو، میں شمع لے کران کے استقبال کے لیے کھڑی ہوں”
ایما نے اس اقلیتوں، دھتکارے ہوئےلوگوں سے کیسی ریاست تشکیل دی، کیسا معاشرہ وجود پذیر کیا، کیسی معاشی اورمعاشرتی ترقی کا نمونہ پیش کیا–یہ ہم سب کھلی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں-
یہ وہی ریاست ہے جس کے شمالی حصے نے اپنے جنوبی بھائیوں سےغلامی کے خاتمے کی جنگ لڑی، یہ وہی معاشرہ ہے جہاں کتوں اور سیاہ فاموں کو رستوران میں جانا منع تھا اور پھر ہم نے اسی سیاہ فام کو دینا کی سب سے بڑی طاقت کی مسند اقتدار پربیٹھے دیکھا-
لیکن یہ ماضی تھا آج اکیسوی صدی کی تازہ خبر سنیے
پچھلے دنوں ‘لارن بوبرٹ’ نے– جو کہ ریپبلکن پارٹی کی ممبرہیں– اپنی ساتھی کانگریس کی ممبر’ایلہان عمر’ جوصومالی نژاد امریکی ہیں اورڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے کانگریس کی ممبر ہیں پر جملہ کسا—–جس میں ایلہان عمر کے اسلام اور حجاب کے پس منظر میں دہشت گردی کی طرف اشارہ تھا-
اس سے اسملاموفوبیا کی بحث امریکی کانگریس میں شروع ہے، ریپبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں کی لفظی جنگیں اخباروں کی زینت ہیں-
بوبرٹ کا مذاق ایک خاص ذہنی ساخت کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو احساس برتری اور نسلی افتخارکا غماز ہے یہ یقینا امریکی سوچ کے بھی خلاف ہے جس کی بنیاد ان کے اسلاف نے رکھی تھی اور آزادی کے منشور میں شامل کی تھی جس میں اس بات کی یاددہانی کرائی گئی تھی کہ تمام ‘انسان’ برابر ہیں اور وہ کچھ غیرمنفک حقوق رکھتے ہے جیسے آزادی-
امریکہ ‘ایما لازارس’ کی فکرکو راہنما بناتا ہے، یا بوبرٹ کی تضحیک اور نسلی افتخارکا شکار ہوتا ہے اور ٹرمپ کا پیروکار بنتا ہے یہ مستقبل کو پیشن گوئی ہے، سمجھنا اور سیکھنا یہ چاہیے کہ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ترقی وہی قومیں کرتی ہیں جو نسل، عقیدہ، مسلک اور رنگ سے ماورا انسانی صلاحیت کو معیار بناتی ہیں- ہمارا کیا حال ہے؟ اس پر لکھنا تضیع اوقات ہے اکثریت کے جبر میں یا اس کے دباوَ میں زندان میں ڈال دینا یا توہیں کا الزام لگا کر مار کر جلا دینے والی قوموں کا آخری پڑاوَ تارہخ کا کوڑا دان ہی ہوتا ہے-

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments