جب حافظ جی نے پہلا قدم اٹھایا


تھانے کی مسجد میں آ کر نماز پڑھانے والا یہ نوجوان حافظ حق نواز مجھے بہت دلچسپ معلوم ہوتا تھا، اس لیے نماز کے بعد میں اس سے کوئی ہنسی مذاق کی بات کر لیا کرتا تھا، اس کے چہرے پہ پھیلی اداسی کی دبیز چادر کچھ وقت کے لیے ہٹ جایا کرتی تھی، وہ معمولی شکل و صورت کا حامل تقریباً بیس سالہ نوجوان تھا جس کا لہجہ عاجزی سے بھرپور تھا، آواز میں حد درجہ لجاجت تھی، شکل و صورت اور لباس سے مفلسی ٹپکتی تھی، بات کرتے ہوئے بھی اس کی نگاہیں زمین میں گڑی رہتی تھیں، دوران گپ شپ میں اس کے کھانے کے لیے کوئی نہ کوئی چیز ضرور منگوا لیا کرتا تھا، اس طرح ہلکی پھلکی گپ شپ ہو جایا کرتی تھی، تھانے کی مسجد میں جو اکا دکا نمازی ہوتے تھے، وہ بھی نماز کے فوراً بعد چلے جاتے، کوئی امام صاحب سے خاطر خواہ بات چیت نہیں کرتا تھا، میں اس لیے بھی حافظ جی سے حال چال ضرور لے لیا کرتا تھا کہ اس بیچارے سے کوئی بولتا ہی نہیں، میرے اس سلوک کی وجہ سے وہ میرے قریب ہونے لگا اور ڈرتے ڈرتے اپنے ذاتی مسائل بھی مجھ سے ڈسکس کرنے لگا۔

رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو میں نے حافظ جی کو روزانہ کی افطاری اپنے ساتھ کرنے کی دعوت دی جو انھوں نے بلا تردد قبول کر لی، ہم دونوں افطاری کا دستر خوان سجا کر بیٹھ جاتے اور نماز مغرب کے بعد قریبی ہوٹل سے جاکر کھانا کھا لیتے تھے، اس کا گھر تھانے سے زیادہ دور نہیں تھا لہٰذا وہ گھر کا چکر لگا کے دوبارہ نماز پڑھانے آ جاتا تھا۔

ایک دن جب میں تھانے میں آیا تو میں نے عجیب منظر دیکھا کہ حافظ حق نواز تھانے کے منشی سے تنخواہ کا تقاضا کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ رمضان کا مہینہ ختم ہونے کو ہے، عید آنے والی ہے، لہذا اسے اس کی تنخواہ دی جائے، منشی اس کی نحیف و نزار آواز کو بدستور نظر انداز کر رہا تھا، جب حافظ جی نے دو تین بار کہا تو منشی نے کرخت لہجے میں جواب دیا ”اسی کیہڑا تیرے پچھے نماز پڑھدے آں، جیہڑھے پڑھدے نیں اونہاں توں لے“ ( ہم کون سا تیرے پیچھے نماز پڑھتے ہیں، جو پڑھتے ہیں ان سے لے ) ۔ حافظ جی یہ جواب سن کر اٹھے اور تھانے میں موجود سارے ملازمین کے پاس گئے مگر ایک دو کے علاوہ کسی نے بھی حافظ جی کو کچھ نہیں دیا اور جنھوں نے دیے، انھوں نے بھی سو پچاس سے زیادہ نہیں دیے۔

شام کو افطاری میں حافظ جی بہت زنجیدہ دکھائی دیے جس کی وجہ میں بخوبی جانتا تھا، میں نے اپنی استعداد کے مطابق جو امداد کی وہ بھی بہت زیادہ نہ تھی، اس لیے حافظ جی کی اداسی چنداں کم نہ ہوئی۔ باتوں باتوں میں حافظ جی نے ذکر کیا کہ اس کے والد کی اپنی ذاتی دو دکانیں ہیں مگر اس نے انھیں کرائے پہ چڑھا رکھا ہے، کرائے کی رقم سے گھر نہیں چلتا اور ابا نے جوانی کے دنوں میں مستقل طور پر کوئی کام کاروبار نہیں کیا، اب تو بڑھاپے کی طرف گامزن ہے، اب کیا کرے گا، مجھے اور چھوٹے بھائی کو حفظ میں ڈال دیا، میں کر چکا ہوں وہ کر رہا ہے۔

میں اس کی باتیں سن کر حیران ہوا کہ اپنی ذاتی دکانیں رکھنے کے باوجود وہ کام کاروبار کے لیے پریشان ہوتا پھر رہا تھا۔ میں نے حافظ جی سے پوچھا ”کیا آپ کا والد کسی ایک دکان کو کرائے دار سے واپس لے کر آپ کو دے سکتا ہے“ ؟ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا بالکل نہیں دے گا کیونکہ وہ اکثر مجھے یہ کہتا ہے تم بالکل نالائق ہو، کچھ کمانے کھانے کے لائق نہیں ہو، ان حالات میں وہ مجھے دکان خالی کروا کے کیسے دے گا جب کا وہ مستقل کرایہ لیتا ہے۔ حافظ جی ”میرے کہنے پر ایک بار بات تو کرو“ میں نے زور دے کر کہا۔

لیکن سر جی میں دکان لے کر کروں گا کیا، میرے پاس پیسہ ہے نہ تجربہ۔ ”حافظ جی انسان کا سب سے بڑا تجربہ در بدر کی ٹھوکریں ہیں جو وہ کھاتا ہے، آپ چند ٹکوں کے لیے ہر روز ٹھوکریں کھاتے ہو، یقین کرو آپ سے بڑا تجربہ کار کوئی ہو ہی نہیں سکتا، آپ کوئی بھی کام کر کے دیکھ لو آپ کامیاب رہو گے، یہ میرا دل کہتا ہے“ میں نے درد مندی سے بھرپور لہجے میں کہا ”اور رہی پیسے کی بات تو اس کا بھی اللہ تعالیٰ ضرور بندو بست کر دے گا، انشاء اللہ۔

عید کے بعد حافظ جی سے ہونے والی پہلی ملاقات میں اس نے بے صبری سے مجھے بتایا ”ابا نے دکان کرائے دار سے چھڑوا کر مجھے دینے کی حامی تو بھر لی ہے مگر ابا مجھ سے یہ بار بار پوچھ رہا تھا کہ میں آخر کروں گا کیا؟ اب مجھے یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اب میں کیا کروں گا، اگر مجھ سے کچھ ایسا ویسا ہو گیا تو ابا مجھے گھر سے نکال دے گا“

ایسا کچھ نہیں ہو گا، تم نے ایک کامیابی حاصل کر لی مزید کامیابیاں تمہاری منتظر ہیں، میں نے اسے حوصلہ دیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاؤ تمہاری دکان کے ارد گر کس طرح کے لوگ آباد ہیں؟ اس نے بتایا کہ زیادہ تر غریب کمہار ہیں جنھوں نے گدھے پال رکھے جن سے وہ بار برداری کا کام لیتے ہیں، کچھ لوگوں نے گائیں، بھینسیں، بھیڑ اور بکریاں بھی پال رکھی ہیں، یعنی گرد و نواح میں زیادہ تر غریب مویشی پال لوگ رہتے ہیں، ”آپ کے پاس کل ملا کر اس وقت کتنے پیسے جمع ہو سکتے ہیں؟“ میں نے ایک اور سوال کیا جس کا جواب دینے سے قبل وہ خلاؤں میں گھورنے لگے اور دل ہی دل میں حساب لگانے لگے۔ ”سر جی زیادہ چھلانگ بھی لگاؤں تو بیس ہزار سے زیادہ نہیں ہوسکتے“

میں نے کہا ”بس ٹھیک ہے۔ آپ کھل، دانہ چوکر یعنی مویشیوں کی خشک خوراک کی دکان بناؤ گے، آپ پانچ پانچ ہزار دے کر دگنی رقم کا مختلف سامان مارکیٹ سے آرام سے لے سکتے ہو، یعنی آپ بیس ہزار لگا کر چالیس ہزار کا سامان اٹھاؤ گے اور اس طرح اپنے کاروبار کے سرکل کو چلاؤ گے۔ حافظ جی میری بات ایسے سن رہا تھا جیسے میں کسی اور سیارے کی بات کر رہا تھا، وہ اس بات پہ زیادہ حیران تھا کہ بیس ہزار دے کر چالیس ہزار کا مال کیسے اٹھایا جا سکتا ہے۔

اس بات کے کچھ عرصے کے بعد میرا تبادلہ ہو گیا، لیکن خوشی کی بات یہ کہ حافظ جی نے دکان بنا لی، وہ تھانے کی مسجد میں امامت کے ساتھ کھل، چوکر، ونڈہ، دانہ کی دکان پہ خرید و فروخت کا کام کرنے لگا، وہ وقتاً فوقتاً مجھے فون کر کے بتاتا رہتا تھا کہ اس کا کام چل نکلا ہے وہ اس مالی تنگی سے نکل آیا ہے جس کا وہ اکثر شکار رہتا تھا۔ میں یہ سن کر خوش ہوتا تھا شاید اس لیے بھی کہ وہ اس کا کریڈیٹ مجھے دیتا نہیں تھکتا تھا۔

میں ایک محکمانہ کورس کے سلسلے میں سال بھر کے لیے اسلام آباد مقیم ہو گیا اور پوری کوشش کے باوجود حافظ جی کی دکان دیکھنے نہ جا سکا، پھر دو طرفہ مصروفیات کی وجہ سے کافی عرصہ ہماری بات چیت بھی نہ ہو سکی۔

کورس ختم کرنے کے بعد میں واپس اپنے ضلع کو لوٹ آیا، ایک دن بازار سے گزر رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے کسی نے آواز دی، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حافظ حق نواز دونوں بازو پھیلائے تیزی سے میری طرف بڑھ رہا تھا، مجھے یہ سب دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی کہ حافظ جی کی صحت اور ان کے لباس میں مثبت تبدیلی آ چکی تھی، وہ ہشاش بشاش اور خوش دکھائی دے رہا تھا۔ وہ خوشی خوشی مجھے اپنی دکان میں لے گیا جہاں پر بہت سی کھل، چوکر، ونڈہ، دانہ کی بوریاں تہہ بہ تہہ رکھی ہوئی تھیں، کچھ بوریوں کے منہ کھلے ہوئے تھے جو شاید پرچون بیچنے کے لیے رکھی گئی تھیں۔

حافظ جی نے میرے اکرام میں بہت سی کھانے پینے کی چیزیں منگوا لیں اور خوشی کے عالم میں ترتیب طعام کو آگے پیچھے کر بیٹھے اور چائے اور تین چار طرح کے بسکٹس کھلانے کے بعد پھل فروٹس منگوا کر کھانے پہ اصرار کرنے لگے، میں ان کی آنکھوں میں محبت کی چمک اور خلوص کی طمانیت دیکھ رہا تھا اور ان کی کامیابی پر حیران ہونے کے ساتھ دل ہی دل میں بہت خوش بھی ہو رہا تھا، لیکن اس وقت میری حیرت دو چند ہو گئی جب حافظ جی مجھے اپنی دکان کے ساتھ ایک بغلی گودام میں لے گئے جہاں پر کھل، چوکر وغیرہ سٹاک کی صورت میں موجود تھا، میں کبھی حافظ جی کو دیکھتا تھا اور کبھی اس بھرے گودام کو ، حافظ جی نے مجھے یہ بات بتا کر مزید حیرت میں ڈال دیا کہ اس نے پیسے جوڑ کر اماں ابا کو عمرہ بھی کروا دیا ہے، مجھے یہ سب دیکھ اور سن کر نہایت خوشی ہو رہی تھی، پھر اس کے بعد حافظ جی مجھے ایک اور دکان پر لے گئے جس کے شٹر پر جلی الفاظ میں ”حافظ موبائلز“ لکھا ہوا تھا، میں نے ماجرا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہ دکان انھوں نے پہلی دکان کی کامیابی کے بعد بنائی، اس دکان کو ان کا چھوٹا بھائی چلاتا ہے۔

آج کافی عرصے کے بعد حافظ جی نے واٹس ایپ پہ میسج کیا، دیکھا تو اس کی شادی کا کارڈ تھا جس پہ بہت سے خوبصورت بیل بوٹے بنے ہوئے تھے، میں سوچ میں پڑ گیا کہ بعض اوقات ہماری تھوڑی سی پر خلوص محنت سے کتنے پھل پھول اور بیل بوٹے اگ آتے ہیں، وہ مالک کل ہمارے قدم اٹھاتے ہیں ہماری راہوں کو کشادہ کرنا شروع کر دیتا ہے، بس ہمیں پہلا قدم اٹھانا ہوتا ہے، ”پہلا قدم“ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments