انتہاپسندی اور عدم برداشت


چند دن پہلے ایک چھوٹی سی خبر نگاہوں سے گزری۔ خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی حافظ طاہر اشرفی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ متحدہ علماء بورڈ نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ نصاب کو انتہاپسندانہ مواد سے پاک کیا جائے گا۔ علامہ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ 307 کتابوں میں ممکنہ انتہاپسندانہ مواد کی نشاندہی ہوئی تھی۔ جسے حذف کر دیا گیا ہے۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور خبر بھی اخبارات میں پڑھنے کو ملی۔

خبر کے مطابق مختلف مکاتب فکر اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنماؤں نے چند دن پہلے نیشنل کا ؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے ہیڈ آفس کا دورہ کیا۔ علماء کے وفد نے اتھارٹی کے عہدیداران سے تبادلہ خیال کیا کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رجحان سے کس طرح سے نمٹا جائے اور اس ضمن میں کیا ضروری اقدامات مطلوب ہیں۔

اگر چہ یہ دونوں معمول کی خبریں ہیں جو اخبارات کے اندرونی صفحات پر شائع ہوئیں۔ مذہبی شخصیات کی طرف سے ایسے اعلانات اور دوروں کی خبریں بھی اکثر و بیشتر سننے پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ دونوں خبریں پڑھ کر اچھا لگا۔ ہمارا ملک اور عوام کئی برس تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے نتائج بھگتتے رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ چند سال پہلے تک دہشت گردی کے واقعات عام تھے۔ آئے روز بم دھماکوں اور دہشت گردی کے دیگر واقعات کی اطلاعات ملتی تھیں۔

سول اور ملٹری قیادت کے مختلف اقدامات کے ذریعے رفتہ رفتہ اس صورتحال پر قابو پا لیا گیا۔ نتیجتاً بلوچستان کے حالات بہتر ہوئے۔ کراچی کا امن بحال ہوا۔ اب کچھ برسوں سے ایسے واقعات کی تعداد میں نمایاں کمی آ چکی ہے۔ لیکن انتہاپسندی کا زور ابھی برقرار ہے۔ عدم برداشت اور عدم تحمل کے واقعات بھی آئے روز دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ ابھی چند ہفتے پہلے سیالکوٹ میں سی لنکن شہری کو جس بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا اس نے سارے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ ساری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ پشاور میں ایک طالب علم مشعال خان کا بہیمانہ قتل بھی ایسی ہی ایک مثال ہے، جو ساری دنیا میں ہماری بدنامی کا باعث بنا تھا۔ چند دن پہلے کی خبر ہے کہ ایک نوجوان نے اپنی امریکی نیشنل سابقہ بیوی کو اس وجہ سے قتل کر دیا کہ وہ بے چاری اپنی جائیداد کی واپسی کا مطالبہ کر رہی تھی۔ یہ اور ایسی کئی قتل و غارت گری کی خبریں ہمیں پڑھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس قسم کی خبریں دنیا میں ہمارا منفی تاثر ابھارتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر ہمارے سر پر کبھی فاٹف کی تلوار لٹکتی ہے اور کبھی کسی اور پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

قتل و غارت گری سے ہٹ کر بھی، عدم برداشت اور عدم تحمل کے مظاہرے کم و بیش ہر شعبہ حیات میں دکھائی دیتے ہیں۔ بد قسمتی سے یہ رجحان کم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ کی کارروائی کا جائزہ لیں تو مخالف جماعتوں کے سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف دھواں دھار تقاریر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لتے لیتے ہیں۔ بسا اوقات بات بڑھتے بڑھتے گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک جا پہنچتی ہے۔ کچھ سیاست دانوں کے سیاسی جلسوں اور تقاریر میں بھی اکثر اخلاقیات سے گری زبان اور الزامات تراشی سننے کو ملتی ہے۔ عوام یہ مناظر ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست دیکھتے ہیں اور متاثر ہوتے ہیں۔

عدالتوں کی کارروائی کا جائزہ لیں تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے کی خبر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں وکلاء نے عدالت پر دھاوا بول دیا۔ عدالت میں توڑ پھوڑ کی اور مار دھاڑ بھی۔ یہاں تک کہ چیف جسٹس کو کورٹ روم سے اٹھ کر اپنے چیمبر میں پناہ لینا پڑی۔ عدالتی کارروائی کے دوران، وکلاء کا ججوں پر چڑھ دوڑنا، گالی گلوچ کرنا، جج پر جوتا اچھال دینا، اور ڈرانا دھمکانا معمول کے معاملات بن چکے ہیں۔

اب تو میڈیا ایسی خبروں کو رپورٹ کرنا بھی ضروری خیال نہیں کرتا۔ خود میڈیا کا حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ عدم تحمل اور عدم برداشت کی ترویج میں میڈیا بھی برابر کا حصہ دار ہے۔ خاص طور پر سیاسی ٹی۔ وی ٹاک شوز میں برسوں سے جس طرح مہمان سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ تجزیے اور تبصروں کے نام پر جس طرح سیاستدانوں کے گریبان پھاڑے جاتے ہیں، یہ سب بھی عوام کے رویے کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف خود میڈیا بھی طاقتور شخصیات اور حلقوں کی عدم برداشت کا نشانہ بنتا رہتا ہے اور دباو کا شکار رہتا ہے۔ خاص طور پر غیر جانبدار صحافی اور صحافتی ادارے اکثر مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔ میڈیا کی کوئی خبر، پروگرام یا تجزیہ کسی با اختیار کو گراں گزر جائے تو جوابی ردعمل کے طور پر اس صحافی اور صحافتی ادارے کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عوام کے بھی یہی حالات ہیں۔ سڑک پر ٹریفک کی صورتحال دیکھیں، ہم ایک دوسرے کو راستہ دینے پر تیار نہیں ہوتے۔ ڈرائیونگ کے دوران لوگ ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرتے، ایک دوسرے سے الجھتے اکثر نظر آتے ہیں۔ دفاتر میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے اور گھریلو سطح پر بھی یہی صورتحال دکھائی دیتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ سگے بہن بھائی جائیداد اور لین دین کے معاملے میں باہمی لڑائی جھگڑے میں الجھے رہتے ہیں۔

نہایت ضروری ہے کہ ہم سب مل کر عدم برداشت اور عدم تحمل کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی حوصلہ شکنی کریں۔ سب سے بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنی ذات سے تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے کی پریکٹس شروع کریں۔ سیاست دان ہوں، اساتذہ ہوں، وکلاء ہوں، صحافی یا کوئی عام آدمی، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر رہتے ہوئے، اپنے رویے پر غور کرے۔ جہاں تک علمائے کرام اور مذہبی شخصیات کا تعلق ہے تو ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری اس وجہ سے بھی عائد ہوتی ہے کہ دین اسلام کی ترویج کرنا اور بنیﷺ کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا ان کا فریضہ ہے۔ ہمارے سماج میں دینی شخصیات کا خصوصی احترام کیا جاتا ہے۔ عوام اور خواص ان کی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ لیکن یہ افسوس ناک صورتحال بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ مختلف دینی شخصیات بھی آپس میں الجھی رہتی ہیں۔ ان کی طرف سے بھی انتہا پسندی اور عدم برداشت کا تاثر عوام تک جاتا ہے۔

بہرحال یہ خبریں پڑھ کر اچھا لگا کہ مختلف مکاتب فکر اور مسالک کے علماء نصاب تعلیم سے انتہا پسندانہ مواد نکالنے پر متفق ہیں اور نیکٹا جیسے اہم قومی ادارے کے ساتھ مل کر ملک سے انتہا پسندی سے نمٹنے میں اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس صورتحال سے نکلنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ گلی محلے کی مسجد کا مولوی ہو یا ملک کی نامور یونیورسٹی کا پروفیسر، سیاستدان ہو یا صحافی، وکیل ہو، ڈاکٹر یا کوئی عام آدمی، تحمل اور برداشت کی ترویج میں ہم سب اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تب ہی سماج میں تبدیلی آئے گی۔

۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments