دیوار گریہ کے ساتھ ساتھ


( مسجد اقصی اور قبہتہ الصخرہ کو دیکھ لیا، مختلف مقدس مقامات کی زیارت بھی ہو گئی اور ان سے منسوب واقعات سے آ گہی بھی ہو گئی اور اب

چلتے ہیں نبیل انصاری کے ڈنر پر جہاں مسافر کا انتظار ہو رہا ہے )

ڈنر پر مسافر کی ملاقات ایک بزرگ سے کرائی گئی جو یہ سن کر کہ ایک پاکستانی اپنا لبریز دل لئے یروشلم اور فلسطین تک آ پہنچا ہے تو انھوں ملاقات ضروری سمجھی تھی اور یہ تھے شیخ نائف

مگر کون ہیں یہ شیخ نائف؟

یہ سماجی لحاظ سے برادری کے بڑے اور سلسلہ شطاریہ کے شیخ بھی ہیں اور شطار کا مطلب ہے برق رفتار، عمر اسی سال اور بے حد مہذب، خوبصورت اور بے عیب انگریزی بو لتے ہوئے مسافر کے تمام گنجلک اور الجھے ہوئے سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔

ہیکل سلیمانی سے لے کر تابوت سکینہ تک اور یہودیوں کی دنیا پر قبضے کی یہ ہوس کیوں ہے؟ قاری اس گفتگو کے سحر میں جکڑ کر رہ جاتا ہے، قرآنی حوالوں کے ساتھ اس بات چیت سے رقیق ہوتا دل لے کر کیا کہا جائے سوائے ”سبحان اللہ“

یروشلم کے نواح میں مسلمانوں کا قدیم قبرستان جہاں ہزاروں مسلمان بشمول دو صحابہ اکرام محو خواب ہیں (سید نا عبادہ ابن ثامت رضی اللہ اور عاص ابن شداد رضی اللہ) یہ احوال یقیناً دل کو رقیق اور دنیا کی نا پائیداری کا احساس دلاتا ہے اور یہیں پر جبل الزیتون ہے۔ اس کی یہودیوں اور عیسائیوں میں بہت اہمیت ہے مگر مسلمان دینی حوالوں سے ذرا لاتعلق سے ہیں۔

یہودیوں کا خدا جسے وہ ”یہوا“ کہتے ہیں جو روز قیامت اسی پہاڑ پر نمودار ہو گا اور یہ پھٹ کر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ یہودی اس پہاڑ پر دفن ہونا سعادت سمجھتے ہیں اور کوئی لاکھوں یہودی یہاں دفن ہیں۔

عیسائیوں کا معاملہ قدرے فرق ہے جو عیسی (ع) ابن مریم (ع) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ عیسی (ع) کا ظہور اسی پہاڑ پر ہو گا اور وہ یہاں سے اتر کر مشرقی دروازے سے یروشلم میں داخل ہوں گے۔ اس کے گرد و نواح میں بے شمار چرچ اور حضرت مریم (ع) کا مزار مبارک بھی ہے اور وہاں ہر وقت سیاحوں کا ہجوم رہتا ہے۔

Jerusalem – Wailing Wall and Temple Mount

زیتون کے اس باغ میں قدم قدم پر مقدس آثار قدیمہ ہیں جیسے ”کلیسہ آلام“ یہ وہ جگہ ہے جہاں بڑے بڑے پتھروں کے درمیان اپنی گرفتاری سے قبل حضرت عیسی (ع) نے رات بھر عبارت کی تھی۔ یہاں اور بھی بہت سی مقدس نشانیاں ہیں۔

مسافر پہاڑ سے اتر کر ایک سمت کو ہو لیا تو حضرت سلمان فارسی (رض) کے مزار اور مسجد میں خود کو پایا جہاں ایک پینٹنگ جنگ خندق سے متعلق آویزاں تھی کیونکہ روایت ہے کہ وہ بھی ان چند صحابہ اکرام میں شامل تھے جنھوں نے دفاع کے لئے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا۔

یہاں ”مرقد الانبیا“ ہے جو زیر زمیں ہے اور توریت کے مطابق تین انبیا کی قبور یہاں ہیں۔ ان میں زکریا (ع) حجائی (ع) اور ملاکی (ع) نام سامنے آتا ہے اور ان کا زمانہ پانچ سو سال قبل مسیح ہے۔ ایک بے حد اندھیرا کمرہ جس میں موم بتی جو گارڈ فراہم کرتا ہے کی روشنی میں بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا سو خوفزدہ مسافر شاید پلٹ جائے مگر ایک نسوانی گنگناہٹ نے قدم روک لئے اور آواز کی جانب کشاں کشاں کھنچنے لگا۔

قریب پہنچ کر ایک اور موم بتی کی روشنی میں ایک نوجوان یہودی لڑکی اپنے مخصوص حجاب کو لپیٹے کچھ گائے چلی جا رہی تھی اور ایک نوجوان جو یہودیوں کی مخصوص ٹوپی اور شال پہنے تھا سجدے میں پڑا تھا۔ یہاں مسافر کا اشتیاق اور ان لوگوں کا گریز بہت دلچسپ ہے مگر بالآخر بات چیت ہو جاتی ہے اور مسافر کے اصرار پر وہ منقبت جو لڑکی گنگنا رہی تھی کا مطلب یہاں درج ہے

”ساون آیا اور برس کر چلا گیا
فصلیں کٹ گئیں، موسم بیت گئے
اب درختوں پر زیتون جگمگاتے ہیں
پر میرے نبی (ع) ! تمھاری یاد ہے کہ میرے دل سے جاتی ہی نہیں۔ ”

 Jewish worshipers pray at the Wailing Wall. 

جبل الزیتون کے دامن میں حضرت مریم (ع) کا عظیم الشان مزار مبارک ہے۔ قرآن کریم میں ان کے نام سے پوری سورت ہے اور ان کی شان و شوکت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ وہ واحد خاتون ہیں جن کا قرآن حکیم میں نام سے ذکر ہے نا حوا، نا زلیخا، نا فرعون کی بی بی آسیہ اور نا ہی رسول اللہ (صل اللہ علیہ وسلم) کے خاندان کسی خاتون کا نام کے ساتھ تذکرہ ہے۔

حضرت عیسی (ع) کے مصلوب ہونے کے بعد بائبل میں حضرت مریم (ع) کا تذکرہ غائب ہے اور ان کے جائے مدفن کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے مگر پانچویں صدی کے بعد یروشلم میں موجود ان کا مرقد سب سے مستند ہے۔

یہاں یروشلم کا قصہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے (وقتی طور پر) اور اسرائیل میں اور بھی بہت زیارات باقی ہیں۔ مصنف بہت خوش قسمت ہیں کہ اب حاتم کی طرح ایک صاحب عبدالقادر اسرائیلی مسلمان جن کی ایک ٹریولنگ ایجنسی اور ذاتی ٹیکسی ہے مل جاتے ہیں۔ شروع میں تو مسافر بہت خبردار تھا کہ عبدالقادر پاکستانی مسلمان سے محبت جتاتے ہوئے کہیں لوٹ ہی نا لے اور یہ سچ ثابت ہوا تھا عبدل نے انھیں اپنی محبت اور خلوص سے اپنا اسیر بنا لیا تھا۔

اگلی منزلوں کے بارے ایک پلان طے پاتا ہے اور مسافر اپنی ترجیحات کے بارے میں واضح ہے جو کہ عبدل کے گوش گزار کی جاتی ہیں کہ سیاح کے پاس بس ایک ہفتہ ہے۔

حضرت موسی (ع) کا مزار، ہیبرون، بیت اللحم، بحیرہ مردار، حضرت لوط (ع) کی برباد بستیوں سدوم اور عمو کی باقیات، قمران کے غار اور جیرکو۔

صبح ٹھیک آٹھ بجے مسافر یہ سفر شروع کرتا ہے اور قاری بھی دھک دھک کرتے دل کے ساتھ نئے راستوں پر چلنے کے لئے بے چین ہے۔ حضرت موسی (ع) کا مزار یروشلم سے مشرق کی طرف شروع ہونے والے صحرائے یہودا میں واقع ہے اور دنیا کا سب سے چھوٹا صحرا ہے مگر اس ارض مقدس کی طویل تاریخ کا گواہ ہے۔ صحرائے یہودا ہی کے ایک کونے میں ”جیرکو“ ہے اور دمشق کی طرح دنیا کا قدیم ترین شہر ہونے پر مصر ہے کہ روایت کے مطابق نو ہزار قبل مسیح کا ہے۔ مرقد پر پہنچنے تک جو راستہ ہے اس کی تاریٖخی داستان پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

مرقد موسی (ع) پر وہی روایتی ماحول ہے جو عموماً ایس جگہ پر ہو تا ہے اور یہاں بھی اصل مرقد مبارک عام لوگوں کی نظر سے اوجھل ذرا ہٹ کر ایک تہہ خانے میں ہے۔ مزار پر انوار پر جو حالت مصنف کی ہے قاری صرف محسوس کرنے کوشش کر سکتا ہے۔

اب جیرکو جو وہاں سے قریب ہے وہاں پہنچنے کی جلدی ہے۔ وہاں پہنچ کر مسلمانوں کی روایتی بد نظمی ضرور دیکھنے کو ملی۔ بے ہنگم بے قابو ٹریفک اور کوڑا کرکٹ دل کو عجیب اطمینان بخشتا ہے کہ اپنے ہی لوگ ہیں۔ بے حد و حساب تاریخی شہر کی تفصیل دل پر عجیب اثر کرتی ہے اور وہ زمانے قاری کی نگاہوں کے سامنے گویا ان دیکھے ڈرامے کی طرح چلتے ہیں۔

مصنف نے عبدالقادر کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ جلد ہی وہ دونوں لازم و ملزوم ہو گئے تھے اور شاید اب ایسے لوگ عنقا ہیں، بہرحال اب منزل بحیرہ مردار یعنی Dead Sea ہے جو سمندر تو ہے نہیں بلکہ ایک جھیل ہے اور یہاں مسافر نے سائنسی آپریشن کے ذریعے بتایا ہے کہ اجسام اس میں ڈوبتے کیوں نہیں ہیں اور وہ پڑھنے والے کی دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ قریب کی نمکین پہاڑیاں موسم کے ساتھ اپنے خد و خال بدلتی رہتی ہیں سو ایک ایسی بڑی چٹان نے حضرت لوط (ع) کی نافرمان بیوی سارہ کا روپ دھار لیا ہے (ظاہر ہے کہ یہ بس ڈرامائی افواہیں ہیں)

یہاں قرآنی حوالے ہیں جو قدم قدم پر ”سبحان اللہ“ اور ”استغفراللہ“ کہنے پر مجبور کرتے ہیں اور مصنف کا بحیرہ مردار کی سطح پر لیٹ کر آرام کرنے کا تجربہ قاری کو ایک سنسنی خیز کیفیت میں لے جا تا ہے۔

اب کہاں جانا ہے؟

عبدل کے اس سوال کے جواب میں مسافر نے سدوم اور عمو کی برباد بستیاں کھو جنے کا اعلان کیا۔ مگر عبدل کا مسافر کو منع کرنا کہ اللہ نے اس جگہ کو مطعون قرار دیا ہے اور ہمارے نبی (ﷺ) مسلمانوں کو وہاں جانے سے منع فرمایا ہے لیکن مسافر کا کہنا کہ وہ تاریخ کا طالبعلم ہے اور اپنی نظروں سے دیکھنا چاہتا ہے تو یہ اصرار قاری کو عجیب معلوم ہوتا ہے مگر بہر حال عبدل نے مسافر کو تقریباً ایک میل منزل سے پہلے اتار دیا اور خود آگے جانے صاف صاف انکار کر دیا۔

مصبف جب چل کر اس برباد اور منحوس خرابے کی جگہ پہنچے اور پیالہ نما گڑھا جس میں تمام ملعون اور مردود غرق تھے اور وہ حضرت لوط (ع) کی تعلیمات کا مذاق اڑاتے اور ہم جنسی پر مصر تھے۔ قاری کو پڑھتے ہوئے جس کراہت اور گھن کا احساس ہوتا ہے اس کا لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔ یہاں مسافر کا نشانی کے طور پر مٹھی بھر سنگریزے اٹھا نا اور معلوم ہونے پر عبدل کا سختی ان کو باہر پھینکوانا بھی ایک واقعہ ہے اور پھر جس طرح وہ لوگ تیزی سے وہاں سے رخصت ہوتے ہیں۔ اب وقت ہوا چاہتا ہے قمران کے غاروں کو کھوجنے کا، تو چلیے پھر!

بحیرہ مردار کے شمالی کنارے ساتھ چلنے والی سڑک جب ختم ہوتی ہے تو سامنے نظر آنے والی چونے کی پہاڑیاں ہیں اور ان کی چوٹیوں پر چھوٹے چھوٹے غار ہیں۔ ان غاروں سے ہزاروں سال پرانا مذہبی صحائف کا متنازعہ ذخیرہ ملا تھا جو 1946۔ 47 میں تین چرواہے جو آپس میں رشتے دار تھے نے اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ یہ صحائف کیا ہیں اور ان کی اہمیت کیا ہے بہت تفصیل سے بیان ہے اور یقیناً قاری کو مسحور کرتا ہے۔

یہاں سے نکل کر حضرت راحیل (ع) کے مرقد مبارک کی زیارت ہوتی ہے جو حضرت یوسف (ع) اور حضرت بنیامین (ع) کی والدہ تھیں۔ یہاں سے مسافر واپس یروشلم لوٹتا ہے اور عبدالقادر اگلے دن ہیبرون کی زیارت کے وعدے پر رخصت ہوتا ہے مگر مسافر کو تھکن کے باوجود اس شام کو ضائع نہی کرنا سو وہ پھر قاری کے دل کو تھامے باہر نکل کر ایک پتھریلے راستے پر رواں دواں ہے جو ”شاہراہ کرب“ کہلاتا ہے اور اس پر عیسائیوں کے تمام فرقے متفق ہیں کہ حضرت عیسی (ع) کو یہیں سے عین اس مقام گرفتار کیا گیا جہاں آج کل چرچ آف آل نیشنز موجود ہے۔

یہاں ایک لمبی اور ہر قدم پر اس واقعے کی تفصیل ہے مگر چونکہ وہ چاروں بائبلز میں مختلف طریقے سے بیان کی گئی سو اسی طرح یہ کنفیوز بھی کرتی ہے مگر یہ داستان الم ہمارے عقیدے کے لحاظ سے غلط العام ہے تو قاری بھی اس سے خود کو relate نہیں کر پاتا۔

ہیبرون کا مطلب عبرانی میں ”دوستی اور ملاپ“ ہے مگر یہاں صیہونی انتقام اور جبر اور ریاستی ظلم کی مثال نہیں ہے۔ ان مظالم کا بھیانک پہلو اسرائیلی اور عرب کی کسی بھی جرم کی سزاؤں میں فرق بھی ہے۔ شہر دو حصوں میں منقسم ہے H۔ 1 اور H۔ 2۔

ایچ ون میں فلسطینی آباد ہیں اور مسلمان علاقوں والی تمام خامیاں اور علتیں نمایاں ہیں۔ کاریں کم ہیں اور دھول مٹی مکھیاں اڑتی زیادہ نظر آتی ہیں۔

ایچ ٹو جانے کی خواہش پر قادر سمیت بہت لوگوں نے مسافر کو منع کیا کہ وہاں شیطان کے رشتہ دار آباد ہیں مگر نہیں بھئی جانا ہے تو بس جا نا ہے۔

یہاں پر روزمرہ زندگی میں جو فرق تھا سو تھا مگر مسافر کے بقول یہاں قادر اور مسافر کا اسرائیلی فوجیوں سے ہاتھا پائی ہو گئی اور ”جان بچی سو لاکھوں پائے“ کے مصداق واپسی کی راہ لی اور عبدالقادر نے مسافر کی پاکستانی کھانے کی خواہش الہ دین کا گویا چراغ رگڑ کر پوری کر دی۔ ممریز راجہ نامی بزرگ کون تھے کب سے وہاں آباد تھے اور سب سے بڑھ کر مسافر کے گرائیں یعنی راول پنڈی کے نواحی تھے۔ یہ داستان امیر حمزہ (جو رو رو کر سنائی گئی اور مسافر کو بھی رلایا ) بھی صرف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے مگر قلمبند کرنا ہمارے بس کا روگ نہیں ہے۔

انھوں نے ہی انکشاف کیا کہ سیدنا حضرت یونس (ع) کا مرقد مبارک بھی اسی شہر (حلحول) میں ہے۔ مگر خبروں میں آیا تھا کہ داعش نے اسے موصل میں ڈائنامائٹ سے اڑا دیا تھا۔ مسافر اور قاری دونوں کے لئے یہ انکشاف تعجب کا باعث ہے۔

جائیے جا کر فاتحہ پڑھ آئیے تب تک کھا نا تیار ہو جائے گا۔

اندھا کیا چاہے، بس تو پھر چل پڑے اور جب اچانک اپنے آپ کو مسجد یونس (ع) میں پایا تو امام صاحب سے ملاقات ہو گئی اور مغرب کی نماز کے بعد وہ کونے میں بنے مزار تک لے گئے اور فاتحہ کے بعد نرمی سے بتایا کہ دنیا میں صرف دو مزارات مستند ہیں (سید نا ابراہیم ع اور آقائے دو جہاں محمد مصطفے ﷺ) باقی سب کے بارے میں اس قدر تضادات ہیں کہ جہاں بھی موقعہ ملے بس عقیدت سے فاتح پڑھ لیں۔ مسافر کے کچھ سوالوں کے جواب سے ان کا گریز قاری کی سمجھ سے باہر ہے۔

بہترین پاکستانی کھانا کھانے کے بعد رات بھی راجہ ممریز کے ساتھ گزار کر اگلے دن واپس یروشلم کی راہ لیتے ہیں مگر دل ہے کہ راجہ صاحب کے لئے پگھلے ہی چلا جا رہا ہے کیو نکہ دل ہے پاکستانی!

یروشلم پہنچ چکے ہیں۔ ایک دو دن میں اب اب روانگی ہے مگر ایک اداسی کی کیفیت ہے سو دوبارہ مسجد اقصی اور کلیئسہ آلام کا دورہ کیا جاتا ہے اور ذہن میں ہے کہ دیوار گریہ تک نہیں پہنچے اور یہ بات قاری کے دماغ میں تو پہلے دن سے ہے۔ اصل وجہ وہی بے پناہ رکاوٹیں اور پوچھ گچھ ہے۔

اہل یہود کے لئے دیوار گریہ سب سے مقدس مقام تصور کیا جا تا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت داؤد (ع) کے آنے سے ہزار سال پہلے ایک عبادت گاہ کی تعمیر شروع ہوئی مگر اس کو بابل کے حکمران نے تعمیر کے 586 سال بعد برباد کر دیا۔ یہاں ان کے بادشاہ ہیرڈ نے انیس قبل مسیح میں بہت کام کیا مگر پھر روم کے بادشاہوں کی طرف سے دوبارہ تباہ کر دیا گیا اور تابوت سکینہ بھی غائب ہو گیا۔ موجودہ دیوار چونکہ بیرونی دیوار تھی اس لئے اسے در خورد اعتناع نا سمجھا گیا تو یہودیوں نے بھی اسی کو ہیکل سلیمانی کی نشانی سمجھ کر مقدس ترین کا درجہ دے دیا۔

جب رومی یہاں کے حکمران بنے اور عیسائیت اختیار کر لی تو یہودیوں کو صرف سال میں ایک مرتبہ شہر میں آنے کی اجازت تھی تو جب وہ آتے تو اس ”ظلم“ پر دھاڑھیں مارتے مقدس دیوار سے لپٹتے تھے۔ عیسائی حاکموں اور ان کے حواریوں نے تمسخر اور تضحیک سے اس کا نام دیوار گریہ رکھا۔ یہودی اسے ”کوتل“ یعنی مغربی دیوار کہتے ہیں اور اپنی منتوں کی پرچیاں اس میں اڑستے رہتے ہیں۔

دیوار گریہ کے ساتھ ساتھ مصنف کو سید نا داؤد (ع) کے مرقد مبارک تک رسائی ہوئی اور ان کی حیات مبارکہ کی تاریخ بھی سامنے آتی ہے۔

آخری رات عبدالقادر نے اپنے خاندان کو ملوانے کے لئے ڈنر پر انوائیٹ کیا اور اپنی محبت، مہمان نوازی اور کرم فرمائی سے دل کے ڈاکٹر کا دل ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھ لیا، کہنے کو وہ عرب نیم خواندہ تھا مگر دلنوازی اور دلداری میں یقیناً ڈبل پی ایچ ڈی تھا۔

یہاں ہم ڈاکٹر صاحب کے الفاظ من و عن درج کر کے اس سحر انگیز تجربے کا اختتام کرتے ہیں
”جہاز میں بیٹھے جب اعلان ہوا:
اسرائیل کی مقدس سرزمیں کو ہم خیرباد کہتے ہیں

تو فربہ اندام یہودی بیبیاں ہچکیاں لے لے کر اشکبار تھیں۔ انھی مسافران دل گزیدہ میں جوہانسبرگ کے ایک سنگدل ہارٹ سرجن کے دو آنسو بھی اشک رواں کی اس لہر میں چپکے سے شامل ہو گئے تھے!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments