غیرت کے نام پر قتل


غیرت کے نام پر قتل کرنا ایک ناسور ہے جو کہ اب بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا ہے۔ اس ناسور کی زیادہ تر شکار خواتین اور کم عمر بچے ہوتے ہیں۔ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کا تصور ثقافت سے آیا ہے۔ دراصل ثقافت ایک خالص تصور ہے۔ ہم نے یہاں پر ثقافت اور سماجی برائیوں کو یکساں لے کر ایک طرح سے ثقافت پر ظلم کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہر ثقافت کے بعض پہلو انتہائی موثر اور نایاب ہوتے ہیں۔ چین اور ایران نے اپنی ثقافت کو بنیاد بنا کر دنیا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

وہ الگ موضوع ہے کہ کس حد تک وہ کامیاب ہو چکے ہیں اور اس سوچ کو غلط قرار دیا کہ ثقافت ایک پرانی تصور ہے اس کو اب کم بروئے کار لانا چاہیے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ ہر سوچنے والا اور باشعور انسان ثقافت میں ایڈوانسمنٹ کا قائل ہے۔ جہاں تک غیرت کی بات ہے تو بدقسمتی سے مرد نے عورت کو اپنی عزت اور غیرت سے منسلک کیا ہے۔ ضروری تو یہ تھا کہ عورت مرد کی عزت سے پہلے انفرادی طور پر ایک انسان ہے اور انھیں انسان تسلیم کرنا لینا چاہیے۔

غیرت ایک ایسا نہ دیکھنے والا اور نہ ہی سمجھنے والا قابل اعتراض سوچ و فکر ہے جس کی کوئی بنیاد یا خاص وجہ نہیں ہے۔ یہ غیرت دراصل اونچے سطح کی سماجی برائیوں میں سے ایک ہے جو کہ انسان خاص طور پر مردوں کی ذہنوں پر اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ جب بھی عام لوگوں کے مطابق قابل اعتراض فعل بیٹی یا بہن سے سرزد ہو جائے تو مرد اپنی عزت کی بحالی کی خاطر اسے قتل کر دیتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ عزت کی بحالی کیا واقعی کسی انسان کی قتل کرنے سے واقع ہو سکتی ہے؟

غیرت کے نام پر قتل کرنے کا واقعہ جب بھی رونما ہوتا ہے تو مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ جلدی شادی کرنے کی رٹ لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ بعض لوگ متاثرہ انسان کی والدین کی ترتیب کو نشانہ بنا دیتے ہیں۔ انفرادی متاثر شدہ شخص کے بارے میں کوئی نہیں پوچھتا؟ کوئی بھی انسان آزاد اور مرضی کی زندگی گزارنے کے لئے رشتوں کا محتاج نہیں، جبکہ ہمارے ہاں نوبت یہاں تک آ جاتا ہے کہ رشتے ہی قتل کرنے پر اجائے۔ یہاں فیملی سسٹم پر انتہائی بڑا سوالیہ نشان آٹھ جاتا ہے جن کے عوض اور معاشرے کی ڈر سے ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں۔

جس معاشرے میں ساس کو بہو سے بیٹا چاہیے۔ بیٹا نہ ہوا تو بہو کو سبز قدم جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے اور جہاں پر لڑکی جوان ہو کر اس انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے کہ اگر کسی مرد کا پہلی بیوی سے کوئی بیٹا نہیں ہو تو یہ لڑکی اس سے شادی کر لے اور ان کے لئے بیٹا پیدا کرے تو اس معاشرے کے رہنے والوں کو کیسے سمجھایا جائے؟ کہ غیرت کے نام پر قتل کرنا ایک سماجی برائی ہے۔ جہاں تک سیکس کا تعلق ہے تو یہ ایک نجی عمل ہے۔

حیاتیات کے مطابق ہر نارمل انسان کو کھانے پینے جیسی ضرورت سیکس کی بھی ہے اور میچور لوگوں کے ہاں اپنے پسندیدہ انسان کے ساتھ سیکس کرنے کی شدت اور پرلطف احساس کو ایک خاص اور بہترین احساسات میں شمار ہوتا ہے جس میں ندامت اور پشیمانی نہیں ہوتی۔ جبکہ وہ لڑکیاں کی جن شادیاں والدین کی مرضی اور رضا کی خاطر سر جھکا کر ہوتی ہے اور ہاں میں ہاں ملاتی ہے تو نکاح کے بعد ان کا سیکس کرنا باشعور انسانوں کے ہاں ڈومیسٹک ریپ تصور کیا جاتا ہے۔ جس سے بہت سے لوگ نا آشنا ہوتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں ابتدائی مکتب میں سماجی برائیوں کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر ملتے ہیں اور ایسی موضوعات پر لوگ زیادہ تر کمزور وجہ اور دلیل کو زیر غور لا کر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ حالانکہ بڑوں کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو کسی بھی چیز کے بارے میں سخت منع کرنے کی بجائے انھیں سمجھائیں اور گائیڈ کریں کہ آنے والے ایسے ممکنہ صورتحال کا انسان سے سامنا ہو سکتا ہے۔

یہ سب چیزیں معاشرے کا وہ روپ اور چہرہ دیکھا رہے ہیں جیسے لوگ منہ چھپاتے ہیں اور ڈسکس نہیں کر سکتے۔ انفرادی طور پر ہر شخص خوب آگاہ اور آشنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی مجبوری میں منافقت کا ماسک چہرے پر لگا کر لوگوں کا سامنا کرتا ہے۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ستر فیصد خواتین گھریلو ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جن میں زیادہ تر ان کے رشتہ دار ملوث ہوتے ہیں۔ لیکن خواتین کی ایمپاورمنٹ کی کمی کی وجہ سے معاملہ رفع دفع ہو جاتا ہے اور پھر ایسی رپورٹ پر عوام کی دو طرح کی ردعمل آتا ہے، پہلے والے تو رپورٹ کو سازش قرار دیتے ہیں اور ان خبر کو جھوٹ مان لیتے ہیں جبکہ دوسرا سائڈ والے توبہ توبہ کا رٹ لگا بیٹھے ہوتے ہیں۔

دراصل کوئی ایک طریقے سے تو کوئی دوسرے طریقے سے حقیقت سے منہ چھپا لیتے ہیں۔ سب سے بنیادی چیز ہم نے غیرت کو عورت سے منسلک کیا ہے۔ بہو بیٹا پیدا نہ کرے، بیٹی یونیورسٹی جائے اور بہن سیل فون استعمال کرے تو کیا بے غیرت بن گئی؟ یا اس کے گھر کے مرد بے غیرت شمار ہوئے۔ اگر غیرت کے محل میں داخل ہونے کے لئے ہمیں کسی کا خون بہانا ہو گا اور کسی آزاد انسان سے زندگی چھیننا ہوگی تو ایسے غیرت سے بے غیرتی ہزار درجے بہتر ہے۔ مختصر یہ کہ حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو چاہیے کہ ویمن ایمپاورمنٹ پر خاص توجہ دے کر زیادہ کام کرے، تاکہ غیرت کے نام پر قتل جیسے ناسور سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments