یہی تو خاص بات تھی ہمارے مدبر بھائی کی!


” ظفر! مدبر بھائی کا انتقال ہو گیا“ ۔ دوسری طرف ظفر تڑپ کر بولا۔ ”ان کا انتقال تو اسی دن ہو گیا تھا، جس دن انہوں نے پاکستان چھوڑا تھا۔ ان کا جسم کینیڈا میں تھا مگر ان کی روح ہمارے پاس تھی پاکستان میں“ ۔ فون بند کر کے ہم سوچتے رہ گئے۔ مدبر بھائی کو ہم سے بچھڑے ایک دہائی سے اوپر ہو گیا تھا۔ وہ بچوں کے پاس کینیڈا چلے گئے تھے مگر اب بھی وہ ہمارے دلوں کی راہداریوں میں بھٹکتے، نظر آتے تھے۔ مدبر بھائی واقعی چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا تھے۔

لگتا تھا جیسے کئی لاکھ کتابیں اور تاریخ کے اوراق ان کے اندر بند ہیں۔ کوئی بھی الجھا سوال ہو۔ کوئی بھی تاریخ کا حوالہ ہو، نثر کی راہ گزر ہو یا شاعری کا در ہو۔ مدبر بھائی پر کھلا ہوا تھا۔ کسی بھی لفظ کا مصدر، مطلب یا قبلہ پتہ نہ ہو تو سب ہی مدبر بھائی کے پاس چلے جاتے اور وہ چٹکیوں میں مسئلہ ٔ حل کر دیتے اور سائل کو لے کر علم و تدبر کے دریا میں اتر جاتے۔ ایک میٹھی سی، شریر مسکراہٹ ان کے لبوں پر ہر وقت کھیلتی رہتی۔

رہ رہ کر شوخ و شریر چمک گہری غلافی آنکھوں سے ٹکراتی اور جگنو کی طرح غائب ہو جاتی۔ مگر وہ شرارت دیر تلک ان کے ہونٹوں سے کھیلتی رہتی۔ میٹھے میٹھے طنز اور مزاح کے تیر چلاتے رہتے مگر کسی کی انا کو مجروح نہ کرتے۔ ان کے کمرے میں جو پر لطف بیٹھکیں ہوتی تھیں ان میں اکثر امیر امام صاحب، ظفر اکبر، آصف انصاری، ظہیر خان صاحب، قاسم جلالی صاحب، بختیار صاحب، حسن شہید مرزا، صہبا اختر، محسن علی، ریحان اعظمی، سلیم کوثر، ناظم الدین، اقبال حیدر، عشرت انصاری شاہین انصاری، علی رضوی، بجیا، حسینہ آپا طارق جمیل، ہم اور کبھی کبھار سلطانہ صدیقی، شہزاد خلیل، راحت کاظمی، اطہر وقار عظیم، ساحرہ کاظمی، طلعت حسین، قیصر مسعود جعفری اور دیگر نیاز مند شامل ہوتے۔ برجستگی اور بذلہ سنجی کا مطلب امام صاحب اور مدبر بھائی کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے سمجھ میں آیا۔

ان کا ایک مخصوص حلیہ تھا۔ منٹو کی طرح موٹے فریم کا چشمہ ( وہ ظاہری بناوٹ اور دکھاوے پر یقین نہیں رکھتے تھے ) مخصوص سفاری سوٹ اور بغل میں ایک موٹے کپڑے کا تھیلا، جو کبھی کبھار کندھے پہ بھی جھولنے لگتا۔ کئی دفعہ دل چاہا کہ ان کے تھیلے میں جھانک کر دیکھیں کہ اس میں کاغذات، قلم اور کتابوں کے علاوہ اور کیا کیا رکھا ہے؟ ویسے اکثر ان کا ٹفن بھی اسی میں سے برآمد ہوتا تھا۔ ایک لا ابالی سا حلیہ جیسا کہ خالص دانشوروں کا ہوتا ہے۔

ایک دن مدبر بھائی بڑے چمکتے ہوئے، نکھرے نکھرے، دھلے دھلے سے۔ امام صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ بالوں کی پٹیاں بھی بڑے اہتمام سے جمی ہوئی تھیں اور چہرے پر تازگی لئے اپنی مخصوص، معصوم سی مسکراہٹ کے ساتھ۔ امام صاحب بھی کم شریر نہ تھے ہر وقت کوئی نہ کوئی شرارت انہیں سوجھتی رہتی تھی، مدبر بھائی کو دیکھتے ہی چہکے اور بولے۔ ”ارے! مدبر صاحب! واہ۔ آج تو لگتا ہے کہ بھابھی نے بڑا دھو، مانجھ کر بھیجا ہے آفس؟“

مدبر بھائی، جھینپ گئے تو امام صاحب ہم سے (جن میں ظفر اور آصف صاحب بھی شامل تھے ) بولے ”ماشا اللہ! ہے ناں؟ کتنا چمک رہے ہیں۔ پرفیوم اور آفٹر شیو بھی لگایا ہوا ہے“ پھر مدبر بھائی کی طرف پلٹے۔ ”ورنہ! آپ نے تو صبح اٹھ کر انگلیوں کی پوریں پانی میں بھگوئیں اور آنکھوں کی کچیاں صاف کیں اور پھر وہی گیلی پوریں بالوں پر پھیر لیں اور ناشتہ کر کے آفس آ گئے، کیوں ہیں ناں؟“ پھر ان کی نظر مدبر بھائی کے تھیلے پر پڑی۔ ”ارے بھئی! آج تو تھیلا بھی ان کی طرح دھلا دھلا سا لگ رہا ہے، لگتا ہے اسے بھی پانی میں غوطے دے دے کر نہلایا گیا ہے کیوں؟“ ۔

مدبر بھائی اپنے مخصوص انداز میں کسمسائے ء اور شرما کر بولے ”نہیں تو ! اب ایسا بھی نہیں ہے۔“ وہ اپنے چہرے کے تدبر اور متانت میں رتی بھر فرق نہیں آنے دیتے تھے اور ہر مذاق کو بڑے رسان سے اور بھرپور متانت سے سہتے تھے۔ انہیں امام صاحب کی چلبلی شریر فطرت اور ان کی محبت کا اندازہ تھا۔ ان کی ذات میں ایک جہان محبت سمایا ہوا تھا اور ان کی اعلی ظرفی کی وجہ سے ان کا قد دن بہ دن اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ انہیں دیکھ کر ہمیں یونانی فلسفیوں کا حلیہ یاد آتا تھا۔

یونان کی گلیوں کوچوں میں دانشوروں اور مفکروں کا حلیہ یہ ہوتا تھا کہ وہ ظاہری نمود و نمائش سے مبرا، لمبے لمبے چوغے پہنے، بلا معاوضہ، بحر علم کے موتی بانٹتے پھرتے اور فیض یاب ہونے والے ان کے عقیدت مند شاگرد جن میں اکثر امرا۔ ء ہوا کرتے تھے، خاموشی سے ان کی سلوٹوں میں پوشیدہ جیبوں میں پیسے ڈال دیا کرتے تھے۔ ان فلسفیوں میں، ارسطو، سقراط، افلاطون جیسے قد آور لوگ تھے۔ مدبر بھائی کی کوئی جیب نہیں تھی مگر ان کا دماغ ایک بہت بڑی ”زنبیل“ تھا جس میں سے وہ علم کے موتی نکال نکال کر فراخدلی سے بانٹا کرتے تھے۔

ان کا ایک مخصوص شستہ انداز تھا مذاق کا بھی۔ امام صاحب، جب پی ایم ( پروگرام مینیجر) تھے تو اکثر مدبر بھائی ان کے کمرے میں آتے اور وہاں ہم سب (ہم، ظفر اکبر، آصف انصاری، ظہیر خان وغیرہ) بھی ہوتے۔ باتیں کرتے کرتے ایک دم چہکتے اور کہتے۔ ”ارے بھئی اوس کیوں پڑی ہوئی ہے سب کے چہروں پر ، آج آپ لوگ“ غیبت ”کے لڈو نہیں کھا رہے؟ ( یہ کون سے لڈو تھے، بہت بعد میں سمجھ میں آئے ) ۔

ایک دن ہم سب حسب معمول، پی ایم آفس میں جمع تھے۔ ایک دم مدبر بھئی نے کہا۔“ ہاں تو لائیے غیبت کے لڈوؤں کی پلیٹ، سب مل کر کھاتے ہیں۔ تو آج کس کی جڑوں میں پانی دیا جائے گا؟ ”امام صاحب نے مسکراتے ہوئے، جی ایم ( بلوچ صاحب ) کے آفس کے Connecting door کی طرف دیکھا اور ہم سے کہا“ بی بی! ذرا دیکھئے گا، جی ایم (جنرل مینیجر) کمرے میں ہیں یا نہیں ( اس وقت ہم ذرا نئے نئے تھے ٹی وی میں مروج محاوروں اور لغت سے قطعی نابلد۔ بس اتنی ہی عقل تھی جتنی ایک عقل سے پیدل، کورے پروڈیوسر میں ہوتی ہے ) سنتے ہی کمان سے نکلے تیر کی طرح بلوچ صاحب کے کمرے کی طرف لپکے۔

جو حضرات ٹی وی کی۔ ”غلام گردشوں“ سے آگاہ ہیں، انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ جی ایم آفس کے صدر دروازے کا ایک راستہ مین لابی سے ہو کر سامنے سے آتا ہے تو دوسرا، پی ایم آفس سے نکل کر پیچھے سے گھوم کر آتا ہے۔ اپنی اوقات کا اندازہ کرتے ہوئے ہم پیچھے سے گھوم کر آئے تو دیکھا بلوچ صاحب اپنے کمرے سے نکل کر لابی کی طرف رواں دواں تھے (یعنی ان کی پشت ہماری طرف تھی) ہم نے ٹھٹھک کر اپنے نشانے کو تاڑا اور پھر آنکھیں بند کر کے دوڑ لگا دی۔ لابی کے مین گیٹ پر انہیں روک لیا۔ ”سر وہ۔ آپ۔ آپ جا رہے ہیں؟“ بلوچ صاحب ٹھٹھک گئے ”

” جی ہاں! مگر کیوں، کیا بات ہے بابا؟“ بغلیں جھانکتے بلکہ ہانپتے ہوئے ہم منمنائے۔ ”وہ۔ وہ۔ آپ۔ آپ۔ سے پی ایم۔ مطلب امام صاحب اور شاید مدبر بھائی۔ دونوں کو کوئی بہت ضروری کام ہی۔“ ’۔‘ اچھا بابا چلو! ”۔ ہم آگے آگے۔ بلوچ صاحب پیچھے پیچھے۔ ہم اپنی جھونک میں پی ایم آفس میں دستک دیے بغیر گھس گئے اور پھولی ہوئی سانس کے ساتھ بولے۔“ روک لیا ”۔ سب کی چلتی ہوئی زبانوں کو جیسے بریک سے لگ گئے۔ ہمارے پیچھے سے بلوچ صاحب جھانکے۔

“ ہاں بابا! کیا کام ہے۔ کوئی ایمرجنسی ہے کیا؟ ”امام صاحب نے خوں بار نظروں سے ہمیں دیکھا، سب با جماعت (ہم سمیت) بغلیں جھانکنے لگے مگر صرف ایک شخص یعنی ہمارے مدبر بھائی کے حواس اسی خود اعتمادی اور تحمل سے پاؤں جمائے کھڑے رہے۔ بڑے بردبار اور پر اعتماد لہجے میں بولے۔“ بی بی! آپ سے کہا کیا تھا اور آپ سمجھیں کیا؟ ”۔ پھر بلوچ صاحب سے مخاطب ہوئے۔“ ہم سوچ رہے تھے کہ کیوں نہ پروگرام آج ہی پری ویو کر لیا جائے ”۔

“ مگر ابھی تو کافی ٹائم ہے۔ ہم کل کر لیں گے ”۔ امام صاحب نے لقمہ دیا۔ اس کے بعد سے جب بھی پی ایم آفس میں غیبت کے لڈو بٹتے تو ہم جیسے عقل اور کانوں کے کچے لوگوں کو وہاں سے ہانک دیا جاتا تھا۔ ادھر لڈوؤں کی پلیٹ سجائی جاتی ادھر مدبر بھائی ہنکارا بھرتے اور شوخ لہجے میں بڑی تمیز سے کہتے۔“ ہاں بھئی! کانوں کے کچے اور عقل کے اندھے لوگ باہر کا راستہ دیکھیں۔ کیونکہ اب غیبت کے لڈو بٹیں گے ”۔ اور ہم برا منائے بغیر بڑی تمیز سے اپنی فائل اٹھاتے اور باہر نکل جاتے۔

مگر جب بھی ہم کام کے سلسلے میں کوئی اسکرپٹ لے کر ان کے پاس جاتے تو وہ ساری شوخی و شرارت بھول کر حد سے زیادہ پروفیشنل بن جاتے۔ اس وقت ان کی قابلیت اور سنجیدگی عروج پر ہوتی تھی یقین ہی نہیں آتا تھا کہ یہ تھوڑی دیر پہلے والے چلبلے سے مدبر بھائی ہیں۔ وہ بڑے بے نیاز سے تھے اور دنیا بھر کے عقیدت مند جیسے ان کے مرید تھے۔ ہم دن بہ دن مدبر بھائی پر فدا ہوتے چلے گئے۔

ہمیں جب بھی فرصت کے چند لمحات ملتے تھے، ہم بھاگتے دوڑتے، مدبر بھائی کے کمرے کی طرف لپکتے تھے۔ ان کے کمرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی صاحب ذوق موجود ہوتا تھا۔ ہمیشہ ایک بھیڑ سی لگی رہتی، شستہ مذاق، چٹکلے، چٹکیاں، قہقہے۔ جیسے زندگی ان کے کمرے میں دوڑتی تھی۔ ان کے کمرے میں بیٹھ کر ایک عجیب سی راحت ملتی، ان کے مزیدار اور شریر جملے ہماری کوفت اور تھکن اتار دیتے۔ اگر کبھی کوئی سکہ بند، چاپلوس، چرب زبان آ کر بیٹھ جاتا تو ایک دم فرش کی طرف دیکھتے اور پھر وہی مخصوص شریر چمک آنکھوں میں اور مچلتی شوخی لبوں پر آ جاتی اور فرماتے۔ ”ارے بھئی! یہ اچانک شہد کا دریا یہاں کیوں ٹھاٹھیں مارنے لگا؟ صاحب! آپ کے قدم رنجہ فرمانے سے پہلے تو یہاں سوکھا ہی سوکھا تھا“ ۔ ہم سب منہ دبا لیتے کہ کہیں ہنسی نہ چھوٹ جائے۔ اور وہ بد عقلا کچھ سمجھے بغیر ڈٹا بیٹھا رہتا۔

مدبر بھائی ہیڈ آف اسکرپٹ ڈپارٹمنٹ تھے مگر ان کا خمیر، عجز و انکساری سے گندھا ہوا تھا لیکن دوستی کے معاملے میں جہاں وہ بڑے نرم خو تھے وہیں کام کے معاملے میں اتنے ہی سفاک تھے۔ ہر اسکرپٹ کو بڑے غور سے پڑھتے اور پھر بڑی ایمانداری سے اس کے ساتھ منسلک، فارم پر لکھتے۔

” انتہائی غیر معیاری اسکرپٹ ہے، خریدنے پر پیسوں کا زیاں ہو گا“
”بہت خوب، خریدنے کی سفارش کی جاتی ہے۔“
”ترمیم کی گنجائش کے ساتھ خریدا جا سکتا ہے“ ۔

مدبر بھائی کے ہاں صاف ستھرے اور معیاری اسکرپٹ کی خوب آؤ بھگت کی جاتی یعنی وہ رائٹر سے بہت، تمیز، اہتمام اور خلوص سے ملتے، اگر کوئی مشورہ دینا بھی ہوتا تو بڑی نفاست اور سلیقے سے دیتے۔ اور اگر بہت ہی معیار سے گرا ہوا اسکرپٹ ہوتا تب بھی اس آدمی کی کبھی ہتک نہ کرتے، بس خاموشی سے ایماندارانہ رائے لکھ کر آگے بڑھا دیتے۔ ان کی بیٹھک میں یہ نہیں پتہ چلتا تھا کہ کون شخص ”گنوں“ کا پورا ہے اور کون ”ادھورا“ ہے۔ ان کی خاندانی وضعداری، تمکنت اور بات چیت کبھی اپنی ڈگر سے نیچے نہیں اترتی تھی۔ یہی تو خاص بات تھی ہمارے مدبر بھائی کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).