قصہ ایک ہندو لڑکی کی اغوا کا اور ہماری کورٹ


ایک غریب اور غیر تعلیم یافتہ شخص جو کہ ایک فیکٹری میں مزدور ہے اور اس کی بیوی بھی مزدور تھی کسی فیکٹری میں، دونوں کی 12000 تنخواہ تھی اور 5 بچے تھے جن کا گزارہ بمشکل ہوتا تھا اور بینظیر انکم سپورٹ کے پیسے گھر کا چولھا جلانے میں کچھ مدد کرتے تھے، وہ لڑکی کافی خوبصورت بھی تھی تاہم ایک مسلمان اور سید گھرانے کا لڑکا 5 بچوں کی ماں کی خوبصورتی پر مر مٹا اور اس ماں کو زبردستی اغوا کر کے رشتے داروں کے گھر میں رکھا جہاں 20 دن وہ لڑکی حبس بیجا میں تھی، وہیں اس کا نکاح ہوا بیچوں بیچ ایک مدرسہ میں لی جاکر اسلام قبول کروا لیا گیا۔ اور جب ایف آئی آر داخل ہو چکی تھی تو اس کے بعد وہ ہائی کورٹ گئے اپنی پروٹیکشن لینے، ہائی کورٹ سے کیس ہار کر ٹرائل کورٹ آئے بیانات لیے گئے، جس میں واضح بات آئی کہ ملزم نے لڑکی کو اغوا کیا۔

گواہوں کے بیانات یہ تھے کہ لڑکی جب باہر گئی محترم بینظیر انکم سپورٹ کے پیسے نکلوانے اور واپس نہ آئی جبکہ ایف آئی آر جب مدعی کو نکاح نامے کی کاپی ملی وہ لے کر تھانے گئے اور وہاں پولیس نے نکاح نامے سے نام دیکھ کر ایف آئی آر لکھ کر مدعی سے انگوٹھے لگوائے اور یوں ایف آئی آر میں پولیس نے اپنی کہانی لکھ کر پیش کی جس کی وجہ سے ملزم رہائی پانے میں کامیاب ہوئے۔

قانون میں ملزم پسندیدہ بچہ ہوتا ہے جب تک مدعی پراسکیوشن (پراسیکوشن میں پولیس کی تحقیق بھی شامل ہوتی ہے) ثابت کر دیں کہ ملزم نے جرم کیا ہے سو یہ جو کیس اوپر بیان گیا گیا اس میں جو ایف آئی آر کا متن تھا وہ یہ تھا کہ ملزم نے گھر میں گھس کر لڑکی کو اغوا کیا جبکہ لڑکی اور سب گواہوں کے مطابق لڑکی کو روڈ سے اغوا کیا گیا، جس کے باعث ملزم رہا کیے گئے حالانکہ جوابدار  نے جھوٹا نکاح نامہ بھی کورٹ میں پیش کیا کہ لڑکی نے اس سے مرضی سے شادی کی ہے۔

اس کیس کے لکھنے کا مقصد پولیس کا کردار اس معاشرے میں جہاں تحفظ دینا ہے وہیں پر یہ پولیس کہیں نہ کہیں مجرموں کو بچانے کے لیے ایسے ایف آئی آر بھی درج کرتی ہیں جہاں کورٹ کو کوئی شک پیدا ہو اور مجرم رہائی پائیں کیونکہ شک کا فائدہ ہمیشہ مجرم کو ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments