میرا شریک حیات میرا ہوا


پانی کی لہریں اس طرح لہرا رہی تھی جیسے ان میں کسی نے محبت کے پتھر پھینکے ہوں۔ یہ سال نو کا پہلا دن تھا۔ موسم سرد تھا اس کے ساتھ سورج بھی مہربان تھا۔ پانی ٹھنڈا ترین اور قدیمی عمارت کے پہلو میں تھا یہ پانی یہاں صدیوں سے ایسے ہی درد بھرے گیت گنگناتا تھا۔ لوگ آتے ہیں چلے جاتے ہیں اور یہ پانی یونہی لوگوں کے غم اور خوشیاں سمیٹتا رہتا ہے میں نے بھی یہاں بہت سے لوگ دیکھے۔ یہاں ننھی بچیاں جو پانی سے کھیل کر خوش تھی اور پانی کی لہروں سے کھیل رہی تھیں میں نے ان کے قریب جا کر دیکھا تو معلوم ہوا انہوں نے زندگی میں صرف بہار ہی دیکھی ہے اس لیے وہ ہمیشہ زندگی جیتی ہیں گزارتی نہیں ہیں یہ ہی وجہ تھی ان ہنستی کھیلتی لہروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی موجیں مار رہی تھیں۔

مگر ان کے قریب ہی ایک شخص ہاتھ میں قلم کا سہارا لیے بیٹھا تھا اور پانی کی لہروں سے ہم کلام تھا کافی دیر تک اس نوجوان اور ان لہروں میں مکالمہ جاری رہا اور پھر ہمیشہ کی طرح محبت جیت گئی۔ محبت قدرت کے قلم سے نکلنے والا پہلا شاہکار ہے محبت ہر میدان میں جیت جاتی ہے بس اس کی پہلی شرط سچ ہے

یہ نوجوان بھی وہاں بیٹھا اپنی محبت پر مان کر رہا تھا اسے لگ رہا تھا وہ اس دنیا میں سب سے الگ سب سے ہٹ کر محبت کرتا ہے اس کو یہ بھی لگا وہ دنیا میں اپنی محبوبہ سے جتنی محبت کرتا ہے اور کوئی بھی نہیں کر سکتا اس کی محبوبہ بھی اسے اتنا نہیں چاہ سکتی جتنا وہ چاہتا ہے اس وقت اسے اپنی محبوبہ کی محبت بھی اپنی محبت سے کم لگ رہی تھی اس نوجوان کے ہاتھ میں قلم اس چیز کی نشانی تھی کے اس کا تعلق ضرور ادب سے ہے کیوں کے ہزاروں کے ہجوم میں قلم ایک کے ہاتھ میں تھا

اور وہ محبوبہ کے ساتھ تھا میرا دل چاہا اس کے پاس بیٹھ جاؤں اور ہم کلام ہو جاؤں اور بتاؤں اس کو بھی اس دنیا میں صرف تم ہی محبت نہیں کرتے دنیا میں ہر محبت کرنے والے کو اپنی محبت خاص لگتی ہے۔ زیادہ لگتی ہے اہم لگتی ہے۔ میں نے یہاں دنیا کے ہجوم میں اس نوجوان کو چنا تھا اور میں اس کے پاس جا بیٹھی اس محبت فروش کے ہاتھ سے الفاظ پکڑے، اور پڑھنے لگی وہ مزاج بدلتا ہے لہروں کی طرح۔ میں آج بھی ساکن ہوں کھڑے پانی کی طرح۔ پھر پڑھا آنکھوں میں ہر وقت پانی رکھو۔ زندگی میں ہر وقت روانی رکھو۔ پھر پڑھا

اندھیری رات میں ہم نے شمع نہیں جلائی۔ ہمسفر کے بغیر۔ ہم نے پانی میں کشتی نہیں چلائی۔ مجھے یہ الفاظ پڑھ کر اور اداسی ہوئی میرا دل چاہ رہا تھا اپنی زندگی کی تمام آسائشیں اس شخص کے نام کر دوں اس کو سینے سے لگاؤں اس کا غم خود میں اتار لوں مگر میری زیست کا حاصل میری کل دنیا بھی محض ایک ہی شخص تھا اور وہ یہ شخص خود تھا۔ میں اس شخص کے پاس بیٹھی ہوئی مسکرانے لگی اس نے ایک نگاہ ڈھلتے سورج پر ڈالی میرا ہاتھ تھاما۔ ہونٹ خاموش ہو گئے، آنکھیں بولنے لگیں۔ چہروں کی رونقیں لوٹنے لگیں۔ دل پھر۔ سے آباد ہوا
”میرا شریک حیات میرا ہوا“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments